زخم خوردہ ہوں، شکست خوردہ نہیں


\"domestic\"میں چھ سال کی تهی جب میں نے پہلی بار جانتے بوجهتے اپنے باپ کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ میری ماں کو دبوچتے ہوئے انہوں نے مجهے فرائنگ پین لانے کا حکم دیا تها۔ میں ننگے پاؤں باورچی خانے میں کھڑی برتن کو گھور رہی تهی۔ میری نگاہ اس کی پشت پر ابهری ہوئی گولائی پر تهی۔ اس کا نشان ماں کے بدن پر نظر آئے گا۔ وہ دفتر میں کوئی بہانہ نہیں بنا سکے گی۔ میں وہیں کھڑی اس پر برسنے والے مکوں کی دهمک سنتی رہی۔ جولائی کی بارشیں کراچی پر برس رہی تهیں، نالے ابل رہے تهے اور مجهے بجلی کے تاروں سے اچٹتی چنگاریوں کی آوازیں سنائی دے رہی تهیں۔ میں نے اسے فرائنگ پین نہیں دیا۔

میں آٹھ سال کی تهی جب مجهے یہ اندازہ ہوا کہ ستم ظریفی کسے کہتے ہیں۔ میں اپنے استعمال شدہ چیزوں کی دکان سے خریدے ہوئے بستر پر اوندھی لیٹی ہوئی تهی۔ میرے ڈوبتے ابهرتے حواس اس حد تک بحال ضرور تهے کہ میں اپنی کمر پر اس بے رنگ مادے کی آرام دہ ٹھنڈک کو محسوس سکتی تهی اور اس مشاقی کو بهی جس سے وہ اپنے لگائے ہوئے ہر زخم پر پولی فیکس کا لیپ کر رہا تها۔

میری عمر چودہ سال تهی تو مجهے بچ نکلنے بلکہ یوں کہیے کہ کم از کم زخم کھانے کا سلیقہ آ گیا۔ اول اپنی جانب پیش قدمی کا اندازہ لگاؤ، دوسرے گھسنے کے لیے نزدیک ترین کونا تلاش کرو۔ سر جھکا لو، ہاتھ چہرے پر رکھ لو اور چہرہ اسے موڑ کر جوڑے ہوئے گهٹنوں اور سینے کے بیچ خلا میں دفن کر دو۔ ان دنوں اس کا پسندیدہ ہتھیار ایک نیلی ہموار تلے والی ربڑ کی چپل تهی جو اس کے چوڑے اور اتنے ہی ہموار ہاتھوں کے مقابلے خاصی نرم تهی۔ چھ یا سات وار کر کے وہ رک جائے گا اور مجهے کوئی گہرا زخم نہیں آئے گا۔ اس کے بعد میں نزدیک ترین غسل خانے میں رینگ جاؤں گی اور شیشے میں اپنے چہرے کو دیکهوں گی۔ پلٹوں گی گردن گهما کر کمر کا جائزہ لوں گی۔ اپنے بازوؤں کو گهما گهما کر اور ٹانگوں کے پیچھے ہاتھ سے چھو کر ہر زخم کو اپنی یادداشت کی ڈائری میں درج کروں گی۔ نیلاہٹ لیے سبز اور سبزی مائل نیلے نشانوں کو، خون کے ہر ابهر آنے والے قطرے کو، اور ہر ان دیکھے درد کو۔

ہو سکتا ہے آپ یہ جاننا چاہیں کہ میں اپنی کہانی کے ٹکڑے کیوں دہرا رہی ہوں؟ یادداشت کے اندھے کنوئیں کی تہہ میں دھکیلی ہوئی ان باتوں کو دنیا کے دوسرے کونے کے ایک قہوہ خانے کی میز پر بیٹھ کر کهود نکالنے کا مقصد کیا ہے؟ میں آپ کو بتاؤں گی کہ یہ کشٹ اٹھانے کہ وجہ صرف اتنی ہے کہ یہ مجھ اکیلی پر نہیں بیتی۔ یہ اذیتیں خاندان در خاندان، گروہ در گروہ اور قوم در قوم صرف عورتوں کو اٹھانی پڑتی ہیں۔ خاندان کے مردوں کا تشدد ایک ایسی چیز ہے جس کا سامنا کسی نا کسی شکل میں پاکستان کی زیادہ تر نہیں تو بہت سی خواتین کو کرنا پڑتا ہے۔

