گمشدہ محبت کی بے آواز صدائیں


خلاف توقع نیو ٹاون کا مکان نمبر 159۔ بی ڈھونڈنے میں ہمیں کوئی زیادہ مشکل پیش نہیں آئی تھی۔

کوئی ایک گھنٹہ پہلے جب میں نے رشدہ کو اس کے ڈیفنس کے بنگلے سے پک کیا تھا تو میں نے شہر کے مضافات میں واقع نیوٹاون کا صرف نام سن رکھا تھا۔ سارا راستہ میں پوچھ پوچھ کر رشدہ کا دماغ چاٹ گئی تھی۔ مگر میں کیا کرتی۔ میری کیفیت ہی کچھ ایسی تھی۔ کبھی دل کی دھڑکن اتنی تیز ہو جاتی کہ خون کی حدت سے میرے گال تپنے لگتے۔ کبھی اتنی سست کہ پاوں جیسے سو گئے ہوں۔ کبھی شوق فراواں تو کبھی ان دیکھے اندیشے اور وسوسے۔ کبھی دل محبت سے امڈ آتا تو کبھی غصے اور رنج سے بھر جاتا۔ کبھی ہونٹ بے کہے مسکرا پڑتے تو کبھی آنکھوں کے گوشے نم ہو جاتے۔

میں کیا کرتی۔ میرا اس کا تعلق ہی کچھ ایسا تھا۔
پچھلا ایک گھنٹہ جو ایک صدی میں گزرا تھا اب رفت و گذشت ہو چکا تھا۔ میں اس کے گھر کے سامنے موجود تھی اور میری آنکھیں اب مزید انتظار کا بوجھ اٹھانے سے انکاری تھیں۔

ہمارے ڈرائیور نے گاڑی تنگ گلی کی ایک سائیڈ پر لگائی اور باہر نکل کر اس گھر کے سفید آہنی گیٹ کے قریب نصب اطلاعی گھنٹی کا بٹن دبا دیا۔ میرا پورا بدن آنکھ بنا ہوا تھا۔ میں شدت سے منتظر تھی کہ دروازہ کون کھولتا ہے۔ مگر کوئی بھی باہر نہ آیا۔ ڈرائیور نے دوبارہ گھنٹی بجائی۔ جواب اسی سناٹے نے دیا جو اس مکان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا۔

میں نے بے قرار ہو کر رشدہ کی طرف دیکھا۔ اس نے اپنی لانبی پلکیں جھپکائیں اور میری کلائی پر اپنا ہاتھ رکھ کر بولی‘ جانو۔ یہی گھر ہے۔ کنفرم۔ ڈونٹ وری۔ او کے؟ ‘

ڈرائیور نے تیسری بار گھنٹی بجانے سے پہلے ذرا وقفہ دیا اور ایڑیاں اٹھا کر گھر کے اندر جھانکنے کی کوشش بھی کی۔ پھر کندھے اچکائے اور تیسری بار گھنٹی دبائی اور خاصی دیر تک دبائے رکھی۔

میرے دل میں اندیشے اور وسوسے پھر سے کلبلانے لگے تھے۔ میں نے دھیان بٹانے کے لیے اس مکان کا بغور جائزہ لینا شروع کر دیا۔

یہ ایک متوسط درجے کا دو منزلہ مکان تھا۔ شاید کبھی دلکش اور خوبصورت رہا ہو گا لیکن اس وقت زبان حال سے مکینوں کی عدم توجہی کا گلہ کرتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ گیٹ کا سفید روغن پرانا ہو کر جگہ جگہ سے اتر گیا تھا۔ وہ حصے جہاں ہاتھوں کا لمس زیادہ رہا تھا وہاں میل کے داغ صاف دکھائی دے رہے تھے۔ محلے کے شرارتی لڑکوں نے بھی تیز دھار آلات کے ساتھ گیٹ کو خوب تختہ مشق بنایا تھا۔ آڑی ترچھی لکیریں جگہ جگہ دیکھی جا سکتی تھیں۔ گیٹ کے ساتھ دیوار جہاں زمین میں داخل ہو رہی تھی وہاں پر نمی تھی جس میں سے خود رو بوٹے سر ابھار رہے تھے۔

