ہمارے مڈل کلاسیے خواب


پتہ نہیں بڑا انسان صدی کے کون سے عشرے میں بننا ہے لیکن ہم نے ان لوگوں کو غور سے آبزرو کرنا ضرور شروع کر دیا ہے۔ بڑے لوگوں کی باتیں بہت بڑی ہوتی ہیں۔ وہ چھوٹے لوگوں کی طرح کوئی ماٹھا کام نہیں کرتے۔ نہ کسی کی بات سنتے ہیں نہ کسی کی نصیحت کو کسی خاطر میں لاتے ہیں۔ ان کا ایک اور سنہری وتیرہ وعدے کا پاس نہ کرنا ہے۔ یہ اسے عہد ہی نہیں سمجھتے جو وفا ہو جائے۔ اس لئے ان کی ہر بات کا یکسر الٹا مطلب لینا آپ کا کام ہے۔ وہ تو بڑے لوگ ہیں۔ بات کر کے چلتے بنیں گے۔ آپ یونہی جوتیاں چٹخاتے رہ جائیں گے۔

ہمیں کہیں کہیں یہ خوش فہمی کھائے جاتی ہے کہ کل کہاں کو ہم برصغیر پاک و ہند کے ماتھے پر ایک بڑے تجزیہ نگار کے طور پر جھومر بن کر ابھریں گے۔ ہمارے استقبال میں سڑکیں جام ہوں گی۔ ہر طرف ہم سے آٹو گراف لینے والوں کا جمگھٹا لگا ہو گا۔ اسی لئے ہم نے ابھی سے آٹو گراف دینے کی مشق بھی شروع کر دی ہے۔ اور تو اور آج ہی وعدہ خلافی کا پہلا سبق بھی شروع کر دیا۔ ٹوئٹر پر جھٹ اعلان کر دیا کہ ہمارا ہر دلعزیز کالم آج آپ سب کے لیپ ٹاپوں کی زینت بنے گا۔ جیسے ہی دو، چار لوگوں نے ہماری واہ واہ کی ہم نے اپنا ارادہ موخر کر دیا اور خود کو بہت معتبر جانا۔ گردن میں ذرا لائٹ ویٹ سریا بھی فٹ کرا لیا۔

لیکن وہ کیا ہے کہ یہ دنیا فانی بھی ہے اور پیتل کی بھی۔ لہذا ہماری یہ دنیاوی خوشی بھی کہاں لمبی ٹکتی۔ جھٹ اوقات میں واپس لینڈ کیا۔ جیسے ہی یاد آیا کہ ہم ابھی غالب نہیں زیر ہیں اور ہنوز اسٹارڈم دور است، جھٹ با وضو ہو کر سیدھے ہو لئے اور آپ سب کی خدمت میں بلاگ لکھنے کی خاطر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ نوکر کیہ تے نخرہ کیہ۔

خدا کی قسم صبح چھے بجے سے رات کے اولین پہر تک جس گھن چکر میں پستے ہیں اس کے بعد لکھنا پڑھنا بہت مشکل لگتا ہے۔ ہمیں کبھی کبھی اپنی سہیلی مریم کے وہ میسجز بہت یاد آتے ہیں جن میں وہ اپنی نوکری اور مشینی زندگی کا رونا روتی تھی اور ہم اس کو ہشت کہہ کر چپ کرا دیتے تھے۔ اس کو مکان کا کرایہ اور بجلی کا بل یاد کراتے تھے۔ ماں کے گھر کی عسرت یاد دلاتے تھے۔ اور پھر یہ سوال پوچھتے تھے کہ کم بخت کیا تمہارے پاس یہ چوائس ہے؟ مڈل کلاس کا پیشن سے کیا تعلق واسطہ۔ ہم تو اپنا چولہا چکی گھسیٹ لیں تو یہی غنیمت ہے۔ خوابوں اور جیالوں سے ہمارا کیا مطلب؟ مریم کم سے کم ایک ہفتہ تو یہ ذکر نہیں کرتی تھی اور پھر اسی کولہو کے بیل کی طرح کام میں جت جاتی تھی۔

ہمارے ایک بہت مخلص دوست نے کچھ دن پہلے ہمیں مشورہ دیا کہ نوکری وغیرہ چھوڑو اور بس لکھنے پر دھیان دو۔ انہوں نے ہمیں بارہا یہ بات باور کرانے کی کوشش کی کہ بھوک کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ روزی روٹی کے چکروں میں پڑنے والا انسان بس چکی کا پاٹ بن کر رہ جاتا ہے۔ عظمت کو چھونے کے لئے ضروری ہے کہ بس اپنا جنوں اپنایا جائے۔ کوئی بھی کام مجبوری کے تحت نہ کیا جائے۔ انہوں نے ہماری موٹی عقل میں یہ بات ڈالنے کی بھرپور کوشش کی کہ انسانی ترقی صرف عشق اور پیشن میں مضمر ہے۔ انسان مر جاتا ہے لیکن اس کا کام زندہ رہتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

ان کی اسی بات سے ہمیں پٹودی کے نواب سیف علی خان صاحب کا ایک انٹرویو یاد آیا جس میں انہوں نے کہا کہ ان کا اولین شوق یہی ہے کہ وہ اپنے پاجامے میں بیٹھ کر سارا دن سورج کو طلوع سے غروب تک دیکھیں۔ اپنے وہ دوست بھی یاد آئے جو ہمیں سمجھاتے تھے کہ لندن کی سیر انسانی ذہن کے ارتقاء کے لئے کس قدر اہم ہے۔

ہمیں ان کی یہ باتیں یوں تو بہت انسپریشنل لگتی ہیں لیکن ہم اپنی اوقات ان کے جذبے سے زیادہ پہچانتے ہیں۔ مڈل کلاس اور وہ بھی ترقی پذیر ملک کی۔ کریلا اوپر سے نیم چڑھا۔ جوانی نوکری کی نذر ہو جاتی ہے اور بڑھاپا دوائیوں کی لاگت بچا کر رکھنے کی خاطر راکھ ہو جاتا ہے۔ ہمارے تو جسم بعد میں مرتے ہی خواب بہت پہلے دفنا دیے جاتے ہیں۔ ہماری زندگی گھر کے کرائے اور بجلی کے بل کی لائن سے آگے بڑھ پائے تو شاید ہم بھی زندگی میں کچھ آگے سرک پائیں۔

ایک مشہور بھارتی کامیڈین ابھیشک اپمانیو نے ایک دفعہ یہی بات کی تھی
’امیروں کو لگتا ہے کہ غریبوں کو پیسے خرچ کرنے نہیں آتے۔ ہوتے تو سب کے پاس ہیں۔ ‘

تو صاحب یہ بھاشن بھی کچھ یہی مدعا ہے۔ کچھ باتیں سننے میں دل کو بہت لبھاتی ہیں لیکن اگر گریبان میں بیٹھی اوقات سے نظریں ملائی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مڈل کلاس کے لئے یہ سب کہانیاں ہیں۔ امیروں کی باتیں وہی جانیں۔ ہم تو مہینے کی دس تاریخ سے پہلی مالک مکان سے نظریں ملا پائیں تو یہی بہت ہے۔ یہ انسانی عظمت، ترقی وغیرہ وغیرہ ہم جیسوں کی لغت کا حصہ نہیں۔

ہم مڈل کلاس ہیں۔ ہمارا عظمت اور ارتقاء سے کیا لینا دینا؟ ہاں یہ الف لیلوی داستان سننے میں بھلی لگتی ہے۔ ہمیں چاہئیے کہ بڑے لوگوں اور خوابوں سے پرہیز کریں۔ وعدے پر سوچنا چھوڑ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).