2011 میں رائٹرز کے ایک سروے میں پانچ براعظموں کے 213 ماہرین صنفی علوم نے پاکستان کو عورتوں کے لیے دنیا کا تیسرا خطرناک ترین ملک قرار دیا تها۔ اس سروے کے مطابق نوے فیصد پاکستانی لڑکیاں گھروں پر بدسلوکی کا نشانہ بنتی ہیں۔ 2013 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق چھ شہری ضلعوں کی پولیس کے اکہتر میں سے چار افسر 2011 میں خواتین مخالف سرگرمیوں کے حوالے سے بنائے گئے اس قانون سے ناواقف تهے جو خواتین پر تشدد کو جرم قرار دیتا ہے۔ 2011 میں صرف پنجاب میں خواتین کے خلاف تشدد کے 5800 مقدمات درج ہوئے تهے اور 2014 میں ان کی تعداد بڑه کر 7010 تک جا پہنچی تهی۔ یہ بات بهی اہم ہے کہ تشدد کا ہر واقعہ اعداد و شمار کا حصہ نہیں بن پاتا۔ بہت سی خواتین تها نے تک نہیں پہنچ پاتیں۔ میں یہ اس لیے جانتی ہوں کہ میری والدہ بهی ایسی ہی خواتین میں سے ایک ہیں۔ پچھلے چوبیس سال سے وہ ایک پر تشدد ازدواجی زندگی کو خاموشی سے جھیل رہی ہیں۔ پچھلے بیس سال سے میں اس میں ان کی مددگار تهی۔

تشدد کے اتنے زیادہ واقعات کے باوجود پاکستانی علما دین اور مذہبی سیاسی جماعتوں کا ایک گروہ دنیا کو یہ بتا رہا ہے کہ گھریلو تشدد کے خلاف قانونی تحفظ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ 2014 میں جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کی ایک خاتون سینیٹر نے برہم ہو کر یہ سوال اٹهایا کہ اگر ایک خاوند کو اپنی بیوی پر تشدد کرنے پر جیل جانا پڑے تو کیا خاندان ٹوٹ نہیں جائے گا؟ اسی جماعت کے سربراہ تب سے ہمیں خبردار کر رہے ہیں \”(یہ بل) خاندانوں کو تقسیم کردے گا اور اس سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہو گا۔\” ان کا خیال اگر ذرا مختلف الفاظ میں بیان کیا جائے تو میری والدہ اور مجھ جیسی عورتوں کو گھریلو تشدد کے خلاف کوئی ہاٹ لائن اور مردوں کی طرف سے تشدد کے خلاف کوئی مخصوص پناہ گاہ میسر ہو تو مرد غیر محفوظ اور مظلوم محسوس کریں گے، طلاق کی شرح آسمان سے باتیں کرنے لگے گی اور مشرقی اقدار کو مغربی طرز زندگی سے شکست ہو جائے گی۔ فضل الرحمان اور ان کے حامیوں کے خیال میں یہ اقدامات مردوں کو عورت اور عورتوں کو مرد قرار دینے کے مترادف ہیں۔ یوں کہیے کہ ان کے یہاں تشدد مرد کا حق ہے اور خاموشی عورت کا فرض اور یہ حسین توازن قانون متعارف کرنے سے تباہ ہو جائے گا۔

میری پرورش اپنی ماں پر اچھالے جانے والے ایسے سوالوں کے بیچ ہوئی تھی۔ دو بار جب اس نے شدید تشدد کے بعد اپنے بھائی کے گھر پناہ لی تو اس نے میری ماں کو جیسے کہ کہا جاتا ہے خاندان کی خاطر سمجھا بجھا بلکہ بہلا پھسلا کر اپنے شوہر کے گھر واپس جانے پر مجبور کیا۔ اس پر تیسرا حملہ ہوا تو اس نے مدد نہیں مانگی۔ اس کے بجائے اس نے اپنی جان لینے کی نیم دلانہ کوشش کرتے ہوئے برتن دھونے کا محلول پی لیا۔ ہمارے خاندانی معالج کو بلایا گیا۔ ڈاکٹر نے اس کے بستر پر اس کا معدہ صاف کرتے ہوئے اس کے ساتھ خاندانی جھگڑوں کے بارے ہلکی پھلکی بات چیت کی اور ہنستا رہا۔ میں سای رات جاگتی اور اپنی ماں کے اگلے ہوئے خون اور رطوبت ملے زرد لیمن میکس کو دیکھتی رہی۔

مجھے اور میری ماں کو کبھی قانونی مدد ملنے کا یقین نہیں تھا۔ لیکن ہر مقابلہ کرنے والی ماں بیٹی کی جوڑی کی طرح ہم نے اپنی طرز کی مزاحمت کی اور خود کو زندہ رکھنے کے طریقے ڈھونڈ لیے۔ جب میرا باپ اسے صبح سویرے مارتا تھا تو وہ اس تشدد کے باوجود اس دن دفتر جاتی تھی۔ جب وہ اس کے سفید کڑکڑاتے ہوئے کرتے کو غصے کے دورے میں دھجیاں کر دیتا تھا تو وہ ان دھجیوں سے میرے لیے ایک چھوٹی سی قمیض بناتی تھی۔ جب وہ مجھے اندھیرے کمرے میں بند کر کے ہڈیاں توڑ دینے کی دھمکی دیتا تھا تو وہ میرے کمرے میں آ کر روشنی کرتی تھی۔ جب اس نے میرے موم بتیاں بجھانے سے پہلے سالگرہ کے لیے لائے ہوئے کیک کو زمین پر پٹخ دیا تو ہم نے مل کر فرش صاف کیا۔ میری ماں اتوار کو گھر کی جھاڑ پونچھ کرتے ہوئے اکثر ان چیزوں کو جھاڑا کرتی تھی جن سے اسے مارا جاتا تھا۔ اس دوران ہمارے چھوٹے سے کیسٹ پلئیر پر لیونل رچی اور پنجابی موسیقی کا انتخاب چل رہا ہوتا تھا۔

میں سوچتی ہوں کہ اگر ہمیں مدد کے لیے ایک فون نمبر ڈائل کرنے کی سہولت میسر ہوتی تو کیا ہماری زندگی مختلف ہوتی۔ میں سوچتی ہوں کسے معلوم ہم لگنے والے آخری زخم یا ملنے والی پچھلی دھمکی کے بارے میں ایک خاتون افسر سے بات کرنے فیملی کورٹ چلے گئے ہوتے۔ میں اپنے ماضی کو دہرا نہیں سکتی نا اپنی اس ماں کی ترجمانی کر سکتی ہوں جس کی ہمت اور برداشت کسی بھی انسان کی ضرورت سے زیادہ تھی۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اگر میرا باپ جانتا کہ میں ایک نمبر ملا کر اسے گرفتار کروا سکتی ہوں تو وہ مجھے فرائنگ پین لینے بھیجنے سے پہلے ایک بار سوچتا ضرور۔ میں جانتی ہوں کہ میری ماں اس بات کو ضرور سراہتی کہ ہمارے مرد رشتہ داروں کے ہم سے منہ موڑنے کے بعد بھی ہمارے پاس کوئی پناہ گاہ کوئی چھت دستیاب ہے۔

پاکستان میں گھریلو تشدد کا شکار ہونے والوں کی اکثریت مجھ سے اور میری ماں سے کہیں زیادہ غریب اور بے یار و مددگار ہے۔ مجھے بھوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور میرے پاس پڑھنے کو کتابیں بھی ہمیشہ دستیاب تھیں۔ میری ماں کے پاس ایک نوکری اور اپنے پیسے سے لی ہوئی ایک گاڑی تھی۔ ستم ظریفی یہ کہ ہم ان اپنی تمام آسائشوں۔۔ تعلیم، تین وقت کے کھانے، اور سماجی انصاف کے مسائل بارے جانکاری۔۔ کے باوجود گھریلو تشدد کا شکار تھے۔ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ تشدد کم آمدنی اور کم تعلیم والے والے خاندانوں میں ہوتا ہے تو ہم اس کے خلاف ایک دلیل ہیں۔ پدرسری تشدد معاشرے کے کسی ایک درجے تک محدود نہیں۔ ہم سب کو مدد کی ضرورت ہے کچھ کو کم کچھ کو زیادہ۔

ہم ماں بیٹی ان مذہبی رہنماؤں کی طرف سے گھریلو تشدد کی حمایت میں دیے جانے والے دلائل خاموشی سے سنتے آئے ہیں۔ مجھے تشدد سے دور ہوئے پندرہ ماہ ہو گئے ہیں اور یہ شاید جسمانی اور زبانی بد سلوکی میں سب سے بڑا وقفہ ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ میں اب اپنے گھر میں نہیں رہتی۔ میں ایک اور ملک ایک اور براعظم میں ہوں۔ میری ماں اب تک گھر پر ہے۔ اتنی بیمار اور کمزور کہ اب وہ تشدد نہیں سہ سکتی۔ وہ مر جائے گی۔ اسے اب بھی لیونل رچی پسند ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ لوگ میری آنکھوں اور اس کی آنکھوں میں مماثلت تلاش کریں کیونکہ کبھی کبھی بھوری نظر آنے والی اس کی بے رنگ آنکھوں میں وہ اداسی ہے جو عمر بھر ایک گہرا درد سہنے کا نتیجہ ہے۔ ادھر میں اونچی آوازوں سے ڈر جاتی ہوں، پر تشدد فلموں سے دور رہتی ہوں اور مارا گیا کے بجائے نشانہ بنایا گیا لکھتی ہوں کیونکہ نشانہ بنایا جانا، مارے جانے سے مختلف ہے۔ مجھے کوئی نہیں مار سکتا۔ میں شکست خوردہ نہیں ہوں۔

مصنفہ امرہکہ میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ نو آبادیات رہنے والے معاشروں میں صنف اور سیاست کا تعامل ان کی تعلیمی دلچسپی کا محور  ہے۔

ترجمہ سلمان حیدر (بشکریہ تنقید)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments