قطروں میں چھپی زندگی


ہم ایک ایسے ملک کے باسی ہیں جو دُنیا کے تین ایسے بد نصیب ممالک کے فہرست میں شامل ہے جو آج تک ایک وائرس سے برسر پیکار ہیں۔ یہ وائرس معذور پیدا کر نے کی مشین ہے جو نو مولود سے پانچ سال تک کے بچوں کے چہروں سے مسکرا ہٹیں چھین کر اُداسی انڈیل دیتی ہے۔ سچ پو چھیے تو زندگی ہی چھین لیتی ہے۔ بلا! وہ بھی کوئی زندگی ہے جو آپ کو اوئے لنگڑے کا خطاب دلوا دے؟

کچھ زمین زادے تو پولیو جیسی کئی مہلک جراثیم کو خاندان سمیت ملیا میٹ کر کے خود آسمان پر نکل گئے لیکن ہم انشا ء اللہ اور ماشاء اللہ کے دو لفظوں کے درمیان کہیں منزل کھو بیٹھے ہیں، جن میں ایک ہماری دلی نارضامندی، کام چوری اور فرائض پر ڈنڈا ماری جبکہ دوسرا ہماری نا اہلی، سستی اور کا ہلی پر پردہ پو شی کے وقت کام آتا ہے۔ مثال کے طورپر، ہم میں سے کسی کا بھی من کچھ کر نے پر رضا مند نہ ہو تو ہم بے یقینی کی کیفیت جنم دینے کے لئے انشاء اللہ کے لفظ کے پیچھے کسی امر کے ہو نے کا جواز چھپا دیں گے، کوئی بتلا ئے کہ اللہ کیوں نہیں چا ہے گا کہ اچھا کام نہ ہو اور برُے کام میں ہم کیوں اُن کی چاہت طلب کریں؟

مغرب کے نا خلف تو ان دو لفظوں کو پیشہ حیات سے نکال کر ضابطہ حیات کو کسی اور ڈگر پر ڈال دیے تو” نہ رہے بھانس نہ بجے بانسری‘‘ کے مصداق نہ پولیو، چچک، خسرہ اور ہی نہ ہی کو ئی دوسری مہلک جراثیم پنپ سکی۔ دوسری طرف ہم ہیں اہل ایمان کہ اپنی کاہلی، سستی اور نا اہلی کو اللہ کی چاہت قرار دے کر نظام ہستی سے اُلجھ رہے ہیں۔ ذرا غور فرمائیں اللہ اور اس کے پیغمبرؐ کی چاہت۔ ” اطہور شترالایمان ‘‘ بھی ایمان کی روشنی میں گھر کی چھت سے نیچے گلی میں کچرا انڈیلنے کی بیماری کی صورت میں بدل گئی ہے۔

نا ئیجریا اور افغانستان بھی ہماری طرح اہل ایمان سے لبر یز ہیں جہاں کی مسلمان اکثریت سمیت اقلیت بھی مسلسل اس وائرس سے لڑ رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے ملک میں بھی ان قطروں سے خوف زدہ جہالت بر سر پیکار ہیں جن کو ڈر ہے کہ اہل مغرب اپنے خون پسینے سے کما ئے قطروں کو ہماری افزا ئش نسل کی روک تھام کے لئے بھیج رہے ہیں تاکہ سڑکوں کے کنارے بیٹھے ہمارے سا ئنسدان کہیں اُن سے سبقت نہ لے جا ئے، بلا کا خوف ہے، اگر یہ خوف پولیو کے قطروں کے بجا ئے اللہ سے ہو تا توہمارے اکلو تے ایدھی صاحب کو لا کھوں گمنام بچوں کے خا نے میں اپنا نام لکھوانے کی ضرورت پیش نہیں آ تی جو ہماری جنسی صلاحیت کی فراوانی سے کچر ے کے ڈبوں، پلاسٹک کے تھیلوں یا پھر انسا نیت کے مسیحا ایدھی کے مرا کز کے با ہر خوف خدا سے خا لی انسانوں کے کا لے کر تو توں کا حساب چکا رہے ہو تے ہیں۔ کاش یہ خوف خدا ہو تا تو سڑک کے کنارے چادر کے نیچے نشئی کسی مومن مسلمان کے بچے نہیں ہو تے، کاش ہمیں ان قطروں میں چھپا سمندر نظر آ سکے تو پتہ چلتا کہ یہ سمندر کسی آسمانی بارش سے نہیں بلکہ ڈالرز اور پاونڈز کی بارش سے وجود میں آیا ہے جو اہل مغرب کے مہر بانوں نے ہم پر کرم کر کے عرش والے سے اپنے گناہوں کی بخشش چا ہتے ہیں۔ ہماری تعلیمات بتا تی ہے کہ عرش والا اُس محبت رکھے گا جو فرش والوں پر محبت نچھا ور کر ے گا۔

