گلوبل دنیا میں امت مسلمہ اور پاکستانی


دنیا سمٹ کر گلوبل ویلیج کی صورت اختیار کر رہی ہے۔ ”گلوبل ویلیج دنیا“ کی مختلف جگہوں پر مختلف رنگوں، معاشروں، علاقوں، نسلوں اور مزاہب سے تعلق رکھنے والے گروپوں کے ادغام سے نئے معاشرے جنم لے چکے ہیں۔ اور کئی دوسری جگہوں پر ایسے نئے ملٹی کلر، ملٹی ریشل، ملٹی لینگول معاشرے جنم لے رہے ہیں۔ جبر و استبداد والے یک رنگی یا یک مذہبی ممالک یا معاشروں کی بجائے اب مختلف رنگوں پر مشتمل کثیر المزاہب، کثیرالاقوامی و کثیراللسانی معاشروں کی تشکیل اور ہمہ قسم کے تعصبات سے پاک جدید دنیا کے خواب کی تکمیل ہو رہی ہے۔ گلوبل ویلیج کے گوناں گوں و متنوع طبقات کے لیے نسلی امتیاز و تعصبات سے پاک ہم آہنگی کی جتنی ضرورت آج کے دور میں ہے، وہ شاید پہلے کبھی نہیں رہی۔

جنگ عظیم دوم کے دوران جوانوں کی بے پناہ ہلاکتوں کے سبب یورپ کو کام کے قابل افرادی قوت کے زبردست فقدان کا سامنا تھا۔ جنگ کے بعد تباہ حال شہروں کی تعمیر نو کے لیے ورک فورس میں بے انتہا کمی کے باعث یورپی ممالک نے مہمان ورک فورس کو مدعو کیا۔ کئی مختلف ممالک سے بلائے گئے ایسے افراد کو ایک مخصوص مدت تک قیام کے بعد شہریت حاصل کرنے کا حق دیا گیا اور اس آفر سے فائدہ اٹھانے والوں کو مقامی معاشرے میں ادغام کے بھر پور مواقع دیے گئے۔ نتیجتاً آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جرمنی میں نیشنلٹی لینے والے یہ اکثریتی سابق ورکرز ترکی سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے خاندانوں کے ہمراہ یہاں مقیم ہیں۔ فرانس و بیلجئم میں نمایاں طور پر مغربی افریقہ کے مسلم بربر باشندے اور ہالینڈ میں سُرینامیوں کے بعد برصغیر کے لوگ نظر آتے ہیں۔ جبکہ برطانیہ میں ایسے شہریوں کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہے۔

ان تمام یورپی ممالک میں شہریت لینے والوں کو اکثریتی معاشرے میں مدغم کرنے کی زیادہ سنجیدہ کوششیں برطانیہ میں ہوتی رہیں جہاں جمہوری اقدار و روایات کی تاریخ دیگر تمام ممالک سے کہیں زیادہ قدیم ہے۔ یہاں برصغیر، مشرقی یورپ اور افریقہ و امریکہ کے بیسیوں ممالک کے مختلف لسانی، مذہبی اور رنگ و نسل کے لوگوں کو برطانوی معاشرے نے اپنے اندر سمویا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ ان شہریت حاصل کرنے والوں کی ایک واضح نمائندگی بھی حکومت میں موجود ہے۔ یہاں پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی کونسلر، میئر اور وزراء کی ایک خاص تعداد منتخب ہو کر اپنے ”دوسرے دیس“ کی خدمت کر رہی ہے اور وزارت داخلہ جیسا اہم منصب بھی ایک پاکستانی مسلم کو تفویض کیا گیا ہے جو کہ تمام پاکستانیوں کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔

مہمان افرادی قوت کے بعد اب دھشتگردی اور جنگوں کے نتیجے میں ہونے والی مہاجرت کیوجہ سے بھی دیگر یورپی ممالک کی طرح یہاں بھی نئے آنیوالوں کا تانتا بندھا ہے۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران شہریت پانے والے افراد کے ساتھ اب ان نئے آنیوالوں کو بھی برطانوی معاشرے میں مدغم کرنا ایک بڑا چیلنج ہے جس پر مسلسل کام ہو رہا ہے۔

معاشرے کے مختلف طبقات کا یہ ادغام آسان ہرگز نہیں تھا۔ خاص طور پر گیارہ ستمبر کے بعد دھشتگردی کی خوفناک لہر کی وجہ سے دیگر مغربی ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی خوف کے سائے چھا گئے تھے اور مختلف کمیونٹیوں کے درمیان ایک واضح تقسیم اور اعتماد کے بحران نے جنم لیا جس سے معاشرے میں تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ پیدا ہوا جس کے قلع قمع کرنے کی بر وقت اور سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔ مغربی جمہوریت و معیشت کے ثمرات سمیٹنے والے پاکستانی بھی ان کوششوں میں کسی سے کم نہیں رہے۔ مسلمان چونکہ ردعمل کے نتیجے میں خود اسلام فوبیا کا شکار بھی تھے، ان کی طرف سے دوگنا کوششوں کی ضرورت تھی۔ لہذا سنجیدہ اور دور اندیش مسلم راہنماؤں نے صحیح سمت میں ہم مذہب و ہم وطن لوگوں کی راہنمائی کی جس کے دور رس و حوصلہ افزا نتائج کے اشارے واضح ہیں۔

ایسی ہی کوششوں کے سلسلہ کی ایک تقریب جو برطانیہ کے شہر لندن میں بسلسلہ عیدالاضحٰی منعقد کی گئی جس میں مختلف کمیونٹیوں کے نمائندہ شخصیات نے شرکت کی۔ معروف پاکستانی برٹش مسلم و ممبر برٹش ایمپائر طہ قریشی کی سرکردگی میں الشہادہ ہاؤسنگ ایسوسی ایشن (ASHA) اور فورم فار انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیولیپمنٹ (FIRD) کے مشترکہ تعاون سے منعقدہ اس عید ملن تقریب میں ممبر برٹش پارلیمنٹ، میئر اور ہر میدان کے نمائندہ افراد نے شرکت کی۔

ممبر آف برٹش ایمپائر طہ قریشی نے معزز مہمانان کا پرتپاک استقبال کیا۔ ان کے علاوہ ممبر برطانوی پارلیمنٹ ایلن ہیز، میئر ساؤتھ وارک کیتھرین روز، لیمبیتھ کے ڈپٹی میئر ابراہیم ڈوگس، کونسلر لیاقت علی، شوکت علی اور عمر محمود نے عید ملن استقبالیہ کے شرکاء سے خطاب کیا۔

تمام مقررین کی گفتگو جس مشترکہ بیانیہ پر منتج ہوئی اس کا مفہوم کچھ یوں ہے :
“معاشرے کے مختلف طبقات کی باہم پیوستگی یا ان کے آپس میں جڑے رہنے سے معاشرے میں نسلی امتیاز اور انتہا پسندی کے چیلنجز پر قابو پایا جا سکتا ہے“۔
آخر میں طہ قریشی ایم بی ای نے اپنی تصنیف ”قیام امن اور اقوام عالم“ کے نسخے مہمانوں کو پیش کیے۔
ماہرین تعلیم، کونسلرز، مذہبی عمائدین، طلباء، صحافیوں، کاروباری شخصیات، سماجی راہنماؤں اور چیریٹی اداروں، پولیس و پاکستان ایمبیسی کی نمائندہ شخصیات نے بھی اس عید ملن استقبالیہ تقریب میں شرکت کی۔

عید الاضحٰی کے دن کو دیگر مزاہب اور قومیتوں کے ساتھ باہمی اعتماد سازی کے لیے کامیابی سے استعمال کرنے پر راقم طہ قریشی اور عمر محمود کی کاوشوں پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہے اور ہم وطنوں کی خدمات پر ان کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔

یہ کوششیں نہ صرف برطانیہ اور دنیا بھر میں جاری رہنی چاہیئیں بلکہ پاکستان میں بھی ان کی اشد ضرورت ہے جہاں لسانی، مسلکی، علاقائی و مذہبی بنیادوں کی بجائے تمام طبقات کو صرف ایک قوم کی صورت میں پاکستانیت کے نام پر یکجا ہونا چاہیے اور انصاف، برداشت و رواداری پر مبنی صحتمند معاشرے کو ترویج دینا چاہیے جہاں بس جانے والے بنگالیوں، افغانوں اور اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ و غیر امتیازی سلوک ہو۔

اس سمت میں یقیناً کام ہو رہا ہے جو انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ چالیس سالوں سے ہمارے بیچ آ کر بس جانے والے برادر افغان مہاجرین اور بنگالی مسلمان بھائی، اب تک ہماری نظر التفات کے منتظر ہیں۔

مغربی دنیا میں تو مذہب رنگ و نسل کے فرق کے بغیر سب کو بھر پور معاشرتی ادغام کا موقع دیا جاتا ہے مگر ہم چالیس سال سے اپنے بیچ بس رہے مسلمان بھائیوں کو شہریت دینے کی ”نئے پاکستان“ کی حکومتی تجویز کی مخالفت کرتے ہیں۔ مقام فکر ہے، مسلمانوں کے درمیان یہ کیسا تعصب ہے؟ کدھر گیا ہمارا دعوی ”امت وحدہ“ کا؟ حالانکہ ان کا اپنے معاشرے میں ادغام ہمارے دو قومی نظرئیے کے بھی عین مطابق ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہم منافقانہ دوہرے معیار کا شکار ہیں۔

