اقوامِ متحدہ اور جمہوریت کا نوحہ


اقوامِ متحدہ اپنے سالانہ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع کی وجہ سے ہر سال کی طرح اس سال بھی اپنی کارکردگی کے حوالے سے مذاق بنی ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ عالمی تنظیم اپنے چارٹر یا قوانین کے لحاظ سے ساری دنیا کے بین الاقوامی تعلقات اور سیاسیات کے اساتذہ اور ماہرین کی رائے کے مطابق آج بھی ایک بہترین عالمی تنظیم ہے اور عالمی تنازعات اور مسائل کے حل کے لیے ایک بہترین ادارے کی حثیت رکھتی ہے کہ جہاں بیٹھ کر عالمی اور علاقائی مسائل بڑی خوش اسلوبی سے حل کیے جاسکتے ہیں۔

کوئی بھی نظریہ، نظام و انتظام اور بندوبستِ حکومت و ریاست یا تنظیم اس وقت تک نہ چل سکتا ہے اور نہ ہی کامیاب ہو سکتا ہے کہ جب تک اس میں عدل وانصاف اور جمہوری روایات و اقدار شامل نہ ہوں۔ حضرت علی مرتضیٰ کا مشہور قول ہے جو نجانے کتنی ہزار بار نجانے کس کس کے نام سے منسوب کر کے بیان ہو چکا ہے کہ حکومت یا ریاست کفر کے ساتھ تو چل سکتی ہے مگر ظلم کے ساتھ اسے نہیں چلایا جاسکتا ہے۔

انسانی معاشرے کے لیے نظامِ عدل اسی طرح ہے جس طرح انسانی زندگی کے لیے ہوا اور پانی ہے۔ یہ سادہ سی حقیقت نہ کوئی راکٹ سائنس ہے اور نہ ہی کوئی گہرا فلسفہ اور منطق ہے کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ انسانی فطرت بغیر سیکھے اور سکھائے بہت بچپن ہی سے اس حقیقت اور ضرورت کا ادراک کا رکھتی ہے۔ کسی بچّے سے اس کا کوئی کھلونا چھین کر ردِ عمل میں اس کے رونے اور مچلنے والی والی بات بہت پرانی ہے اور سب لوگ اس سے واقف ہیں۔

جمہوریت کا سادہ سا اصول ہے کہ اکثریت جس بات پر متفق ہو جائے وہ ہی قانون بن جاتاہے اور اس قانون پر عمل ہی جمہوریت کا حسن سمجھا جاتا ہے۔ مگراس سادہ سے اصول کی جو درگت اقوامِ متحدہ میں بنائی گئی ہے وہ ہی اس بہترین عالمی تنظیم کا اصل نوحہ ہے۔ وہ ہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی اسی پہ ضرب پڑ ی جوشجر پرانا تھا یا توانا تھا کے مصداق جہاں سے اقوامِ عالم کو حق اور انصاف فراہم ہونا تھا وہ خود ہی ظلم اور جبر کا شکار ہو گیا ہے۔

جس کام نے اس تنظیم کے اچھے کاموں کے باوجود اس کا بیڑا غرق کیا ہے وہ اس کا رسوائے زمانہ ویٹو پاور کا استعمال ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین ویٹو پاور کا حق رکھنے والے ممالک ہیں جو اس تنظیم کے سب سے اہم ادارے سیکیورٹی کونسل کے مستقل رکن ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے تنظیمی ڈھانچہ کی باریک تفصیل میں جائے بغیر خود کو ہی سمجھانے کے لیے عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ آج جو کچھ بھی سیاسی تنازعات اور دوسرے بہت سارے مسائل کا عالمی معاشرہ شکار ہے اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہی ویٹو کا استعمال ہے جو اکثریت کی رائے کو بھی مسترد کردیتا ہے اور مسئلہ کوحل کرنے کے بجائے اور الجھا دیتا ہے۔

