ایک دن چور کا


بدعنوان ملکوں کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان دنیا کے 180 ملکوں میں سے 117 ویں نمبر پر ہے۔ ہم خطے میں بھارت اور چین سے زیادہ بدعنوان ہیں۔ اور ہمارے دو ہمسائیوں ایران اور افغانستان کو اس معاملے میں ہم پر برتری حاصل ہے۔ یعنی یہ دونوں ملک ہم سے بھی زیادہ بد عنوان ہیں۔

حالانکہ اس طرح کا شرف حاصل کرنے کے لئے ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہم سب سے آگے نکل جائیں۔ سب سے زیادہ ایماندار لوگ برطانیہ کے، اور سب سے ایماندار سیاستدان ڈنمارک کے مانے جاتے ہیں۔ سب سے ایماندار ملکوں کی فہرست میں نیوزی لینڈ اور سنگا پور سب سے آگے ہیں۔ خیر آج تو بات ہو گی کرپشن کے اس شہسوار کی جس نے پورے ملک کے منہ پر کالک مل دی۔

اسلام آباد میں گریڈ بیس کے افسر نے کویت سے آئے ہوئے وفد کے ایک رکن کا بٹوہ اڑا لیا۔ اس سے پہلے کہ بیروں اور خدمت گاروں کی شامت آجاتی اور پاکستانی پولیس کی تفتیش کے بعد ٹیبل اور کرسیاں بھی بٹوہ چوری کرنے کا با جماعت اقرار کر لیتیں۔ کلوز سرکٹ کیمروں نے سارا بھانڈہ پھوڑ دیا۔ افسر موصوف میں شرم وحیا جیسا فضول مادہ ہوتا تو شاید اس طرح کی نیچ حرکت سے باز رہتے۔

بہت حیران کرنے والی بات ہے۔ اس لیول کے لوگ اس طرح کے کرتوت کم کرتے ہیں۔ حالانکہ عام زندگی میں ان کاچلن یہی رہتا ہے۔ لیکن برسرعام رسوا ہونا کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ اشفاق احمد کہتے تھے اس ملک کو اتنا نقصان ان پڑھوں نے نہیں پہنچایا جتنا پڑھے لکھوں نے پہنچایا ہے۔

ایک زمانے میں سول سروس سے وابستہ لوگ عزت و توقیر کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ معاشرے کے چنیدہ پڑھے لکھے لوگ سخت مقابلے اور اچھی تربیت کے بعد ملکی اداروں کی زمام کار سنبھالنے آگے آتے تھے۔ کب کب چور اور جیب کترے اس شعبے میں آگے آئے۔ یہ کوئی بہت بڑی پہیلی بالکل بھی نہیں۔ جب ریاست کی سربراہی کے سب سے قابل احترام عہدوں پر خائن اور ٹھگ براجمان ہو گئے تو ’ نچلی سطح پر کون کسی کو پوچھتا۔ جس کا جہاں داؤ لگا اس نے لگا لیا۔

جب آج کے قائد جمہوریت قومی سیاسی افق پر ابھرے تو ملکی سرمایہ چوری کر کے باہر بھیجنے کی روایت پڑی۔ مشرف دور میں درامد ی وزیراعظم شوکت عزیز جب ایوان وزیراعظم سے رخصت ہوِے تو وزیر اعظم ہاوس میں موجود دیگر استعمال کی اشیا کے علاوہ انڈر ویئر اور بنیانیں تک اپنے ساتھ لے گئے۔ جناب یوسف رضا گیلانی صاحب نے ترک صدر کی اہلیہ کی طرف سے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے دیا جانے والا قیمتی ہار اپنی بیوی کو دے دیا۔

تو سابق صدر آصف علی ذرداری نے ترکی سے سیلاب زدگان کی امداد کے طور پر ملنے والی ایمبولینسیں اپنے کزن حاجی علی ذرداری کو عنائت کر دیں۔ سابقہ اصلی اور وڈی جمہوریت کے دور میں تو وزیر اعظم سمیت سابق وزراء کرام یہاں قوم کی خدمت کرنے کے علاوہ چھوٹی چھوٹی عرب ریاستوں میں جھاڑو پونجا، حجامتیں اور چوکیدارے بھی کرتے پائے گئے۔ اور اپنے اس عمل پر آج تک کوئی ندامت بھی محسوس نہیں کرتے۔

