جامعہ کراچی کے اساتذہ تر نوالہ کیوں؟


اس واقعے کو کافی عرصہ گزر گیا، اس لئے قارئین کو یاد دلا دیں کہ اس شہر کے ایک پارک میں رینجرز کے کچھ اہلکاروں نے ایک لڑکے کو کھڑا کر کے گولی مار دی تھی۔ اس واقعے کی ایک ٹی وی چینل نے عکس بندی کر لی تھی کیونکہ اتفاق سے وہ اس سانحے کے وقت اس پارک میں کسی پروگرام کی ریکارڈنگ کر رہے تھے۔ بس یہ منظر جب ذرائع ابلاغ کے ہاتھ لگا تو قیامت ہی آ گئی۔ 6 رینجرز کے اہلکار گرفتار ہوئے، ان پر دہشت گردی کی دفعات لگا کر مقدمہ قائم ہوا اور سب کو عدالت نے سزائے موت سنائی۔ بعد میں سزا میں تبدیلی کر کے اسے 25 سال قید بنا دیا گیا مگر یہ واقعہ تو قارئین کو یاد ہے۔

یہ واقعہ ہمارا موضوع نہیں۔ ہمارا موضوع وہ ہے جو اس کے بعد ہوا۔ یہ 6 قیدی سینٹرل جیل کراچی میں آج تک قید ہیں، ان سے ہر ہفتے ان کے رینجرز کے ساتھی جیل میں ملاقات کرنے آتے ہیں، ان کے لئے اپنے ساتھ کھانے اور دیگر ضروریات کی چیزیں لاتے ہیں۔ ان کے مقدمے کے لئے بھی ان کے ساتھی رینجرز کے جوانوں نے چندہ کر کے وکیل کی فیس جمع کی تھی، ابھی بھی وہ ان کے ہائی کورٹ کے معاملات کی پیروی کر رہے ہیں، رینجرز کے اہلکاروں نے اپنے ان 6 ساتھیوں کے لئے ایک اور عجیب انتظام کر رکھا ہے۔ یہ سب چندہ کر کے ان لوگوں کی تنخواہوں کے برابر پیسے ہر ماہ ان 6 کے گھروں تک پہنچاتے ہیں۔ ان 6 کے گھر والوں کو ان کے ساتھیوں نے معاشی طور پر یہ کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ یہ لوگ اب سزا یافتہ مجرم ہیں اور ان کی نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔

کوئی کہہ سکتا ہے کہ رینجرز والوں کو آخر ایسے 6 اہلکاروں سے اتنی محبت کیوں کہ جنہوں نے یوں ایک لڑکے کو محض موبائل چور ہونے کے شک پر گولی مار دی؟ رینجرز کے اہلکاروں کے پاس اس بات کا ایک جواب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان اہلکاروں نے اس لڑکے کے ساتھ جو کیا وہ بالکل غلط تھا اور اس کی سزا تو وہ عدالت سے پا چکے مگر ان کے ساتھی انہیں اپنے اہل خانہ کی طرح سمجھتے ہیں اور ان کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔ عالکل ویسے ہی جیسے اگر آپ کے سگے بھائی سے کوئی جرم ہو جائے تو بھی آپ اس کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔

سوچنے کی بات ہے کہ ایک طرف ایک ادارے کے ملازمین کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا رویہ ہے، ان کی محبت اور ہمدردی اپنے ساتھیوں کے ساتھ غیر مشروط ہے اور دوسری طرف ایک ایسا ادارہ ہے کہ جس کے ملازمین نے اپنے ایک ساتھی کو محض ایک الزام کی بنیاد پر گرفتار ہونے پر ہی خود ہی اس کے خلاف فیصلے سنا دیے اور اپنے تئیں اسے زندہ درگور کر دینے کی ہرہر سعی اور کوشش کی۔