یوں تو سارے ہی ویٹو ممالک نے وقتاً فوقتاً اپنے اپنے جائز اور ناجائز مفادات کی حفاظت کے لیے اس حق کا استعمال کیا ہے مگر لطیفہ نما حقیقت ہے کہ جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق کی پاسداری کا سب سے زیادہ ڈھنڈورا پیٹنے والا اور خود کو ان کا چیمپئن سمجھنے والا امریکہ ہی اس ویٹو کو سب سے زیادہ استعمال کرے والا ملک ہے۔ اور مزے دار بات یہ ہے کہ ویٹو کا استعمال اس نے اپنے لیے کم کیا ہے بلکہ عالمی سیاست کا ناسور کہا جانے والا برطانیہ اور امریکہ کی ناجائزاولاد اسرائیل کے لیے زیادہ کیا ہے۔ دنیا کے نقشہ پر اسرائیل کا وجود امریکی ویٹو ہی کی وجہ سے نظر آرہا ہے وگر نہ حق و انصاف کی عالمی ضمیر کی اکثریت اسے حرفِ غلط کی طرح دنیا کے نقشہ سے کب کا مٹا چکی ہوتی۔

اقوامِ متحدہ کی بد نامی میں امریکہ اور اسرائیل سرِ فہرست ہیں۔ عالمی عدالتِ انصاف اور انسانی حقوق کا کمیشن جو اسی تنظیم کے ذیلی ادارے ہیں اسرائیل کے خلاف سینکڑوں دفعہ فیصلے دے چکے ہیں۔ جو کہ عالمی رائے عامہ کے ضمیر کے ائینہ دار ہیں۔ مگرامریکہ اور اسرائیل بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ ان فیصلوں کو مسترد کرتے چلے آرہے ہیں۔

فلسطین، کشمیر، افغانستان، شام، لبنان، عراق، ایران، یمن، شمالی کوریا اور افریقہ کے بیشتر ممالک آج بھی جن بد ترین حالات کا شکار ہیں اس کے بڑے ذمہ دار امریکہ اور اسرائیل ہیں۔ ان کی ہٹ دھرمی اورعالمی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی وجہ سے یہ بہترین تنظیم عالمی رائے اور مشاورت کی مدد سے ان مسائل کو آج بھی حل نہیں کرسکی ہے۔

حالیہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران امریکی صدر اسرائیل کی حمایت میں جس بے شرمی اور ڈھٹائی سے عالمی عدالت انصاف اور انسانی حقوق کے عالمی کمیشن کی رکنیت سے دستبرداری کا اعلان کر چکے ہیں وہ اپنی جگہ عالمی رائے عامہ اور عالمی ضمیر کے اوپر باقاعدہ ایک طمانچہ ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں یرغمال بن جانے والی اس تنظیم پر سے یقین اٹھ جانے کی وجہ سے ہی اب اس میں اصلاحات لانے کی کوشش کی جارہی ہے مگر وہ ہی مشکل کہ ان ویٹو ممالک کی مرضی اور منشاء کے بغیر کوئی پتہ بھی یہاں نہیں ہل سکتا اور کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی ہے۔

تازہ کارنامہ جو امریکی صدر نے انجام دیا ہے وہ بھی اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے۔ اقوامِ متحدہ نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی کے ساتھ مل ایران کے ساتھ اس کے ایٹمی پروگرام پر ایک معاہدہ کیا تھا۔ امریکہ نے اس معاہدے سے بھی دستبرداری کا اعلان کردیا اور ایران پر دوبارہ سے انہی پابندیوں کو لاگو کردیا ہے جو معاہدے کے بعد ایران پرسے اٹھا لی گئیں تھیں۔ اس اقدام نے نہ صرف اس کے اہم نیٹواتحادیوں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو پریشان کردیا ہے بلکہ بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کے حوالے سے اس کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

عالمی منظر نامہ پر اقوامِ متحدہ اور جمہوریت کا یہ تماشا دیکھنے کے بعد جب اپنے پیارے پاکستان پہ نظر لوٹ جاتی ہے تو وطن کی ساری دلکشی کے باوجود یہی تماشا دیکھ کر افسوس بھی ہوتا ہے اور تکلیف بھی ہوتی ہے کہ وہ ہی گھسی پٹی، روندھی ہوئی کچلی ہوئی اور چلی ہوئی توپیں اور کارتوس ہمارا مقدر بنے ہوئے ہیں۔ نئے پاکستان کے نام پر وہ ہی ڈوریوں کے ذریعے اچھلتے کودتے تماشا کرتے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح کے مسخرے اور جوکر آج بھی ہمیں تماشا بنائے ہوئے ہیں۔ عالمی معاشرہ ویٹو بردار جمہوریت کا بوجھ اٹھا رہا ہے اور ہم ڈنڈا بردار جمہوریت کو ڈھو رہے ہیں۔ خیرٹھیک ہے ہم بھی تصورِ جاناں کیے ہوئے کسی فرصت کی تلاش میں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).