محمد علی…. تتلی کا ناقابل شکست رقص


\"raziہمیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ باکسنگ کیا ہوتی ہے، ہم نہیں جانتے تھے کہ اس کے قواعد و ضوابط کیا ہیں۔ لیکن ہم سب خود کو باکسر سمجھتے تھے۔ کلاس روم میں اچھلتے تھے، کودتے تھے اور باکسر کی طرح ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے اوراس کے منہ پر مکا مارنے کی ریہرسل کرتے تھے۔ یہ ہمارے بچپن کا زمانہ تھا۔ یہ ہمارے سکول کا دور تھا لیکن دراصل یہ محمد علی کا زمانہ تھا اور محمد علی کا ہی دور تھا۔ وہ ایک ہیرو تھے۔ وہ ایک عہد ساز کھلاڑی تھے۔ لفظ ’ناقابل شکست‘ ہم نے اسی زمانے میں پہلی بارسنا تھا اور یہ لفظ محمد علی سے وابستہ تھا کہ کسی اور کا ناقابل شکست ہونا کوئی تصور ہی نہیں کر سکتا تھا۔ اس زمانے میں انہیں محمد علی کلے بھی کہا جاتا تھا بلکہ محمد علی کلے ہی کہا جاتا تھا۔ باکسنگ کے یہ مقابلے صبح سات آٹھ بجے کے قریب پی ٹی وی پر امریکہ سے براہ راست دکھائے جاتے تھے۔ اس دور میں Live کا لفظ ابھی مستعمل نہیں ہوا تھا۔ سو مقابلے سے پہلے سکرین پر  Direct From Satellite کے لفظ نمودارہوتے تھے۔ سکرین کے اوپر ایک خلائی سیارے کی تصویر ہوتی تھی جس کی لہریں زمین کی طرف آتی دکھائی دیتی تھیں۔ محمد علی کے مقابلوں میں عوام کی دلچسپی کا یہ عالم ہوتا تھا کہ ان اوقات میں لوگ ٹی وی دیکھنے کے لیے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے گھر جایا کرتے تھے۔ ٹی وی اس زمانے میں عام نہیں تھا۔ ہر محلے میں بس دو چار گھروں میں ہی یہ سہولت موجودتھی۔ سو وہاں عزیز واقارب اور دوستوں کو یہ مقابلے دکھانے کا خاص اہتمام کیاجاتاتھا۔ کئی روز پہلے سے ہی سب کو معلوم ہوتاتھا کہ محمد علی کامقابلہ کب اورکس سے ہونے والا ہے۔ اور یہ مقابلہ دیکھنے کے لئے باقاعدہ پروگرام بنائے جاتے تھے۔ ہمارے سکول میں بچوں کو بتا دیا جاتا تھا کہ آپ کو باکسنگ کا یہ مقابلہ دکھانے کا سکول کی جانب سے اہتمام کیا جائے گا۔ لہذا اس روز بچے چھٹی نہیں کرتے تھے اور کلاس میں معمول سے زیادہ رونق ہوجاتی تھی۔ جو فریزئر، کین نارٹن اور جارج فورمین یہ وہ تین نام تھے جو ہمیں محمد علی کے مقابلوں کے حوالے سے آج بھی یاد ہیں۔

صبح سویرے ہمیں سکول کے سامنے واقع سروسز کلب (موجودہ ایم جی ایم) میں لے جایا جاتا تھا جہاں ہم ایک چھوٹے سے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر دم سادھے یہ مقابلے دیکھتے تھے۔ مقابلے سے پہلے وہ مشہور زمانہ نغمہ بھی دکھایا جاتا تھا جو ہمارے خیال میں محمد علی نے گایا تھا اور اس کے پس منظر میں اچھلتا کودتا اپنے حریفوں کو ناک آﺅٹ کرتا محمدعلی دکھائی دیتا تھا۔ ”Catch Me If You can Muhammad Ali “ اس نغمے کی دھن پر ہم سب جھومتے تھے۔ لہک لہک کر گیت گاتے تھے اور ایک خاص انداز میں محمد علی کہہ کر تالیاں بجاتے تھے۔ ہمیں یہ نغمہ سمجھ نہیں آتا تھا۔ پورے نغمے میں صرف دو لفظ تھے جن سے ہماری آشنائی تھی ان میں سے ایک ”محمد علی“ اوردوسرا لفظ ”بلیک سپر مین“ تھا۔ میچ کے دوران ہر راﺅنڈ کے خاتمے کے بعد محمد علی اچھلتے کودتے دوبارہ مدمقابل کے سامنے آتے اور جو فریزئر، کین نارٹن یا جارج فورمین کی درگت بنتے دیکھ کر ہم خوشی سے تالیاں بجاتے تھے۔ اور کبھی اگر مدمقابل کا گھونسہ محمد علی کے منہ پر لگتا توپوری کلاس کی چیخیں نکل جاتی تھیں اوردرد ہم سب کو اپنے جبڑوں میں محسوس ہوتاتھا۔ محمد علی کی شکست کا ہم نے کبھی تصور ہی نہیں کیا تھا۔ ہم نے تو کیا کسی نے بھی یہ کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ یہ عالمی چیمپئن کبھی شکست بھی کھا سکتا ہے۔ پھرایک روز یوں ہوا کہ ”ناقابل شکست کوشکست ہو گئی“۔ ہرطرف ایک سوگ کی کیفیت تھی۔ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ شاید محمد علی اب یہ اعزاز واپس نہیں لے سکیں گے۔ لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد ہی محمد علی نے کھویا ہوااعزاز چھین لیا۔ اگلے روز روزنامہ امروز نے ”علی، علی، علی“کی شہ سرخی لگا کر اس فتح کا اعلان کیا۔ محمد علی کی مقبولیت کی وجوہات میں جہاں ان کے متنازع بیانات، حریفوں پر طنز، اچھلنا کودنا اور ناقابل شکست ہونا شامل تھا وہیں پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں ان کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ چند سال قبل ہی مسلمان ہوئے تھے اور پھر ان کے مقابلے بالکل اسی طرح کفر اوراسلام کی جنگ میں تبدیل ہو گئے جیسے آج ہم کرکٹ کے پاک بھارت مقابلوں کو اسلام اور کفر کی جنگ سمجھتے ہیں۔ ان کا آخری عالمی مقابلہ 26 جون 1976ء کو جاپانی پہلوان اورباکسر انوکی کے ساتھ ہوا تھا جس میں محمد علی نے شکست کھائی اور زخمی بھی ہوگئے تھے۔ شائقین نے اس مقابلے کو نورا کشتی قراردے  دیا تھا۔ یہ ایک عظیم باکسر کا المناک انجام تھا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان میں باکسنگ کا تذکرہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments