ینگ ڈاکٹر اتنے فسادی کیوں ہوتے ہیں؟


آپ اکثر حیران ہوتے رہتے ہوں گے کہ ینگ ڈاکٹر اتنے زیادہ فسادی کیوں ہوتے ہیں؟ کبھی یہ ہسپتال کے باہر سڑک بند کر دیتے ہیں، کبھی یہ ہسپتال کا آؤٹ ڈور بند کر دیتے ہیں اور مریض بیماری سے پریشان ہوتے رہتے ہیں، کبھی یہ ایمرجنسی میں ہی کام بند کر دیتے ہیں۔ واقعی یہ سب غلط کام ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز کو خیال کرنا چاہیے کہ ان پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت کریں۔ ان کو یہ کام کسی لالچ، صلے یا تنخواہ کی توقع کے بغیر کرنا چاہیے اور حکومت سے روپیہ پیسہ لینے کی ضد چھوڑ دینی چاہیے۔

اب یہی رحیم یار خان کے شیخ زید ہسپتال کا واقعہ دیکھ لیں۔ انتظامیہ نے سب کو بتایا تو تھا کہ ایک خاکروب ای سی جی مشین چوری کر رہا تھا۔ ینگ ڈاکٹروں کو چاہیے تھا کہ اعلی ترین مقاصد کے حصول کی خاطر مان لیتے کہ معاملہ ای سی جی مشین کی چوری کا تھا۔ وہ بلاوجہ کام روک کر بیٹھ گئے۔ چلو اس پر بھی پرنسپل نے اگر ایک کمیٹی بنا دی تھی تو اس کی رپورٹ کا انتظار کر لیتے۔ ضروری تو نہیں ہے کہ وہ جسٹس حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کی طرح عزت بچانے کی خاطر نصف صدی کے لیے محفوظ مقام پر رکھ دی جاتی۔ ممکن ہے کہ سال دو سال تک رپورٹ مل جاتی۔

ویسے رپورٹ ملنے پر ینگ ڈاکٹر خوب شرمندہ ہوتے، کیونکہ اس میں بھی یہی ثابت ہو جانا تھا کہ وہ خاکروب ای سی جی مشین کو ریپ کرنا چاہتا تھا اور اپنے آفس میں موجود ایک ینگ لیڈی ڈاکٹر بلاوجہ ہی اس کے راستے میں آ گئی۔ آپ خود ہی انصاف کریں، لیڈی ڈاکٹروں کے لئے تحفظ مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کام روکنا بھی بھلا جائز ہے؟ زیادہ سے زیادہ ای سی جی مشین کے تحفظ کا مطالبہ کر دیتے اور اس پر غلاف چڑھا کر کام جاری رکھتے۔

تحفظ کی بات آئی ہے تو یاد آتا ہے کہ ینگ ڈاکٹر اس بات پر بھی گاہے بگاہے فساد کرتے رہتے ہیں کہ مریض کے لواحقین ان کے ساتھ مار پیٹ کیوں کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مار پیٹ تو ہوتی رہتی ہے۔ اس کی وجہ سے کون کام روکتا ہے۔ اب مریض کو اگر کوئی عین آخری لمحات میں اس وقت ہسپتال لے کر آئے جب وہ دوا کی ضرورت سے بے نیاز ہو چکا ہو اور اسے صرف حضرت عیسی دوبارہ زندگی لوٹانے کا معجزہ دکھا سکتے ہوں، تو اس کی موت کا ذمہ دار ڈاکٹروں کو ٹھہراتے ہوئے ان کو مارنے پیٹنے سے اگر ان غمزدہ لواحقین کو صبر آ سکتا ہو تو ڈاکٹروں کو یہ قربانی دے دینی چاہیے۔ آخر انہوں نے انسانیت کی خدمت کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔

ہڑتال کرنے کی یہ وجہ بھی معقول نہیں کہ ان کو حکومت کم تنخواہ دیتی ہے۔ مانا کہ ذہین ترین طالب علم ہی میڈیکل کالج میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ یہ بھی مانا کہ ان کو کم از کم پانچ سال میڈیکل کالج میں خوب محنت کرنی پڑتی ہے اور اس کے بعد ہسپتال میں ایک برس کی ہاؤس جاب لازم ہے اور یہ سب پورا کرتے کرتے ان کی عمر پچیس تیس سال ہو جاتی ہے۔ پھر ان کو سپیشلائزیشن کرتے کرتے پانچ دس برس مزید لگ جاتے ہیں۔ لیکن وہ اگر اپنے پیشے پر پوری توجہ دیں اور تیس چالیس سال کی کم عمر میں شادی کرنے کی ضد نہ کریں تو ان کے خرچے اتنے نہیں بڑھیں گے کہ ان کو بیوی بچے پالنے کے لئے پیسوں کی ضرورت پڑے۔

جہاں تک خود ان کے اپنے خرچے کی بات ہے تو جہاں ان کے والدین نے اتنے برس ان کا خرچ اٹھایا ہے چند برس اور اٹھا لیں گے۔ اب یہ کہاں کا انصاف ہے کہ شادی کرنے اور فیملی بنانے کا شوق انہیں ہے اور وہ خرچہ حکومت کو ڈال دیں کہ ہم سے مفت کام نہ کرواؤ بلکہ تنخواہ بھی دیا کرو۔ شادی کا کیا ہے۔ وہ تو کسی عمر میں بھی کی جا سکتی ہے۔ اکثر اخباروں میں خبر آتی رہتی ہے کہ ستر اسی سال کے بوڑھے نے شادی کر لی۔ ڈاکٹر بھی ایسا کر سکتے ہیں۔

