سیاسی تربیت اور خالی پیپے


جمہوری نظامِ ہائے حکومت میں سیاسی جماعتیں کلیدی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ جمہوریت کی نشوونما انہی کی کاررکردگی اور قیادت سے نتھی ہوتی ہے۔ اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس ملک گیر مقبولیت، ذمہ دار اور دیانت دار قیادت، ملکی و قومی اُمنگوں کے منشور ونظریات ہوں تو وہ ملک جمہوری روایتوں کا امین کہلاتا ہے، اُن ممالک کی جمہوریت کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ ہمارے سامنے ہیں اور اپنی انہی جموری روایتوں کی بدولت ہی یہ ممالک اقوامِ عالم میں نمایاں ہیں۔ وہاں کثیر جماعتی نظام نہیں بلکہ دو یا حد تین عدد سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک مربوط سیاسی نظام ہے۔

دوسری جانب یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ ممالک جہاں ملک گیر سیاسی جماعتوں کا فقدان ہے وہاں کثیر جماعتی نظام موجود ہونے کی وجہ سے جمہوریت ہمیشہ غیر مستحکم رہتی ہے۔ کثیر جماعتی نظام کی وجہ سے انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر پاتی اورحکومتیں ہمیشہ شراکتی بنیادوں پر تشکیل پاتی ہیں۔ مختلف سیاسی نظریات کے حامل یہ سیاسی گروہ صرف و صرف اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر جمہوریت کا ڈھونگ رچا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ ایسی سیاسی حکومتیں زیادہ مستحکم نہیں ہو تیں۔

جب ان کے مفادات آپس میں ٹکراتے ہیں اور مطالبات پر ضرب پڑتی ہے تو یہ اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جس سے ملک میں سیا سی بحران پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ جمہوری عمل بھی متاثرہو تا ہے۔ یوں حکومتوں کے غیر مستحکم ہونے کے باعث عوامی فلاح وبہبود کے کا م بھی تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں، ترقیاتی منصوبے کھٹائی میں پڑ جا تے ہیں۔ عوام میں بے چینی کی شدید لہر جنم لیتی ہے اور ترقی کا عمل رُک جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ایسے ممالک معاشی عدمِ استحکام اور انتشار کا شکار رہتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اتحادی جمہوریت سازی کے بعد بننے والی غیر مستحکم وزارتیں ہمیشہ معاشی، سیاسی اور معاشرتی مسائل کو جنم دینے کا باعث بنتی ہیں ناکہ جمہوریت اور جمہوری روایات کی آبیاری کا سبب۔ خالی پیپے ہیں یہ سارے، جو عوام کو بجانے پڑتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کا ہوسِ اقتدار ہی انہیں ہمیشہ ایک دوسرے کے قریب لے جاتا ہے اور یہی انہیں اک دوجے کا حریف بھی بناتا ہے۔ اتحاد کے یہ ہوائی قلعے زیادہ دیر تک اپنا وجود قائم نہیں رکھ پاتے اور جلد ہی زمین بوس ہوجاتے ہیں۔ اسی پس منظر میں جب ہم عوامی جمہوریہ پاکستان کی گذشتہ ستر سیاسی اور جمہوری تاریخ کا جائزہ لیں تو ہر چیز پانی کی طرح صاف نظر آتی ہے، یہاں حکومت سازی کو لے کرسیاسی اتحادوں کا بننا اور ٹوٹنا کوئی نئی یا معیوب بات نہیں ہے۔ یہ گندگی بڑے فخر کے ساتھ ہم مسلسل اٹھائے پھر رہے ہیں۔

جس ملک کے چار صوبے ہوں، اور اکیس کروڑ سے زائد کی آبادی ہو اور مختلف تہذیبی، لسانی اور مذہبی رجحانات کے حامل لوگ بستے ہوں وہاں پر 337 سے زائد سیاسی جماعتوں کی موجودگی کوئی بڑی بات نہیں۔ جہاں اپنے مفادات کو لے کر ہر طبقے نے مختلف بنیادوں پر سیاسی دھڑے بنا رکھے ہوں، وہاں آئین صرف ایک ٹشو پیپر ہے، جس سے ہر موقع پرست نے اپنا گند صاف کیا۔ جہاں پر اہم عوامی عہدوں پر متنازعہ لوگ بیٹھے ہوں یا وہاں کیسی جمہوریت اور کیسا نظام اور کیسی روایتیں؟