پولیو کے قطروں سے جنگ پاکستان میں جاری ہے اور اب یہ جنگ آہستہ آہستہ گلگت بلتستان کی طرف رُخ کر رہا ہے جس کا ثبوت سوموار کے روز پولیو ٹیم پر حملے کی صورت میں ملا، وطن عزیز کا پُر امن ضلع غذر کے حسین و جمیل گاؤں پھنڈر کے نا لے میں ایک عام چر واہے کے ذہن میں زندگی بخشنے والے قطروں کے خلاف غلاظت کون بھر رہا ہے جس کا کھوج لگا نا ابھی با قی ہے۔ دوسری طرف غذر کے ہیڈ کوارٹر سے ملحقہ گاؤں داماس میں بھی ایک شخص اپنے بچوں کو خطرناک قطرے پلانے سے انکار کر کے اس غلیظ ذہنیت کو پروان چڑھانے کی حا می بھر لی ہے۔

حکام اپنی کارکردگی کی خا طر اس واقعے کو عیاں ہو نے سے تو بچا لئے لیکن خطے میں اس سوچ کو جگہ مل چکی ہے جس کی قلع قمع کر نا وقت کی ضرورت ہے ورنہ اس قسم کے رو یے کسی تصادم کی نو ید لے کر آئیں گے۔ ضلعی انتطا میہ علا قے میں چند شر پسند عنا صر کی پشت پنا ہی کر رہی ہے جس کی مثال پولیو ٹیم کے مبینہ ملزم کے خلاف انسداد دہشت گر دی کے دفعات نہ لگانے سے سا منے آئی ہے کیو نکہ پورے ملک میں پولیو کے جا نبازوں پر حملہ کر نے والوں کو اے ٹی اے کے دفعات کا سا منا کر نا پڑ تا ہے جبکہ غذر میں سما جی کارکن، سیا سی رہنما اور طلباء اے ٹی اے اور شیڈول فور کے زیر عتاب ہیں اور ایسے شر پسند عناصر کے سامنے انتظامیہ کسی مجبوری کے سبب بے بس ہے۔

مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ہم من حیث القوم جس راہ سے منزل کی جانب جا رہے ہیں اس کا انجام کیا ہو گا، کون آئے گا جو منزل کی دوری، سفر کے کٹھن پیچ و خم سے ہمیں آگاہ کرے اور کون ہو گا وہ خوش نصیب جو بچ کر منزل مراد پر پہنچ پا ئے گا؟ کیا کسی نے سو چا ہے کہ قطرے کو سمندر بننے میں کتنا عر صہ لگا ہوگا اور جو سمندر قطرہ بننے جا رہا ہے اس کا کو ئی روک تھام تمہارے پاس ہے جو تم قطروں سے ڈر نے لگے ہو، صاحب! مت ڈرو قطروں سیاور نہ ہی ڈراؤ ان قطروں سے۔ قطروں میں ہی زندگی چھپی ہے۔

یار زندہ صحبت با قی
نوٹ لکھا ری کے بارے:
فداعلی شاہ غذری لفظوں میں جینا چا ہتا ہے، ا پنی مادری زبان ( کھوار ) میں شاعری کر تا ہے اور روزی روٹی کے لئے اسلام آباد کے ایک موقر انگریزی اخبار سے منسلک ہے۔

فدا علی شاہ غذری
Latest posts by فدا علی شاہ غذری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).