یہی حال بنگلہ دیش میں بس جانے والے پاکستانیوں کے ساتھ درپیش غیر انسانی سلوک کا ہے۔ ان میں ایک بڑی تعداد تقسیم ہند کے بعد ہجرت کر کے آنے والے بہاریوں کی ہے جو اکہتر میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد سے کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ باقی تعداد مغربی پاکستان کے ان لوگوں کی ہے جن کے کاروبار و رہائشیں وہیں تھیں اور علیحدگی کے بعد انہیں ان کے مال و متاع سے محروم کرنے کے بعد کیمپوں میں محدود کر دیا گیا تھا۔ اس طرح بہتر سال سے مقیم بہاری اور نصف صدی سے وہاں پھنسے مغربی پاکستانی کسی بھی قسم کی شہریت سے محروم ہیں اور ڈھاکہ کے ویانا کیمپ میں غیر انسانی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

ان سے متعلق بھی اقوام متحدہ، سابق کالونئیل پاور برطانیہ اور برادر خلیجی ممالک سے باہمی تعامل کے ذریعے انہیں وہیں بنگلہ دیش میں باوقار طریقے سے بسانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
تشکیل پاکستان کے وقت اقلیتیں بھی اپنی آزاد انتخابی رائے کے ذریعے پاکستان سے آ ملی تھیں۔ ان کے انتخاب اور فیصلے کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔ وہ سب ہمارے برابر کے شہری اور پاکستانی ہیں۔ انہیں ہر ممکن طور پر یہاں مذہبی عبادات و رسومات اور قومی دھارے میں بھرپور شرکت کی مکمل آزادی ہونی چاہیے جو اسلامی تعلیمات، جمہوری روایات، ملکی آئین و عالمی چارٹرز کے عین مطابق ہے اور جس کا عملی مظاہرہ مغربی ممالک میں ہو رہا ہے۔ جہاں ہمارے ہی بھائی، اس آزادی سے مکمل طور پر مستفید ہو رہے ہیں۔

خوش کن امر ہے کہ ملتان اور پاکستان کے دیگر شہروں میں بین المزاہب و بین المسالک ہم آہنگی (Interfaith Harmony ) و برداشت اور عدم تعصب کے ماحول کو فروغ دینے کے لیے منعقدہ پروگرامز میں اقلیتی برادری سمیت تمام مکاتب فکر کے لوگ یکجا ہوتے ہیں۔ یہ خوش آئند ہے مگر اسے کافی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس سمت میں ایک طویل سفر کے لیے مزید دیرپا اقدامات کی ضرورت ہے۔

امریکہ کا وائیٹ ہاؤس ہو یا برطانیہ یا دیگر مغربی ممالک، سربراہان مملکت اپنے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے مذہبی تہواروں پر ان کے نمائندہ وفود کو اپنے ہاں مدعو کرتے ہیں یا ان کی تقریبات میں شریک ہو کر انہیں اظہار تہنیت پیش کرتے ہیں۔ کینیڈا کے موجودہ وزیراعظم جسٹین ٹروڈو اس حوالے سے کافی مقبول رہے ہیں جو مختلف کمیونٹیوں کی تقاریب میں جا پہنچتے ہیں اور بھر پور باہمی تعامل کےجذبات پیش کرتے ہیں۔ رمضان المبارک میں ایک مسجد میں افطاری کے دوران کی ان کی ایک تصویر الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی تھی۔ تاہم حالیہ امریکی صدر ٹرمپ جو متنازعہ سیاسی نظریات رکھتے ہیں اور جن سے امریکہ کے دیرینہ دوست ممالک بھی کافی نالاں ہیں، نے وائیٹ ہاؤس کی عشروں پر محیط روایت کو ترک کر دیا ہے جس کے مطابق سابق صدور مسلمان راہنماؤں کو رمضان اور عید کے مواقع پر مدعو کرتے تھے۔

پاکستان میں جرمن سفیر مارٹین کوبلر ایک نئی مثال ہیں جو ہر سمت میں پاکستانیوں کی راہنمائی کر رہے ہیں۔ مقامی تہوار ہوں یا عالمی ایام، ان کے زبانی اردو میں تہنیتی پیغامات سوشل و الیکٹرانک میڈیا کی زینت بن کر کافی مقبولیت پاتے ہیں۔ پاکستان کے سیاحتی مقامات، کلچر اور فنون لطیفہ کو ہائی لائٹ کرتے ہیں اورمختلف روایتی دستکاروں و فنکاروں کے مقامات پر جا کر ان کی خوب پزیرائی اور ان کے فن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ لاہور میں خواتین کے لیے ”پنک رکشہ سکیم“ کا کامیاب اجراء ان کے انتھک اقدامات کا نتیجہ ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ ان کی سادگی سے خوب متاثر ہوتے ہیں اور انہیں آج کا رول ماڈل قرار دیتے ہیں۔

