اقوام متحدہ میں تبدیلی کی گونج 


وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اردو میں خطاب کیا۔ قوم کی اکثریت نے اس فیصلے کو سراہا۔ اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف حکومت کا یہ واحد فیصلہ ہے کہ جو حکومت کی نیک نامی کا سبب بنا۔ ورنہ اس سے پہلے زیادہ تر وہ فیصلےکیے گئے، جس سے حکومت کی سبکی ہی ہو ئی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کی ہیلی کاپٹر کے بارے میں باتیں ہوں یا بھینسوں کی نیلامی۔ عون چوہدری کی پنجاب میں تعیناتی ہو یا زلفی بخاری کو مشیر بنانے کا فیصلہ۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو یا مہنگائی کی نئی لہر۔ وفاقی وزیر مملکت شہریار آفریدی کی پھرتیاں ہو یا وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی ڈرامہ بازیاں۔ عاطف میاں کی تعیناتی ہو یا ان کو ہٹانے کا فیصلہ۔ سب غیر مقبول فیصلے تھے۔ جس کو خود تحریک انصاف کے کارکنوں نے پسند نہیں کیا۔ لیکن شاہ محمود قریشی کا اردو میں خطاب ایک ایسا فیصلہ ہے کہ جس کی ہر کو ئی تعریف کررہا ہے۔

نئے پاکستان کے پرانے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یقینی طور پر اقوام متحدہ میں ایک نئے پاکستان کی نما ئندگی کی۔ ان کی تقریر حقیقت میں تبدیلی کا استعارہ تھی۔ انھوں نے اپنے خطاب میں جنوبی ایشیا میں بدامنی کے اسباب کی واضح الفاظ میں نشاندہی کی۔ ماضی میں اسلام آباد کا ہر حکمران اس سے اجتناب کرتا رہا ہے۔ شاہ محمود کا یہ کہنا کہ ہندوستان پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے، جس کی زندہ مثال ہندوستان کے بحریہ کا حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو کی گر فتاری ہے۔ وزیر خارجہ کا اپنی تقریر میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر کو خطے کے امن میں رکاوٹ قرار دینا ایک حقیقت ہے، جس سے انکاری ممکن نہیں۔ ان کا یہ مطالبہ کہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، وہ حقیقت ہے کہ جس کا اقرار خود اقوام متحدہ بھی کر چکی ہے۔ جنرل اسمبلی میں شاہ محمود قریشی ہندوستان کے بیانیے پر مکمل طور نہ صرف چھائے رہے بلکہ اسے ناکام کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔

جنوبی ایشیا ء کے امن کے ساتھ شاہ محمود قریشی نے عالم اسلام یعنی اسلامی دنیا کو بھی اپنی کمزوریوں سے آگاہ کیا۔ ان کا یہ کہنا کہ مشرق وسطیٰ کے حا لات تشویش ناک ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ آج بھی اپنی جگہ مو جود ہے۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں کہ جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ چند برس قبل مصر میں ایک منتخب حکومت کو جس طر ح سے ختم کیا گیا وہ ایک فاش غلطی تھی۔ سعودی عرب اور ایران کی کشیدگی پوری امت کے لئے مستقل تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ سعودی عرب اور قطر کے درمیان کشید ہ تعلقات پر پوری امت میں اضطراب ہے۔ سعودی عرب اور حو ثی با غیوں کے درمیان مسلسل چپقلش عالم اسلام کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اور عربوں کی بے حسی امت میں اضطراب کا باعث ہے۔ عراق، شام، لیبیا اور مشرقی وسطیٰ کے دوسرے ممالک کی صورتحال کو اگر قابو نہیں کیا گیا، تو امکان یہی ہے کہ یہ خطہ بھی عالمی طاقتوں کی پراکسی وار کا میدان بن سکتی ہے۔ شاہ محمود قریشی کا یہ انتباہ بر وقت ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی ذمہ داری ہے کہ اس پر توجہ دیں۔

جنوبی ایشیاء کے مسائل کی نشاہدہی اور عالم اسلام کو متنبہ کرنے کے ساتھ ساتھ شاہ محمود قریشی نے عالمی امن کی طر ف بھی اشارہ کیا۔ ان کا یہ کہنا کہ افغانستان میں جاری دو عشروں کی جنگ سے یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ اس جنگ کو اب فوجی طاقت سے نہیں بلکہ مذاکرات سے ختم کیا جا سکتا ہے، اظہر من الشمس ہے۔ امریکا اور ان کے اتحادیوں کو چاہیے کہ اس پر توجہ دیں۔ افغانستان کا مسئلہ محض اس سے حل نہیں ہو سکتا کہ آپ ہندوستان کو افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجاز ت دیں۔ افغانستان کے مسئلے کا حل یہ بھی نہیں کہ آپ کابل میں مرضی کا حکمران بٹھا دیں۔ امریکا کو اس بیانیے سے نکلنا پڑے گا کہ جنوبی ایشیاء میں ہندوستان کو اپنا وائسرائے بنا نا ہے۔ ہندوستان کو بھی اس بیانیے سے ہٹنا ہو گا۔ اگر اس بیانیے کو مسترد نہیں کیا گیا تو امریکا ہزار سال افغانستان میں لڑنے کے باوجود بھی وہاں کامیابی حا صل نہیں کر سکتا۔