مگر معاملہ تفصیل طلب ہے، چلئے 2016ء میں واپس چلتے ہیں۔ اچانک جامعہ کراچی کے کلیہ سماجی علوم کے ایک جواں سال اسسٹنٹ پروفیسر کو ایف آئی اے نے اغوا کیا اور پھر ذرائع ابلاغ پر اس کی تصویریں کسی دہشت گرد کی طرح دکھا کر یہ خبر چلائی گئی کہ اس نے فیس بک پر ایک نجی جامعہ کی استانی کے حوالے سے قابل اعتراض مواد ڈالا ہے۔ اخبارات میں آدھے آدھے صفحے کی خبریں مع اس اسسٹنٹ پروفیسر کی تصویر کے شائع ہوئیں اور ایف آئی اے نے اس ”درندے‘‘ کو جیل کسٹڈی کر دیا۔

تقریباً دو سال ہو چکے یہ شخص جیل میں ہے، اس کا کیس عدالت میں“ کچھوے“ سے بھی سست رفتار سے چل رہا ہے، عدالت نے دو مرتبہ اس کی ضمانت کی درخواست محض اس بنیاد پر مسترد کر دی کہ کیس میں بیانات ہونا ضمانت کی وجوہ کے لئے ضروری ہے مگر اس حال میں یہ شخص نہ تو عدالتوں کی سست روی کا شکوہ کرتا ہے نہ ہی کسی اور کا۔ اس سے ملئے تو یہ اپنے جامعہ کے اساتذہ کے بارے میں پوچھتا ہے کہ انہوں نے اس کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ ان میں سے کوئی بھی کبھی بھی اس سے جیل میں یا عدالت میں ملنے کیوں نہ آیا؟ ان میں سے کسی نے بھی کبھی بھی اس کے گھر والوں سے ملنے یا ان کو دلاسہ دینے کی کوشش کیوں نہ کی؟

چلئے وہ لوگ یہ نہیں کر سکتے تھے، نہیں کرنا چاہتے تھے تو ٹھیک مگر اسی کراچی یونیورسٹی ٹیچرز یونین والوں نے ہی کیوں اس کا میڈیا ٹرائل کرایا اور اس کے خلاف اخبارات میں خبریں کیوں لگوائیں؟ جب جامعہ کے طلبہ و طالبات فیس بک پر ہیش ٹیگ لگا رہے تھے، مظاہرے کرنا چاہ رہے تھے تو ان کو کیوں جامعہ کے اساتذہ نے دھمکیاں دے کر اس سے روک دیا؟

وہ مسکرا کر کہتا ہے کہ جو اساتذہ اس کے پاس سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بحیثیت دوست موجود تھے، ان سے تو ایک قیدی کا مردہ پروفائل بھی بھاری بن گیا اور انہوں نے اسے اپنے پاس سے ڈیلیٹ اور بلاک کر دیا۔ وہ کہتا ہے کہ ان سب نے اس کے ساتھ جو کیا وہ اس تناظر میں بہت حیران کن ہے کہ وہ بحیثیت استاد بہت اچھی شہرت کا حامل تھا، وہ کبھی اپنی کلاس میں دیر سے نہ آتا، ہمیشہ کورس مکمل کراتا اور بہت دل لگا کر پڑھاتا تھا، اسی وجہ سے آج کے دن تک اس کے طلبہ و طالبات ان حالات میں بھی اس کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان الزامات کو کبھی خاطر میں نہیں لائے مگر ساتھی اساتذہ نے پوری کوشش کی کہ اسے ایک نوع کا اچھوت بنا دیں۔

وہ مسکراتے ہوئے بتاتا ہے کہ 2017ء میں جامعہ کراچی کی ٹیچر یونین کے ایک اہم رکن ڈاکٹر ریاض احمد ایک الزام میں چند دن کے لئے جیل وارد ہوئے تھے، وہ ان سے ملنے گیا، اس نے ان سے بھی یہ سارے سوالات پوچھے تو وہ آنکھ ملائے بغیر ہکلاتے ہوئے بولنے لگے کہ ”اصل میں ہم لوگوں کو آپ سے کوئی چڑ نہیں ہے مگر ہم مثال قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ آئندہ کوئی ایسا کچھ نہ کرے‘‘۔

