جمیل الدین عالی اوران کی بیگم طیّبہ


جمیل الدین عالی جو اَب ایک عہد، ایک تہذیب اور ایک تاریخ کا نام ہے، اور شاید ایسی ہی معتبر شخصیات کے لیے سرور بارہ بنکوی نے لکھا تھا کہ:
جن سے مِل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے دیکھے نہ ہوں شاید، مگر ایسے بھی ہیں

جمیل الدین عالی صاحب بلاشبہ اِتنی ہمہ گیر و ہمہ جہت شخصیت تھے کہ ان کی شخصیت کے علاوہ، ان کی شاعری و انشاء پردازی کے حوالے سے بہت کچھ لکھاگیا ہے اور لکھا جا سکتا ہے لیکن میرے آج کے مضمون کا موضوع یہ ہے کہ میں نے جناب جمیل الدین عالی اور ان کی بیگم طیبہ عالی کو کیسا پایا۔

میں بات کا آغاز بیگم طیبہ جمیل الدین عالی سے کروں گی کیونکہ میرا ماننا ہے کہ ہر کامیاب اور متاثرکُن مرد کے پیچھے نہیں بلکہ اس کے شانہ بہ شانہ، اس کا ہمزاد بن کر ایک عورت کھڑی ہوتی ہے جو کہ خاندانی رنجشوں و رُکاوٹوں اور دیگر معاشرتی مسائل کو تن تنہا حل کرتی ہے اور مرد کو یکسوئی اور سکون سے کام کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور وہ طیبہ بیگم جیسی خواتین ہوتی ہیں۔

دانا و بینا، وفاشعار، مجسم محبت، جمیل الدین عالی صاحب اور ان کی بیگم سے میری پہلی ملاقات ایک تقریب میں ہوئی جہاں مجھے پیپر پڑھنا تھا۔ تقریب کے اختتام پر میں نے طیبہ بیگم سے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے اور کہا۔ ”آنٹی‘‘ تو فوراً ٹوکا۔ اور بولیں۔ ”آنٹی کیا۔ ارے امی کہو۔ ‘‘ اتنی بے ساختگی، اتنی محبت تھی ان کے لہجے میں کہ ایک لمحے میں اجنبیت کی ساری دیواریں گرگئیں۔ ”اور آپ کو‘‘ میں نے مسکرا کر عالی صاحب کی جانب دیکھا۔

”جو تمہارا دل چاہے۔ ‘‘ شفقت اور محبت سے گندھے لہجے میں جواب آیا۔
”یہ میری امی ہیں تو آپ میرے بابا ہوئے نہ۔ ہاں ہاں بالکل۔ لفظ تائید عطا ہوتے ہی میرے لیے ایک محبت کدہ کا دروازہ ُکھل گیا۔

امی جان مجسم پیارومحبت تھیں۔ ان سے ملنے سے قبل مجھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے، جس کا اظہار بہت کم لوگوں سے کیا جا سکتا ہے اور بہت سارے لوگوں سے محبت کرنے سے یہ جذبہ کم ہو جائے گا۔ امی جان سے مِل کر، میں نے سیکھا کہ محبت دراصل وہ حیرت انگیز جذبہ ہے۔ جو بانٹنے سے اپنی وسعت میں بے پناہ ہو جاتاہے۔ شاید محبت کا حسن ہی اس بات میں پوشیدہ ہے کہ اِس کے دائرہ اختیار میں بے شمار زندگیاں ہوں۔ یہ محبت کا سفر شروع ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ۔ میرا خیال رکھنے والے بہت سے لوگ ہیں۔

میرا بیٹا زریاب، ان دنوں ڈھائی سال کا تھا۔ وہ شدید بیمار ہوا تو میں کچھ عرصے کے لیے عالی بابا کے گھر نہ جا سکی۔ فون بھی شاید خراب تھا۔ یا ہسپتال وغیرہ کے چکروں میں فون اٹینڈ نہیں کر پاتی تھی۔ یہی کوئی شام کا وقت تھا۔ محلے کے کسی بچے کی دروازے پہ دستک تھی۔ میں نے دروازے پر جا کر بچے سے پوچھا کہ کیا بات ہے، بولا کہ کوئی خاتون نیچے آپ کا پوچھ رہی ہیں۔ میں جلدی جلدی تھرڈ فلور سے نیچے اُتری تو سامنے طیبہ امی کو کھڑا پایا۔ مجھے دیکھتے ہی خاصی خفگی سے بولیں۔