تبدیلی کی اس سمت میں اسلامی دنیا بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ ابوظہبی میں بھارتی بزنس کمیونٹی کے افراد کو مذہبی عبادت کے لیے مندر کی اجازت دینا اور پھر شیخ کے اپنے ہاتھوں سے اس کا افتتاح کرنا بھی اس سلسلے کی کڑی اور ایک مثال ہے۔ جسے بالخصوص پاکستان کے عوامی حلقوں میں بوجوہ پذیرائی نہی مل سکی۔ دکھائی دیتا ہے کہ اگلی دھائی میں ہر بڑے عرب شہر میں ہندو ساہو کاروں کے لیے اس طرح کے مندر موجود ہوں گے۔

اس پیش رفت کے باوجود خلیجی ممالک میں لیبر کو معاشرتی ادغام میں مشکلات، شہریت کی سہولیات کی عدم دستیابی اور امتیازی و غیر منصفانہ سلوک کی شکایات عام ہیں۔ پاکستان کا ایک معمولی آدمی بھی جہاں غیر مسلموں کے یورپ میں برابری کے حقوق پاتا ہے مگر بدقسمتی سے خلیجی ممالک کے مسلمانوں میں بڑے سے بڑے پاکستانی بزنسمین یا ڈاکٹر و انجینئر بھی وہاں اپنا مرتبہ مقامی لوگوں جیسا نہیں بنا سکتا۔

جرمن اور فرنچ لوگ اپنے سابق مہمان لیبر اور موجودہ ہم وطن مسلم شہریوں کو برابر باور کراتے ہیں کہ ان ممالک کی تعمیر نو کے اصل معمار آپ لوگ ہیں اور آج کی ہر قسم کی ترقی میں آپ کا بھی بھرپور حصہ ہے۔ مگر کیا اس طرز پر دبئی کے شیوخ برصغیر کے ہم مذہب مزدوروں کو کبھی یہ کہنے کا حوصلہ پیدا کر سکتے ہیں کہ اس شاندار دبئی کے بنانے والے تم ہی تو ہو، سو دبئی تمہارا ہے۔ شہریت حاصل کرو، یہیں اب کاروبار کرو اور مستقل گھر بساؤ۔

مسلم امہ و امت وحدہ کے دعویدار ہم لوگوں کو اپنے اپنے ممالک میں دیگر مسلم ممالک کی لیبر کو دوسرے درجے کے شہریوں جیسے امتیازی سلوک کو ترک کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں ہمیں منافقانہ روشیں چھوڑ کر یورپ سے سیکھنا ہو گا۔ یورپ کو سکھانے کی بجائے ہمیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے بھی یہ سب کچھ ہمارے اسلاف سے اور ان کی کتب سے حاصل کیا ہے۔

یاد رہے موجودہ ترقی سے قبل قرون وسطیٰ کے دوران یورپی معاشرے غربت و افلاس، مسلکی و قومی تعصبات اور رد علم و تعلیم کا شکار تھے۔ سائنسی انکشافات و دریافت کرنے والے سائنسدان معتوب ٹھہرائے جاتے تھے۔ مروجہ مذہبی نظریات سے ہٹ کر کچھ پیش کرنے والے پادریوں کو آگ کی ہلکی آنچ پر تب تک اذیت دی جاتی جب تک وہ ہلاک نہ ہو جاتے۔ یاد رہے جدید مغربی علوم کے بانیوں میں سے ایک فرانسیسی پادری، سائنسدان و فلاسفر ڈیسکاڑیس (Descartes) کو ان عقوبتوں سے بچنے کے لیے فرار ہو کر ہالینڈ میں پناہ لینی پڑی جو اس وقت بھی آزادئِ رائے دیتا تھا۔
پندرہویں صدی میں مسلم غرناطہ کے علوم سے فیضیاب ہونے کی بعد ہی یورپی لوگ اپنے معاشروں میں مثبت بدلاؤ لا سکے اور بتدریج علوم و مزاہب کی آزادی یہاں پنپ سکی اور انصاف کا بول بالا ہوا۔ ہمارے آباء کے بیشمار علوم ہی یورپی اقوام کی ترقی کی اصل بنیاد ہیں مگر ہم ان سے خاطر خواہ استفادہ تو کیا حاصل کریں، ہم تو ان علوم پر اپنے اسلاف کی چھاپ کو بھی نہیں پہچانتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).