وہ بنگلہ دیشی جو آج بھی قائد اعظم کی تصویر دیکھ کر رو دیتے ہیں


آج سے پچیس سال پہلے کے پاکستان کا آج کے پاکستان سے موازنہ کریں تو فرق حیران کن ہے۔ سڑکیں یورپ کے لیول کی میٹرو اورنج ٹرین۔ علاج کی اعلی سہولیات۔ وہ وقت میرا دیکھا بھالا ہے جب سول ہسپتال فیصل آباد ایک قصباتی ڈسپنسری کی مانند تھا۔ جب پزا کو قیمے والا بند کہہ کر شالیمار بیکری سے خریدا جاتا تھا۔ جب یونیورسٹی میں مجھے پتا چلا کہ لاہور میں میکڈونلڈ نام کا ایک ریستوران کھلا ہے جہاں تین سو روپے کا برگر ہے تو اسے کھانے سے زیادہ مجھے دیکھنے میں دلچسپی تھی کہ تین سو والا برگر دیکھنے میں کیسا ہوتا ہے کہ اس وقت فیصل آباد میں مہنگا ترین برگر شامی انڈے والا دس روہے کا برگر تھا۔ پھر ایشیا کا سب سے بڑا نہری نظام، تیسری بڑی زرعی معیشت نویں بڑی فوج، پہلی اسلامی ایٹمی طاقت اسلام کا قلعہ وغیرہ وغیرہ پھر ہم خوش کیوں نہیں اور ان حکمرانوں کے مشکور کیوں نہیں۔

یہ راز اس وقت کھلا جب میری ملاقات بنگلہ دیش ڈھاکہ میں تین تحریک پاکستان کے لیڈروں سے ہوئی جو منی ایکسچینج پر پاکستان کی کرنسی پر قائد کی تصویر دیکھ کر رو پڑے اور مجھے چائے کی دعوت دے دی۔ بعد میں پتا چلا کہ نہ صرف تحریک پاکستان بلکہ وہ مکتی باہنی کے بھی ہیرو اور بیر اتم (نشان حیدر جیسا سب سے بڑا بنگالی فوجی اعزاز جو زندہ کو بھی ملتا ہے) تھے میرے سوال پر کہ یہ ایک سو اسی ڈگری کی تبدیلی کیسے آئی کہ آپ پاکستان کے معمار بھی تھے اور اس کے توڑنے میں بھی شامل رہے اور اب آپ قائد کی تصویر دیکھ کرجذباتی بھی ہو رہے ہیں۔ تو انہوں نے مسکرا کر کہا کہ مسلم لیگ کے چالیس کے عشرے میں ریسورسز بہت کم تھے اور اس کا حل یہ نکالا کہ قائد نے سٹوڈنٹ فورس استعمال کی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی اسلامیہ یونیورسٹی علی گڑھ یونیورسٹی اور کئی اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کو حکم دیا کہ مسلم لیگ کا پیغام اپنے اپنے دیہات تک پہنچائیں۔ ان کے مطابق ہم نے بنگال کے دیہات میں لیگ کا پیغام پہنچایا۔

جب ان سے سوال کیا جاتا کہ اسلامی نظام سے آپ کی کیا مراد ہے تو وہ جواب دیتے ایسا نظام جہاں آپ کی ٰغربت آپ کے گندے کپڑے اور معاشرتی حیثیت سے قطع نظر آپ کو تھانے میں کرسی پیش کر کے آپ کی بات سنی جائے گی۔ جب سرکاری ملازم آپ سے احترام سے بات کرے گا لیکن ہوا اس کے برعکس آپ مغربی پاکستان والے کسی حد تک جاگیر داری نظام کے خوگر تھے جب مغربی پاکستان کی بیورو کریسی نے ہم سے اس کے بر عکس سلوک کیا تو نفرت پیدا ہوئی جسے انڈیا ہوا دینے میں کامیاب ہوا۔ فوجی حکمران اپنی کوتاہ اندیشی کی وجہ سے اس جوالا مکھی کا اندازہ نہ کر سکے۔ کاش قائد چند سال زندہ رہ۔ جاتے یہ کہہ کر وہ بزرگ رونے لگے۔

آج بھی عوام اسی وعدے کی ایفا مانگتے ہیں۔ جب تک عمران خان، نواز شریف، زرداری اور باقی لیڈر یہ نہیں سمجھیں گے تب تک وہ۔ عوام کے دل میں گھر نہیں کر سکیں گے۔ آپ لائن میں لگا کر راشن کے تھیلے دے کر تصویر کھنچوا کر عوام سے نعرے تو لگوا سکتے ہو لیکن مشکل حالات کے ساتھی نہیں بنا سکتے۔
میرا مینیجمنٹ کا بیس سالہ تجربہ بھی یہی کہتا ہے کہ اس قوم کو عزت دے کر آپ ان سے پہاڑ بھی کھدوا سکتے ہیں ورنہ دیہاڑی دار ہی ملتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).