”ارے کہاں ہو تم۔ نہ خیر نہ خبر۔ اور بچہ کیسا ہے؟ ایسا کرتے ہیں کیا؟ تمہارے بابا بھی پریشان ہیں۔ پوچھ رہے ہیں تمہارا۔”
میں نے انھیں پُرسکون کرنے کے لیے کہا کہ امی سب خیریت ہے۔ آپ نے ناحق تکلیف کی۔ فون کر لیا ہوتا۔
بولیں۔ تمہارا تو فون ہی کام نہیں کرتا۔ فون ٹھیک کرواؤ اپنا۔ میرے اصرار کے باوجود۔ مجھے آنے کی تاکید کرتے ہوئے دُعائیں دے کر چلی گئیں۔ یقین مانئے مجھے ایسا لگا گویا، میں نے طیبہ جمیل الدین کی شکل میں محبت کو مجسم دیکھا ہے۔ اس واقعے کے بعد میں نے کوتاہی نہیں کی۔ مہینے میں کم از کم دوبار سلام کرنے ضرور حاضر ہوتی تھی۔ امی جان کے پاس بیٹھتی۔ بابا کو علم ہوتا تو وہ بھی ملتے۔ دونوں میرے بچوں سے خصوصی طور پرشفقت سے پیش آتے۔ امی۔ میری ہمہ وقت متحرک بیٹی، سوفیہ کو ”بھنبھیری ‘‘ کہا کرتی تھیں اور ہم ہنستے تھے کہ یہ نام اِس پر کیسا فٹ لگتا ہے۔

یہ محبت کبھی کبھی چھوٹی موٹی آزمائش میں بھی ڈال دیتی تھی، مثلاً بابا کے لیونگ روم میں باہر کی جانب کھلنے والی کھڑکی کے باہر ساحل سمندر کا جو حصہ نظر آتا تھا وہاں کچھ کشتیاں بندھی تھیں، مجھے یوں لگتا تھا کہ گویا یہ کشتیاں ازل سے یونہی کھڑی ہیں۔ تیز ہواؤں اور موسمی تغیرات کے سبب زخم خورد ہ ہو چکی تھیں۔ تیز ہواؤں کے زور پر پھڑپھڑاتے، لیر لیر بادبانوں اور زنجیروں سے بندھی کشتیوں میں، موجوں کے بہاؤسے کچھ اِرتعاش سا پیدا ہوا لگتا تھا اوریوں لگ رہا تھا گویا کشتیاں ہلکورے لے رہی ہیں۔

بابا نے کھڑکی کے پار دیکھتے ہوئے کہا۔
”آج تو کشتیاں متحرک ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے لوگ سیر کر رہے ہیں۔ ‘‘
”ارے کب کی بندھی کھڑکی ہیں، کہاں جائیں گی یہ کشتیاں۔ ‘‘ امی بولیں۔
”ارے نہیں بھئی دیکھو۔ کہاں تھیں اور کہاں پہنچ گئیں۔ ‘‘
بابا اپنی بات پہ ڈٹے تھے۔
امی جان نے اپنا مؤقف پھر دُہرایا۔
‘‘بابا بولے۔ ”شہناز بیٹا اِدھر آؤ۔ دیکھو کھڑکی کے پاس جا کر، کشتیاں رواں ہیں نہ۔

بدنصیب کشتیاں نہ جانے کب سے یہاں بندھی تھیں۔ میں نے کھڑکی کے اُس پار دیکھا۔ مجھے کشتیوں کے مقدر پر دُکھ سا ہوا۔ مگر یہ حوصلہ نہ ہوا کہ اپنی بات کا وزن لیکن پلڑے میں ڈالوں۔ لہٰذا میں نے کہا۔ ”بابا مجھے تو کچھ بھی صاف نظر نہیں آ رہا۔ میرا چشمہ غلطی سے گھر رہ گیا ہے۔
”چشمہ؟ ہیں، ابھی سے چشمہ لگ گیا؟ کیا نظر خراب ہو گئی ہے۔

بات کا رُخ پلٹ گیا اور میں نے شکرادا کیا۔ مگر ابھی آزمائش کی گھڑیاں میری منتظر تھیں۔ میں جیسے ہی صوفے پر بیٹھی۔ بابا کو اچانک کچھ یاد آ گیا، بولے۔
”سنو تم کو ڈرائیونگ بھی کرتی ہو نہ اور اتنے چھوٹے چھوٹے بچے ساتھ بٹھا کر، چشمہ گھر بھول آتی ہو۔ اچھا سنو۔ دو چشمے خریدو۔ ایک پرس میں رکھو اور دوسرا گاڑی میں۔ یہ تمہاری امی تمہیں بتائیں گی کہ کہاں سے خریدنا ہیں۔
”جی بابا۔ ‘‘ میں نے ادب سے کہا۔

بابا مجھے ہمیشہ مزید پڑھنے کی تاکید کرتے تھے، مجھے یاد ہے کہ ایک بار انگریزی ادب کے حوالے سے مجھ سے پوچھا کہ کس کس کو پڑھا ہے؟ میں نے کالرج، ورڈزورتھ، شیلے، کیٹس، بائرن کے نام لیے تو بولے۔ سب روم منٹک۔ میں نے کہا نہیں بابا۔ ریسٹوریشن کے بعد کا ادب بھی پڑھا ہے، جیسے شیکسپیئر اور مارلو۔ کہنے لگے۔ اچھا۔ اُردوادب کے ساتھ موازنہ کیا ہے انگریزی ادب کا۔ میں نے لمحہ بھر سوچنے کے بعد کہا۔ بابا میرا خیال ہے کہ Thoughtہمارے پاس بڑا ہے۔ مگر بات کہنے کا سلیقہ انگریز کو بہت ہے۔ میں نے دیکھا بابا۔
میرے جواب پہ خوش ہو گئے۔ بولے۔ ہاں یہ ہوئی نہ بات۔ خیال ہمارے پاس بڑا ہے۔

انہی دِنوں بابا نے میرے افسانوں اور میرے ریسرچ پروجیکٹ کے حوالے سے مجھ پر مضمون لکھ کر اپنے ہفتہ وار کالم میں اسے شامِل کیا۔ اس مضمون کا ایک جملہ ہے
”شہناز جب مجھے بابا کہتی ہے تو مجھے یوں لگتا ہے کہ گویا اب اہل سندھ نے بھی مجھے اپنا لیا ہے۔ ‘‘

میں آج اِس باوقار محفل میں اِس جملے کا بیک گراؤنڈ بتانا چاہوں گی۔ عالی صاحب نے مجھے اپنی معرکۃ الآرا کتاب ”انسان‘‘ تحفتاً دی۔ اور اس کتاب کے سندھی ترجمے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہنے لگے۔ بیٹا لگتا ہے کہ ابھی تک اہل سندھ نے مجھے قبول نہیں کیا۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ بابا۔ آپ نے لکھا ہے کہ
شاہ لطف تمہارے در پہ کیا کیا سُر لہرائیں
عالی جیسے من کے میلے بھی کندن ہو جائیں
شاہ لطیف تمہارے سُر کی دُنیا میں وہ دھوم
سندھ کی مٹی جہاں بھی پہنچے، لوگ اسے لیں چوم

تو بابا۔ یہ معاملہ اب اہلِ سندھ تک محدود نہیں ہے۔ سندھ کی دھرتی نے آپ کو اور آپ نے سندھ دھرتی کو قبول کیا ہے۔ تو اَب یہ آپ دونوں کا معاملہ ہے۔
میں نے دیکھا بابا کا چہرہ کھل اُٹھا۔ اور کہا۔ جیتی رہو بیٹا۔

یہ وہ وقت تھا جب میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے برطانیہ جارہی تھی۔ بابا اور امی میرے اِس فیصلے سے بہت خوش تھے اور بچوں کا خاص خیال رکھنے کی تاکید کر رہے تھے۔ دو سال بعد جب میں برطانیہ سے واپس پاکستان گئی تو عالی صاحب سے ملنے اُن کے گھر گئی۔ امی جان اپنے کمرے میں بیماری کی حالت میں لیٹی تھیں۔ کئی مہمان موجود تھے، مجھے دیکھ کرآنکھوں میں محبت کی جوت جلی۔ اِتنی تکلیف مجھ سے دیکھی نہ گئی۔ میں وہاں سے بابا سے ملنے ان کے کمرے میں آئی۔ میں نے بابا کو اِتنا اُداس، اِتنا تنہا اور خاموش پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میرے اندر اتنا حوصلہ نہ تھا کہ میں کچھ بول سکوں۔ میں اِنگلستان میں تھی جب خبر ملی کہ امی جان رُخصت ہوئیں۔

محمود شام صاحب کا ایک شعر ہے کہ۔
دو گھڑی حاضری، کچھ پھول، دُعا، عرق گلاب
ماں سی ہستی سے بھی یہ واسطہ رہ جاتا ہے

کچھ عرصے بعد۔ خبر آئی کہ بابا کا بھی اِنتقال ہو گیا۔
اس پرمیں نے اپنے جذبات کے اظہار کے طور پر ”فیس بک‘‘ پر سرور بار ہ بنکوی کا یہ شعر لکھا :
جو باد ہ کش تھے پرانے اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی

:رضی اختر شوق نے کہا تھا:
ہم رُوحِ سفر ہیں، ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل کسی اور نام سے آ جائیں گے ہم لوگ

مگر میرا یہ ماننا ہے اور مری دِلی تمنّا ہے کہ میرا ماننا غلط ہو کہ ہمارے معاشرے میںاب قدآور انسان پیدا نہیں ہو رہے۔ اب بونوں کا زمانہ ہے۔ ابن الوقتی کا دور دورہ ہے۔ ادب سے دُوری پسندیدہ ہے۔ زبان اور شاعری کی نیرنگیاں اور رعنائیاں دُھندلا سی رہی ہیں۔ مگر میں خوش قسمت ہوں کہ میں نے جناب جمیل الدین عالی اور بیگم طیبہ عالی جیسے بلند قامت لوگ دیکھے۔ ان کی صحبت سے فیض حاصل کیا۔ محبتوں اور احترام کا درس لیا۔ اور جینا سیکھا۔

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).