مسلسل چھتیس چھتیس گھنٹے کی لمبی ڈیوٹی کو بنیاد بنا کر حکومت کو اور مریضوں کو تنگ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ تحقیق کی جا چکی ہے کہ اگر آدمی مسلسل جاگ رہا ہو اور اس کی نیند پوری نہ ہو تو وہ خوب سرور میں آ جاتا ہے۔

ریسرچ بتاتی ہے کہ 17 سے 19 گھنٹے مسلسل جاگیں تو اس کا اثر ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ایک گھنٹے میں دو جام بادہ خالص چڑھانے کا ہوتا ہے اور اگر نیند سے محرومی کا دورانیہ 20 سے 25 گھنٹے ہو تو یہ ایک گھنٹے میں چار پیگ چڑھانے جیسا ہوتا ہے۔

ولایتی ریسرچر کہتے ہیں کہ دو پیگ چڑھانے پر بندے کو ہر چیز اچھی لگنے لگتی ہے اور اسے ہر چیز مثبت انداز سے دکھائی دیتی ہے۔ آدمی اپنے جذبات میں بھی شدت محسوس کرتا ہے۔ اس سے یادداشت اور منطقی انداز میں سوچنے کی صلاحیت پر کچھ اثر پڑتا ہے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی کو بھلا دینا باعث خوشی ہوتا ہے اور منطقی انداز میں سوچنے والے ہم نے دلگیر ہی دیکھے ہیں۔

محض دو جام پی کر بندہ اتنا دلیر ہو جاتا ہے کہ اپنی راہ میں آنے والی بڑی سے بڑی رکاوٹ سے ٹکرا جاتا ہے۔ احتیاط وغیرہ کے چکر میں پڑ کر بزدلی نہیں دکھاتا۔ جو چیلنج ہو اسے قبول کرنے پر راضی ہو جاتا ہے۔ یہ بے بنیاد دعوی نہیں ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سولہ سے بیس فیصد حادثات کی وجہ نیند کے شراب جیسے خمار سے پیدا شدہ سرور انگیز ہوتی ہے۔ نیند کا تو پتہ نہیں چلتا مگر کسی کی سانسیں بہکی بہکی سی ہوں تو ولایتی پولیس یہ سمجھتی ہے کہ اتنے خوش باش ڈرائیور کو سرکاری مہمان خانے میں اپنی یہ خوشی انجوائے کرنی چاہیے بجائے اس کے کہ وہ سڑکوں پر بیران پھرتا رہے۔ (* بیران: مارا مارا، اداس ، پریشان ، پراگندہ۔ ویران)۔

گھنٹے میں چار پیگ چڑھانے والا اتنی تیزی سے سوچ رہا ہوتا ہے کہ اس کی زبان اس کا ساتھ دینے سے انکاری ہو جاتی ہے اور بہکنے لگتی ہے۔ وہ یاد ماضی سے چھٹکارا پا کر ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے اور اسی باعث چلتے ہوئے لڑکھڑاتا ہے۔ وہ غیر ضروری چیزوں کو دیکھنے سے انکاری ہو جاتا ہے اور بلاوجہ کسی عمل پر جلد ردعمل دینے سے احتراز کرتا ہے۔ یعنی اگر اس کی گاڑی کسی دیوار کی طرف تیزی سے جا رہی ہے تو وہ یا تو دیوار کو دیکھے گا نہیں، اور اگر دیکھے گا تو بلاوجہ کی پھرتی دکھانے کی بجائے عین آخری لمحے تک پرامید رہے گا کہ دیوار خود ہی راستہ چھوڑ کر ایک طرف ہو جائے گی۔ عین آخری لمحات میں وہ دیوار سے مایوس ہو کر اپنی گاڑی کا رخ موڑنے کی کوشش کرے گا۔ وہ بلاوجہ قنوطی سوچوں کو بھی دماغ پر حاوی نہیں کرتا اور جو اچھا محسوس ہو وہی کرتا ہے۔

یہ سب اچھی باتیں بیس پچیس گھنٹے نیند سے محرومی پر ہونے لگتی ہیں۔ ینگ ڈاکٹروں کو حکومت کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ وہ ان کو اتنا اچھا فیل کرانا چاہتی ہے کہ ان کو مسلسل چھتیس چھتیس گھنٹے جگا کر رکھتی ہے کہ ڈیوٹی کرو۔ ڈاکٹر خود سوچیں کہ وہ کتنے سرور میں اپنی جاب کرتے ہیں جیسے انہوں نے فی گھنٹہ چھے جام چڑھا رکھے ہوں۔ باقی جابز میں یہ عیاشی کہاں؟ ادھر تو کوئی ایک جام بھی چڑھا لے تو اسے مشینری آپریٹ کرنے سے روک دیتے ہیں، یہاں تو چھے جام جیسے نشے کی حالت میں جیتا جاگتا بندہ آپریٹ کرنے کی عیاشی کروائی جاتی ہے۔ پھر بھی ینگ ڈاکٹر فساد کرتے ہیں اور کام روک دیتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar