دودھاری سفارتکاری ۔۔


دو ہزار نو کے اواخر کی بات ہے ساڑھے سات ارب ڈالرکی امریکی امداد سے متعلق کیری لوگربل پاکستان میں گرما گرم بحث کا موضوع تھا۔ پاک فوج اس بل کے بعض نکات کو پاکستان کی قومی سلامتی سے متصادم قراردیتے ہوئے ایک اعلامیہ جاری کرچکی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت کو اس بل کے حوالے سے خدشات سے آگاہ کیا جا رہا ہے تاہم ’عوام کی رائے کی نمائندگی پارلیمنٹ کرے گی۔ ‘

اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اسی پارلیمنٹ میں کہہ رہے تھے کہ ’کیری لوگربل پر‘ فوج سمیت تمام جماعتوں ’ کو اعتماد میں لیا جائے گا‘ پارلیمان اور فوج ’ کو اس بل پر تحفظات ہیں تو انہیں دور کیا جائے گا‘۔ اس جملے میں ’ تمام سیاسی جماعتوں‘ اور ’پارلیمان‘ کے الفاظ کو مہمل سمجھا جائے یعنی ایسے الفاظ جن کے اپنے کچھ معنی نہ ہوں لیکن جب یہ الفاظ کلمہ سے ملیں تو کچھ معنی بناتے ہوں۔

کیری لوگربل کے تحت دو ہزار چودہ تک پاکستان کی امریکی امداد تین گنا کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا یہ امداد پاکستان میں سکولوں اور سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ جمہوری اداروں کے قیام کے لئے دی جا رہی تھی۔ بل میں اگرچہ اقتصادی امداد پر کوئی شرط عائد نہیں کی گئی تاہم عسکری امداد پر دو اہم شرائط عائد کی گئیں ایک یہ کہ سالانہ بنیادوں پر جانچا جائے گا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں کیا کارکردگی دکھا رہا ہے؟ اور دوسری یہ کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے اقدامات کرنے کے علاوہ ان افراد کے خلاف بھی کارروائی کرے گا جو ایٹمی سمگلنگ میں شامل ہیں۔

پاکستان کے وزیرخارجہ اس وقت بھی شاہ محمود قریشی تھے جو اکتوبر2009 میں چند ہی روز کے دوران واشنگٹن کے دوسرے دورے پر روانہ ہو رہے تھے روانگی سے قبل ایئرپورٹ پر انہوں نے اس اعتماد کا اظہارکیا کہ انہیں پاکستان کی فوجی اور سول قیادت کا بھرپور تعاون حاصل ہے اور وہ مکمل اعتماد کے ساتھ امریکی حکام سے کیری لوگر بل پر مذاکرات کریں گے ( بعد کے دنوں میں البتہ انہیں فوجی اورسول قیادت دونوں جانب سے عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا ) ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ وہ امریکی صدر باراک اوباما کو کیری لوگر بل پر دستخط کرنے سے روکنا نہیں چاہتے بلکہ اس بارے میں پاکستان میں پائے جانے والے تحفظات اور اسلام آباد کا موقف واضح کرنا چاہتے ہیں شاید موخرالذکر یہی بات ’ بھرپورتعاون ’ اور‘ مکمل اعتماد ’ کی نشانی تھی۔ اس کے ساتھ ہی خارجہ پالیسی کے ’مائی بیسٹ فرینڈ ’ والے مضمون کا مرکزی خیال بھی سنا دیا کہ ’ ملکی وقار اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ‘

انہی دنوں امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی کو وطن واپس بلائے جانے سے متعلق اطلاعات آنا شروع ہو گئی تھیں طاقتورحلقے ان سے خوش نہیں تھے۔ صحافیوں نے اس بارے میں وزیر خارجہ سے پوچھا تو انہوں نے کوئی واضح جواب دینے سے انکار کیا تاہم اس خبر کو افواہ اور قیاس آرائی قرار دیا۔ یہیں سے شروع ہوئی بات بعد ازاں میمو گیٹ پر منتج ہوئی تھی۔ (میرا اندازہ ہے حسین حقانی صاحب اس بارے طاقتور حلقوں والی کتاب یا پھراس پیج پرنہیں تھے )۔

آصف زرداری جو صدر پاکستان بھی تھے کی قیادت میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی ابتر معاشی حالات میں اس بل کو نعمت سمجھ رہی تھی لیکن فوج کی جانب سے تحفظات کے بعد شدید دباؤ کا شکار تھی میڈیا پر اپوزیشن جماعتیں، اینکر پرسن، تجزیہ نگار اور ماہرین فوج کے تحفظات کو اس انداز میں بیان کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے کہ گویا اصل حکمران فوج ہے جبکہ صدرِ مملکت، وزیراعظم اور پارلیمنٹ اس کے زیر انتظام چلنے والے ذیلی ادارے ہیں۔

بات ہورہی تھی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ واشنگٹن کی۔ موصوف جس ہوٹل میں مقیم تھے علی الصبح امریکی نمائندہ خصوصی برائے پاکستان وافغانستان رچرڈ ہالبروک وہاں آن پہنچے دونوں نے دانستہ کمرے سے باہرآکر لابی کے ایک کونے میں کھڑے ہوکرکچھ گفت و شنید کی جو سیڑھیوں میں موجود ایک صحافی کے کیمرے نے قید کرلی خاص بات یہ تھی کہ اس ویڈیو ٹیپ میں دونوں کی آڈیو بھی تھی۔ شاہ صاحب نے اپنی سفارتکاری کی تمام صلاحیتیں بروئے کارلاتے ہوئے خود کو بیک وقت حکومت پاکستان اور پاک فوج کا با اعتماد نمائندہ ثابت کرنے کی کوشش کی اور رچرڈ ہالبروک کو باور کرایا کہ کیری لوگربل پر تحفظات کو محض ضابطے کی کارروائی سمجھا جائے عوامی ردعمل اورسیاسی جماعتوں کا شورشرابا جلد جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا کیونکہ مقتدرقوتیں بھی اس بل سے ملنے والی امداد کی خواہاں ہیں۔

اسے رسمی ملاقات کہا جاسکتا تھا لیکن نہ جانے کیوں اس وقت شاہ صاحب نے اس ملاقات کی خبرتک نہ جاری کی حالانکہ جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ غیررسمی مصافحے کو بھی ملاقات بنا کرپیش کرنے پرہزیمت اٹھا چکے ہیں۔

مختصراً یہ کہ شاہ محمود قریشی صاحب کی سفارتکاری دو ہزار نو میں بھی دو طرفہ تھی اور آج بھی انہی خطوط پر استوار ہے۔ یہ وہی تجربہ کار، مستند وزیرخارجہ ہیں جن کی مثالیں تحریک انصاف پچھلی حکومت کے دوران دیتے نہ تھکتی تھی لیکن آج انہی کی بدولت بھارت اورامریکہ سے دو دو بار ہزیمت اٹھا چکی ہے۔ خارجہ محاذ پرشاہ محمود قریشی صاحب کی ابتدائی ’کامیابیاں‘ دیکھ کرلگتا نہیں کہ ہم عالمی تنہائی کے اس گرداب سے نکل پائیں گے جس کا شور موجودہ حکمران جماعت اپوزیشن میں رہتے ہوئے مچا رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).