کابل میں مرضی کا حکمران بنا دینے سے وہ افغانستان کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے مزید پیچیدہ کر رہی ہے۔ اس لئے کہ کابل کے حکمران کو افغانستان سے کوئی غرض نہیں ہوتا، وہ امریکا کا دیا ہوا سب کچھ لوٹ کر چلا جاتا ہے، جبکہ بعد میں واشنگٹن رپورٹیں مرتب کرتے ہوئے چیختا ہے کہ مالی مدد کر پشن کی نظر ہو ئی ہے۔ لہذا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ انتباہ کہ افغانستان میں جنگ کی بجائے بات چیت کو مو قع دینا چاہیے ایک صائب مشورہ ہے۔ کاش کہ امریکا، ہندوستان اور کابل کے حکمرانوں کی باتوں میں آنے کی بجائے اسلام آباد کے مشورے پر توجہ دیں۔

پاکستان میں مو جود افغانستان کے مہا جرین کا وطن واپسی کا معاملہ ایک حساس اور سنگین مسئلہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان بلا تا خیر ایک سال کے عر صے میں ان افغان مہاجرین کو واپس بھیج دیں، جو یہاں رجسٹرڈ نہیں۔ جو مہا جرین رجسٹر ڈ ہیں۔ عالمی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کی واپسی کے لئے جلد اقدامات کریں۔ اگر پاکستان منصوبہ بندی کرئے، تو آنے والے دو سالوں میں تمام افغان مہاجرین کو وطن بھیجا جا سکتا ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ چراغ تلے اندھراہے۔ شاہ محمود قریشی کی اپنی حکومت اس بارے میں ابھی تک سنجیدہ نہیں۔ ورنہ سال کے 8 مہینے ایسے ہیں کہ جس میں افغانستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں موسم سازگار ہو تا ہے۔ اس لئے ان مہاجرین کی واپسی سال میں 8 مہینے بلا تعطل جاری رہ سکتی ہے۔ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ویزہ مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ تجارت پیشہ افراد، مریض، طالب علم، جن کی دونوں اطراف رشتہ داریاں ہیںاور سیاحتی ویزہ کے حصول کو آسان بنانے کی ضرورت ہے تاکہ غیر قانونی نقل و حرکت کو روکا جاسکے۔ ساتھ ہی افغانستان کو قائل کرنا ہو گا کہ وہ پاکستان کے محفوظ بارڈر کے بیا نیے کا ساتھ دیں۔ ورنہ آپ افغان مہاجرین کو ایک راستے سے بھیج دیںگے اور وہ دوسرے راستے سے واپس آئیں گے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پہلی بار اقوام متحدہ میں معاشی دہشت گر دی کی نشاندہی کی۔ یہ نشاندہی انھوں نے اس لئے کی کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) پر کام جاری ہے۔ لیکن امریکا، ہندوستان اور افغانستان اس راہداری کے شدید مخالف ہے۔ واشنگٹن، دلی اورکابل کی بھر پور کوشش ہے کہ یہ منصوبہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے تینوں ممالک کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ شاہ محمود قریشی نے ان تینوں ممالک کی ان کو ششوں کو معاشی دہشت گردی کا نام دیا ہے۔ ان کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ کسی بھی ملک پر کوئی بھی ملک یہ پابندی نہیں لگا سکتا کہ وہ دنیا کہ ساتھ منسلک ہو کر تجارت نہ کرے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو ناکام بنانا معاشی دہشت گردی ہی ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یورپ اور امریکا جو کہ اپنے آپ کو مہذب دینا کہتی ہے، ان کو مشورہ دیا کہ وہ مذہبی رواداری کا مظاہر ہ کریں۔ ایسے اقدامات نہ کریں جس سے کسی بھی قوم کی دل آزاری ہو۔ یہ بات انھوں نے گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے کی جو کہ معقول مشورہ ہے۔ پاکستان میں توابھی تبدیلی محسوس نہیں کی گئی ہے، لیکن شاہ محمود قریشی کے خطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ تبدیلی اقوام متحدہ کی دیواروں سے ٹکرا گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).