خدا خدا کر کے چوتھی بار گھنٹی بجانے پر گھر کے اندر سے کچھ حرکت کے آثار پیدا ہوئے۔

میری دل یکبارگی زور سے دھڑکا۔ کوئی گیٹ کی طرف آرہا تھا۔ کچھ ثانیے بہت طویل ہو کر گزرے۔ بالآخر اندر سے کسی نے کنڈی کھولی۔ پھرگیٹ تھوڑا سا کھلا اور کوئی باہر آ یا۔ میں نے دیکھا کہ وہ ایک بارہ تیرہ برس کا بچہ تھا۔ گہری گندمی رنگت سیاہ گھنگھریالے بال۔ دبلا جسم۔ پرانی شلوار قمیض اور پاوں میں قینچی چپل پہنے تھا۔ اس نے استفہامیہ نگاہوں سے ڈرائیور کی طرف دیکھا تو اس نے انگلی سے گٓاڑی کی طرف اشارہ کر دیا جہاں ہم دونوں بیٹھی اسی کو دیکھ رہی تھیں۔ رشدہ نے گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے اسے اشارہ کیا تو وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا ہمارے قریب آ گیا۔ سلام کیا اور پھر متذبذب انداز میں ہمیں تکنے لگا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا احساس دیکھا۔ مجھے وہ اپنی عمر سے کچھ زیادہ بڑا لگا۔

میں نے پوچھا۔ ’ بیٹا یہ گھر عبد اللہ صاحب کا ہی ہے نا؟ ‘

اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
‘ تو۔ کیا۔ سارے لوگ۔ گھر پر ہیں‘ میں نے الفاظ کا انتخاب سوچ سوچ کر کیا۔

‘ ہاں جی۔ نہیں جی۔ بس اماں جی ہیں گھر پر‘۔ اس نے جھجکتے ہو ئے اطلاع دی۔
‘ اچھاآ آ آ۔ صرف اماں جی ہیں۔ تو اور کوئی۔ ‘ سوال میری زبان پر آتے آتے رک گیا۔

میں نے رشدہ کی طرف دیکھا۔ اس نے لڑکے سے کہا۔ ’ دیکھو بیٹا اماں جی سے کہو۔ سجاد صاحب کی یونی ورسٹی سے بیبیاں آئی ہیں۔ اماں جی سے ملنا ہے۔ ‘

‘جی اچھا۔ ‘ اس نے کہا اور سر جھکائے ہوئے چلا گیا۔ وہ گیا تو میں نے پرس سے اپنی پاکٹ میک اپ کٹ نکالی اوراس کے چھوٹے سےآئینے میں دیکھ کر جلدی جلدی اپنے میک اپ کو ایک تازہ ٹچ دیا۔ اتنے میں لڑکا واپس آ گیا اور گیٹ کھول کر ہمیں اندر آنے کا اشارہ کیا۔ خالی کار پورچ سے گزرتے اور دو قدم کے برآمدے کو عبور کرتے ہوئے جب ہم ڈرائنگ روم میں داخل ہو رہی تھیں میری نظر بیرونی دیوار اور رہائشی حصے کے بیچ کے قطعہ زمین پر پڑی۔ یہاں شاید لان بنانے کی نیت سے کچی زمین چھوڑی گئی تھی۔ لیکن وہاں تو بے ہنگم لمبی لمبی گھاس اگی ہوئی تھی جیسے وہاں مدتوں سے کسی کے قدم نہ پڑے ہوں۔

لڑکے نے جلدی جلدی ڈرائینگ روم کی بتیاں روشن کیں اور صوفے کا گرد پوش اتارا۔ یہاں داخل ہوتے ہی مجھے ایک عجیب ٹھنڈی سی بو محسوس ہوئی تھا۔ مجھے گمان ہوا کہ یہ کمرہ خاصے دن بعد کھولا گیا تھا۔ ہم دونوں کمرے میں موجود واحد صوفے پر بیٹھ گئیں۔ لڑکا اندر چلا گیا۔ یہ لکڑی کا بنا ہوا پرانے طرز کا دو نشستوں والا صوفہ تھا جس پر فوم کی گدیاں پڑی تھیں۔ ایک نشست والا ایک صوفہ ہمارے دائیں طرف پڑا تھا اور ساتھ ایک لکڑی کا پرانا میز دھرا تھا۔ سامنے دیوار گیر شیلف پر کچھ آرائشی اشیا کچھ کتابیں اور ایک کسی بہت قدیم بزرگ کی سٹیل فریم میں جڑی تصویر رکھی تھی۔ شیلف کے اوپر لگا ہوا وال کلاک پانچ بج کر پانچ منٹ کا وقت دکھا رہا تھا۔ اس کمرے کی کل کائنات بس یہی سامان تھا۔ میں نے بائیں جانب گردن گھما کر دیکھا تو دیوار پر ٹنگے پورٹریٹ فوٹو پر نظر پڑ گئی۔ میں تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

یہ سجاد کا پورٹریٹ تھا۔

ایک مدت بعد اپنے محبوب چہرے کو اپنے اتنا قریب پا کر ہجر و فراق کے سارے پرانے زخم پھر سے ہرے ہو گئے۔ برہا کی کالی راتوں کے ڈسے ہوئے بدن کی پیاس پھر سے جاگ اٹھی۔ میں اپنے گرد و پیش سے بے نیاز ہو کر اور رشدہ کی موجودگی کو قطعا فراموش کر کے سجاد کی تصویر میں کھو گئی۔ وہ اس تصویر میں بھی زندگی سے اتنا بھرپور تھا کہ جیسے ابھی باہر نکل آئے گا۔ اس کی مسکراہٹ بالکل وہی تھی جو پہلی ہی نظر میں مجھے بالکل لے دے گئی تھی۔ اس کی چوڑی گھنی محراب دار بھنووں کے نیچے اس کی وہی پہاڑی جھیلوں سی گہری سبز خواب بخش آنکھیں جو ہر وقت مسکراتی رہتی تھیں اور مجھ سے کتنی ان کہی باتیں کہہ جاتی تھیں۔ وہی اس کا سیدھا اور ذرا سا چوڑا ناک۔ مضبوط ابھرے ہوئے جبڑے اور ہلکی داڑھی جس میں اس کی ٹھوڑی کا وہ گڑھا چھپ گیا تھا جسے چومنے کو میرا دل مچل مچل جاتا تھا۔

مجھے یاد آیا کہ یہ سجاد کی ان دنوں کی تصویر تھی جب اس نے نئی نئی داڑھی بڑھائی تھی۔ توبہ۔ اس روز میں کتنا لڑی تھی اس سے۔ کیسے لتے لیے تھے میں نے اس کے۔ جب کسی دلیل سے کام نا چلا تو میں نے مولوی مولوی کہہ کر اسے چڑانے کی کتنی کوشش کی تھی۔ مگر وہ بھی ایک ہی سجاد تھا۔ اس کے پاس ہر طعن و تشنیع کا ایک ہی مسکت جواب ہوتا تھا۔ وہی اس کی گوتم بدھ مارکہ زیر لب مسکراہٹ۔ جیسے وہ مسکرا نہ رہا ہو بلکہ اگلے کا مذاق اڑا رہا ہو۔ اس کی اس ہٹ دھرمی سے مجھے اور بھی چڑ ہوتی تھی۔ میں نے کہا ’ چلو تمھارے نمازیں پڑھنے وظیفے کرنے اور ہر مہینے میں سات نفلی روزے رکھنے کی حد تک تو ٹھیک تھا۔ لیکن داڑھی۔ نو وے۔ میں جس سوسائٹی میں موو کرتی ہوں وہاں میں ایک مولانا ٹائپ شوہر کو کیسے انٹروڈیوس کراوں گی۔ میٹ مائی ہسبینڈ۔ مولوی سجاد حسین حالی پانی پتی۔ ‘

مگر سجاد نے ایک ہی بار میں میری بولتی بند کرا دی تھی۔ اس نے کہا تھا۔ ‘ زرمینہ میری جان۔ تم مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہو۔ میری روح میں شامل ہو۔ لیکن میں کیا کروں کہ میں ایک اور محبت میں بھی گرفتار ہو گیا ہوں۔ وہ محبت میرے لئے اس دنیا کے ہر رشتے ناطے سے زیادہ اہم ہے۔ میرے ہونے کا مقصد ہے۔ میرا مشن ہے۔ تمہیں اگر مجھ سے محبت ہے تو اس حقیقت کو مان کرہی چلنا ہو گا۔ ‘

میں یہ سن کر دنگ رہ گئی۔ کوئی دلیل اس وقت میرا ساتھ دینے کو حاضر نہ ہوئی۔ لاجواب ہو کرمیں نے ایک زور دار مکا اس کے چٹان سے سخت سینے پر جڑ دیا تھا۔ وہ اپنا سینہ ملتے ہوئے بس ’ اف ظالم لڑکی مار ڈالا‘ کہہ سکا تھا۔ اس پر میں اور بھی لڑی تھی اس سے۔ ’ اور مولوی سجاد حسین صاحب۔ یہ ’اگر محبت ہے‘ کا کیا مطلب ہے؟ ذرا سیدھے ہو کر بات کرو نا مجھ سے۔ وہاٹ ڈو یو مین بائی ’اگر‘؟ اگر ابھی تک بھی اگر مگر والی بات ہے تو ٹھیک ہے پھر۔ جاؤ میں نہیں بولتی تم سے‘۔ اور میں سچ مچ وہاں سے چل دی تھی مصنوعی غصے میں پیر پٹختی ہوئی اور پھر وہ کیسے میرے پیچھے پیچھے پھرا تھا اور کیسے وضاحتیں پیش کرکر کے مجھے منانے کی کوشش کرتا رہا تھا۔ اس دن میں نے اسے جی بھر کے ستایا تھا۔

میری آنکھوں کے گوشے نم ہونے لگے تھے جب ایک دم ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا اور سجاد کی والدہ کمرے میں داخل ہوئیں۔

سجاد کا ناک نقشہ اپنی ماں کا رنگ اس قدر زیادہ لیے ہوئے تھا کہ وہ مجھے کہیں بھی مل جاتیں مجھے ان کو پہچاننے میں دقت نہ ہوتی۔ بالکل وہی رنگ روپ وہی آنکھیں وہی ناک۔ جیسے کہ وہ والدہ نہیں بلکہ خود سجاد زنانہ پیکر میں ڈھل کرآ گیا ہو۔ وہ بڑی اپنائیت سے ہم دونوں سے ملیں اور ہمارا حال چال پوچھا۔

۔ اچھا تو بیٹا آپ دونوں سجاد بیٹے کے کلاس فیلو ہو؟ ‘ انہوں صوفے پر بیٹھنے کے بعد گفتگو کا آغاز کیا۔
‘ جی جی بالکل آنٹی‘ ہماری زبانوں سے تقریبا ایک ساتھ نکلا۔
‘ بہت خوب۔ بڑی خوشی ہوئی۔ آپ اتنی دور آئے سجاد سے ملنے۔ بڑی ہمت کی۔ ‘ وہ الفاظ ٹھہر ٹھہر کر ادا کرتی تھیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3