یہ جملہ سن کر وہ ششدر رہ گیا۔ یعنی کیس چلنے سے پہلے ہی جامعہ کے اساتذہ تو اپنے دلوں میں اسے مجرم مان کر سزا بھی سنا چکے۔ یہ کیسی عدالت سجائی گئی کہ جس میں اپنے اتنے سال کے ساتھی کے موقف کو سننے کی بھی ایک مرتبہ بھی سعی نہ کی گئی؟

یہ تعلیم یافتہ لوگ ہیں اور یہ غلط فہمی عام ہے کہ تعلیم انسان سے تعصبات کو کم کرتی ہے مگر یہاں پر معاملہ اس کے برعکس ہے، یہاں پر ہر ہر ملزم کے لئے ان کے پاس بس غیر مشروط لعنت ہی ہے اور کچھ نہیں۔

لوگ بڑی حیرت سے پوچھتے ہیں کہ جامعہ کے دو پروفیسرز جناب شکیل اوج صاحب اور جناب یاسر رضوی صاحب کو یکے بعد دیگرے 2014 اور 2015 میں دن دیہاڑے مار دیا گیا اور یا تو مجرم پکڑے ہی نہ گئے اور اگر کوئی پکڑا بھی گیا تو عدم ثبوت کی بنیاد پر بری ہو گیا، آخر ایسا کیوں؟ آخر ان لوگوں کا خون اتنا ارزاں کیوں تھا؟

اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے ادارے کے ساتھیوں نے ان کے قتل کو کبھی اپنا ذاتی نقصان نہیں سمجھا۔ انہوں نے کبھی ان دونوں کے لئے اتنا سا بھی دکھ محسوس نہ کیا جتنا کہ انسان اپنے کسی دور کے عزیز یا اپنے کسی محلہ دار کی ناگہانی موت پر محسوس کرتا ہے۔ یہ لوگ تو ان دونوں مرحومین کے لئے ایک احتجاج بھی برپا نہیں کر سکے، بلکہ ان دونوں کے انتقال کے بعد بھی اپنی ذاتی محافل میں ان کے بارے میں منفی گفتگو کرتے رہے۔ یہ بات بھی لوگ بھولے نہیں ہیں کہ یاسر رضوی مرحوم کے قتل سے اگلے روز جامعہ میں ایک ” چھچھورا تھیٹر پروگرام ” بھی ملتوی کرنے کی کسی نے زحمت نہ کی۔ یہ بات میڈیا پر آئی تو یہ لوگ نت نئے بیانات دیتے رہے اور اپنی ذاتی محافل میں ہنستے رہے اور بڑی بے دردی سے یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ کسی کی موت پر تھیٹر پروگرام کیوں روکا جائے؟
The show must go on!

اب ظاہر ہے جس ادارے کے ملازمین ایک دوسرے سے اتنی گہری نفرت کرتے ہوں اور ایک دوسرے کی ذلت و رسوائی، تباہی یا موت کی خبروں پر باقاعدہ خوش ہو جاتے ہوں، وہ کسی کے لئے بھی تر نوالہ کیوں نہ ہوں گے؟

کوئی بھی طبع آزما چینل ان کی پگڑی اچھال سکتا ہے، کوئی بھی شخص کسی بھی وجہ سے ان میں سے کسی کو بھی دن دہاڑے قتل کر سکتا ہے یا کچھ بھی برا کر سکتا ہے، مگر یہ نہ جواباً کچھ کر سکتے ہیں، نہ ہی یہ اپنے ساتھی یا اس کے خاندان کو دلاسہ ہی دے سکتے ہیں۔ یہ تو دو میٹھے بول بھی نہیں بول سکتے، ان سے ان کے کسی ساتھی کے لئے خیر کی امید کرنا تو فضول ہے ہی مگر حیرت اس پر ہے کہ اس قدر نفرت کے زہر سے بھرے یہ لوگ آخر سانس کیسے لیتے ہیں؟
ان کے وجود کا زہر ان کی سانسوں کے ساتھ ان کے پھیپھڑوں میں کیسے نہیں اترتا؟ ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).