اصل میں چھینا جھپٹی اور اچکا پن اب ہمارا قومی کردار بن چکا ہے۔ اور اب اس کو یہاں معیوب ہی نہیں سمجھا جاتا۔ چند سال پہلے عمران خان کے قصور میں ہونے والے جلسے میں شرکاء کرام کرسیاں لوٹ کر چلے گئے۔ دیہاتوں میں ہر سال گنے کی ٹرالیوں سے گنے کھینچنے کی کوشش میں درجنوں لوگ انہیں ٹرالیوں کے نیچے آ کر کچلے جاتے ہیں۔ مساجد میں جائیں تو اپنے کیچڑ اور گندگی سے بھرے ہوئے جوتے سینے سے لگا کر صفوں کو چیرتے ہوئے کئی لوگ نظر آ جائیں گے۔ جن کو عبادت سے زیادہ اپنے جوتوں کی فکر ہوتی ہے۔

مسجدوں میں جہاں استنجا خانوں کے لئے رکھی ہوئی چپلوں کو آگے سے کاٹ کر رکھنا پڑتا ہے تو وہیں وضو خانوں میں صابن کی ٹکیا کے ٹکڑے رکھنے پڑتے ہیں اور تو اور وضو خانوں کی ٹونٹیوں کے اوپر بھی حفاظتی سریے ویلڈ کر کے لگانے پڑتے ہیں۔ ۔ عوامی مقامات پر لوہے کے گلاس کولروں کے ساتھ زنجیروں سے جکڑے نظر آئیں گے۔ تو عدالتی احاطوں میں وکیلوں کے بنچ اور کرسیاں بھی قیدی بنی نظر آتی ہیں۔ ہمارے پولیس تھانوں میں پکڑ کر یا برامد کر کے لائی گئی گاڑیوں کی سیٹیں تک خود قانون کے رکھوالے نکال کر لے جاتے ہیں۔

بازاروں میں، دکانوں پر، منڈیوں میں ایک سے ایک بڑا فنکار آپ کو مل جائے گا۔ کسی ریڑھی والے سے پھل خرید کر دیکھیے ایسی مہارت سے گلے سڑے پھل آپ کو تول کر پکڑائے گا کہ گھر جا کر کھولنے پر ہی آپ کو پتا چلے گا کہ آپ کے ساتھ ہاتھ ہو گیا۔ کسی ڈاکٹر کے کلینک پر چلے جائیے۔ آپ کو وہ ٹیسٹ اور دوائیاں لکھ کر دے گا جن کی آپ کو قطعاً ضرورت نہیں ہوگی۔ بس اس کا کمیشن کھرا ہو گا۔ مغربی دنیا میں سیزیرین بچے 5 فیصد سے زیادہ نہیں پیدا ہوتے۔ پاکستان میں اب 52 فیصد سے زیادہ سیزیرین یعنی پیٹ چاک کر کے پیدا کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ خاتون ڈاکٹر صاحبان نے اپنے بڑے بڑے کلینک ان میں موجود اپنی ہی لیبارٹریاں اور اپنے ہی میڈیکل سٹور یعنی اپنی پوری ایمپائر چلانی ہوتی ہے۔

بازاروں میں ستر فیصد دکانوں کے نام مکہ کریانہ سٹور، مدینہ گارمنٹس، محمدی ٹریڈرز اور ماشاء اللہ ہوٹل۔ وغیرہ وغیرہ ہوں گے۔ ہر دوکان پر ایک یا دو عدد باریش نورانی چہروں والے حاجی صاحبان براجمان ہوں گے۔ اور تقریباً ہر دوکان میں دو نمبر کا مال فروخت ہو رہا ہو گا۔ یہی حال سرکاری اداروں کا یہی حال اہل سیاست کا اور یہی حال مذہبی رہنماؤں کا ہے۔ بس سب کا طریقہ واردات الگ الگ ہے۔ جس کا بس چلا اس نے کسر کوئی نہیں چھوڑی۔ تو اس طرح کے نیک طینت معاشرے میں اس طرح کے گریڈ 20 کے افسر نہیں ہوں گے تو کوئی فرشتے ہوں گے؟ کہتے ہیں“ سو دن چور کے تو ایک دن کوتوال کا“
ہم نے تو ہوش سنبھالا تو چوروں کے دن ہی دیکھے ہیں۔ کوتوال کا دن بھی کبھی دیکھیں گے؟ یہ نصیب کی بات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).