پاکستان اپنے قیام سے ہی سیاسی اتحادوں کا مرکز رہا ہے تاریخ شاہد ہے کہ اگر صبح ایک اتحاد بنتا تو شام تک دوسرے کی خبر آ جاتی تو اُسی رات کسی تیسرے سیاسی اتحاد بننے کی تیاریاں ہو رہی ہوتیں، جو جماعت صبح تک ایک کی حریف ہے تو شام تک دوسرے کی حلیف بن جاتی۔ 1956 تک یہ سلسلہ اس قدر تواتر سے جاری و ساری رہا۔ معتدد اشخاص وزیراعظم کے عہدے پر آتے جاتے ہے تو انڈیا کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ فقرہ چست کیا کہ میں اس قدر پاجامے نہیں بدلتا جس قدر پاکستان میں وزیراعظم بدل جاتے ہیں۔ ہماری سیاسی نا اہلی نے کس کس کو زبان نہیں دی۔

اقتدار کی ہوس ہی ان کے درمیان اک قدر مشترک ہے، اس اتحادی سیاست نے جمہوریت کی ترقی میں تاحال کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کیا۔ صرف کرسی کا حصول ان کو باہم شیر و شکر ہونے پر مجبور کرتا ہے اور اسی عنصر کی وجہ سے ملک میں سیاسی اداروں میں عدمِ استحکام ہے اور لولی لنگڑی جمہوریت موجود ہے۔ جس کی خامیاں ہمیشہ فوجی حکومتوں کے آنے کا سبب بنی اور بعد میں انہی سیاسی دھڑوں نے ان باوردی جمہوریتوں کا ساتھ دے کر جمہوریت کو یرغمال بنائے رکھا۔ ہمارے ہاں تو دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ایک جماعت اگر مرکزی سطح پر حمایت کر رہی ہے تو وہی صوبائی سطح پر اُس کی مخالفت کرتی نظر آتی ہے جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، مثلاً عوامی نیشنل پارٹی جس نے 1988میں مرکز میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور پی پی پی کی حمایت کی مگر صوبائی سطح پر اس کی مخالفت کی۔

ملک میں موجود کثیر جماعتی نظام نے یہاں جمہوری روایات کی نفی کی ہے پاسداری نہیں۔ جبکہ پاکستان کی سیاست کا ایک تاریخ پہلو یہ بھی ہے کہ 1977 کے بعد ہمارے ہاں بھٹو اور اینٹی بھٹو سیاسی ازم دیکھنے میں آیا اور عوام کو شخصیت پرستی میں الجھا دیا گیا اور سیاسی اتحاد بھی اُسی تناظر میں بنتے۔ وقت نے کڑوٹ بدلی تو امریکہ مخالفت، مشرف، زرداری اورنوازشریف مخالفت کے نعرے لگا کر انتخابی اتحاد تشکیل پا رہے ہیں۔ کل جو ایک ساتھ دیکھے جاتے تھے اختلافات کی بنیاد پر دوسروں کے ساتھ بیٹھ گئے۔

سیاسی اور جمہوری سوچ کی اس سے بدترین صورت اور کوئی نہیں ہو گی، کثیر سیاسی جماعتی نظام، نا اہل اور مطلبی سیاسی قیادت اور عوام میں سیاسی شعور و آگاہی کا فقدان غیر متزلزل جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔
پاکستان میں اگر جمہوریت کو پروان چڑھانا ہے تو سیاسی جماعتوں کی تشکیلِ نو کرنا ہو گی اور چھوٹے چھوٹے مفاداتی گروہوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان فرق کو واضح کرنا ہو گا۔ ورنہ کل کو چاروں صوبوں کی اپنی اپنی 100 سے زائد سیاسی جماعتیں اپنے جھنڈے گاڑے بیٹھی ہوں گی اور یہ سیاسی مداری اپنی اپنی ڈفلی پر قو م کو اور پھر حکومتوں کو نچانا شروع کر دیں گے۔

قوم کی سیاسی تربیت اس طرح سے ممکن نہیں کہ آپ اُن کو اپنی شخصیت کے جال میں الجھا لیں بلکہ اس کے لئے اُن کو موقع دیا جائے کہ اور سچ اور جھوٹ کو خود پرکھیں۔ اس حوالے سے ذرائع ابلاغ کا کردار سب سے اہم ہیں مگر اس کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ اُن پر حکومتی عمل دخل کم ہو اور مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ خالی پیپے میڈیا نے ہی زیادہ بجائے اور اب تک بجا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).