خاتون اول کے حیرت انگیز انکشافات


ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ اپنے پیارے کتے موٹو کو جہاز اور ہیلی کاپٹر پر سفر کرانے والا شخص (عمران خان) اس حد تک سادہ ہے، قوم بشمول کارکنان و ہمدردان تحریک انصاف بھی میرے خیال میں اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان کی بہت سی باتوں سے انجان ہی تھے جو خاتون اول کے پہلے ٹی وی انٹرویو کے توسط سے ان تک آں پہنچی ہیں۔

اپنے ٹی وی اسکرین پر بشریٰ بی بی کا انٹرویو دیکھتے وقت میرے ذہن میں سندھی زبان کی مشہور کہاوت گردش کرنے لگی کہ، ڪاڏي منهن مريم جو،ڪاڏي ٽنڊو الهيار،.

خیر! اب بات نکلی ہے تو اسے دور تلک جانا بھی چاہیے کہ واقعی وزیراعظم پاکستان عمران خان المعروف کپتان کے پاس صرف تین جوڑے ہیں اور کیا واقعی وہ اس صدی کے سب سے بڑے مسلمان لیڈر ہیں؟

میں تو سوچ کر ہی حیران ہو رہا ہوں کہ خاتون اول نے کون سا استخارہ کرکے یہ سب باتیں کی ہیں؟ وزیراعظم پاکستان کی اہلیہ اور خاتون اول ہونے کے ناتے بشریٰ بی بی تمام پاکستانیوں کے لیے قابل احترام شخصیت ہیں پر جب ان کی جانب سے کچھ عجیب و غریب سا موقف سامنے آئے گا تو ان پر بات بھی ہوگی اور تنقید بھی ہوگی، لہذا پی ٹی آئی کے کارکنان اور تبدیلی برگیڈ کے تمام جوانوں کو یہ سب باتیں سننا اور برداشت کرنا پڑیں گی۔

چلیں اب آتے ہیں خاتون اول کے سب سے بڑے انکشاف کہ عمران خان اور ترک صدر رجب طیب اردگان اس صدی (میرے خیال میں اکیسویں صدی) کے سب سے بڑے مسلمان لیڈر ہیں، ان کا موقف ہے کہ عمران خان کو سیاستدان نہیں کہا جا سکتا وہ ایک لیڈر ہیں۔ اس بات پر مجھے جنوبی افریقا کے سابق صدر اور عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کا قول یاد آگیا کہ ایک سیاستدان اگلے الیکش جبکہ لیڈر اگلی نسل کے لیے سوچتا ہے، اب خان صاحب اس قول کے مطابق کتنی حد تک لیڈر کے زمرے میں آتے ہیں یہ پڑہنے والے ہی فیصلہ کرلیں میں کیا کہوں۔

اب بات یہ ہے کہ اگر عمران خان صاحب کو ہم اس صدی کا سب سے بڑا لیڈر تسلیم کربھی لیں تو پھر معجزانہ طرح سے ملائیشیا کی قسمت بدل دینے والے لیڈر ڈاکٹر مہاتیر محمد (جنہیں خان صاحب خود اپنا رول ماڈل تسلیم کرتے رہے ہیں اور اپنی تقاریر، انٹرویوز میں ان کی مثالیں دیتے رہے ہیں) کو کون سے کھاتے میں رکھں گے؟ َ

چلیں مہاتیر محمد تو ٹھہرے ملائیشیا کے عظیم رہنما ہم اپنے ملک کی مثال لیتے ہیں کہ اسی صدی کے ساتویں سال 2007ء میں شہید ہونے والی لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاست، قیادت، دوراندیشی، جمہوریت کے لیے طویل جدوجہد اور عظیم قربانی کو ہم کس دائرے تک محدود رکھیں۔ بینظیر بھٹو شہید جن کے مداحوں میں برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے، سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور بہت سی دیگر مشہور و معروف عالمی و علاقائی شخصیات شامل ہیں۔

بہرحال خاتون اول کو حق ہے کہ وہ اپنے طور پر اپنے شوہر نامدارکو اسلامی دنیا کا عظیم لیڈر قرار دیں یا پھر صدی کا سب سے بڑا رہنما کہہ دیں پر دہلی دور است کے مانند ابھی لیڈر بننے کے لیے بہت سے کارنامے سرانجام دینے پڑیں گے خان صاحب کو جن کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا اور نہ ہی انتخابی واعدوں پر عملدرآمد کے کوئی آثار نظر آ رہے ہیں۔

ایک ہی مہینے میں پٹاری کھل کر سامنے آگئی ہے اور فرسٹ امپیرشن لاسٹ امپریشن کی طرح کپتان سرکار نے عوام کو کوئی رلیف تو فراہم نہیں کیا الٹا گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا گیا جس کے باعث سی این جی پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہوگیا ہے پر کسی کی کیا مجال جو تبدیلی سرکار کو کچھ کہے۔

خیر بات ہو رہی تھی عمران خان صاحب کی رہنمائی کی تو جناب اگر ہم ترک صدر رجب طیب اردگان سے ذرا موازنہ کریں تو بھی کچھ اچھا سا نہیں لگتا کیوں کہ ترک صدر اگر اپنے ملک و قوم کے لیے کوئی فیصلہ کرتے ہیں یا کوئی اسٹینڈ لیتے ہیں تو کم از کم یوٹرن نہیں لیتے ان کے سیاسی کیریئر پر نظر ڈالی جائے تو وہ ایک اٹل شخصیت کے مالک ہیں انہوں نے ماضی میں کسی پڑوسی ملک کے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر یہ نہیں کہا تھا کہ ہمارے ملک میں الیکشن میں وہ ہی جماعت کامیاب ہوتی ہے جس کے عقب میں اسٹیبلشمینٹ کھڑی ہوتی ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردگان نے اپنے سیاسی کیریئر میں کبھی کسی غیرآئینی حکمران (ڈکٹیٹر) کا نام نہاد ریفرینڈم میں ساتھ نہیں دیا بلکہ 2015ء میں پاکستان سمیت پوری دنیا نے دیکھا کہ انقرہ اور استنبول کی سڑکوں پر ترک صدر کے حامی عوام کس طرح جمہوریت کو بچانے گھروں سے باہر نکلے اور غیر آئینی طور پر اقتدار کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کرنے والے ترک فوج کے غدار جنرلز کو ناکوں چنے چبوائے، یہاں تک کہ جمہوریت پسند لوگوں نے ٹینکس کے نیچے کود کر جانوں کا نذرنہ پیش کیا اور رجب طیب اردگان نے بلا خوف و خطر اپنے ملک، جمہوریت اور قوم کے دشمن تمام فوجیوں کو قرار واقع سزا دی۔

میرے خیال میں خاتون اول پاکستان بشریٰ بی بی کو اب عمران خان اینڈ کمپنی کو کام، کام اور زیادہ کام والی پالیسی پر عمل کرنے کا مشورہ دینا چاہیے بصورت دیگر تبدیلی آنا تو دور کی بات ملک موجودہ حالات سے بھی بدترین صورتحال کا شکار ہوجائے گا اور پھر یہ نہ ہو کہ خاتون اول کو خود بھی تبدیلی نہ لائے جانے کے اسباب پر عوام کو قائل کرنا پڑ جائے۔

تو بہتر یہی ہے کہ بشریٰ بی بی وزیراعظم پاکستان کو یہ بھی سمجھائیں کہ وہ اور ان کے وزراء، مشیران فی الحال پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی روایات پر عمل پیرا نہ ہوں اور صحافیوں کے سوال پر وہ ہی جواب نہ دیں کہ یہ پچھلی حکومتوں نے بیڑا غرق کردیا اب ہم کیا کریں؟ قرض کیسے اتاریں وغیرہ وغیرہ، جناب آپ تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے ہیں پاکستان کے عوام نے مسلسل مایوسی کے عالم سے نکلنے کے لیے آپ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، لہٰذا اب اپنی تعریفیں آپ کرنے کی سوچ کو ترک کردیں اور کام کر دکھائیں تا کہ 2023ء کے الیکشن میں عوام سے منہ چھپانا یا ریاست مدینہ کا ماڈل نہ بنائے جا سکنے کے حوالے سے وضاحتیں دینا نہ پڑیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).