ملائشیا میں پاکستان کا چہرہ دیکھا


خط استوا پر واقع ملائشیا ایک مسلم اکثریتی آبادی کا ملک ہے۔ رقبے میں بلوچستان اور نفوس میں پختونخواہ سے بھی کم ہے لیکن جی ڈی پی پورے پاکستان سے بھی زیادہ ہے۔ مسلمان آبادی کی اسی فیصد عورتیں حجاب کرتی ہیں اور نوے فیصد نوکری، کاروبار یا کھیتی باڑی کرتی ہیں۔ سیاحت ملائشیا کی معشیت کا تیسرا بڑا ستون ہے۔ اس حوالے سے دنیا میں اسکا نواں نمبر ہے۔ یہ ملک اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اسلام جدید ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوتا۔ نو سو کے قریب جزیروں میں بٹا ملائشیا اتنا متحد ہے کہ اگر آپ حساس پاکستانی ہیں تو ضرور لجا جائیں گے۔

ایسا کیا ہے؟ خط استوا پرسارا سال ایک جیسا موسم رہتا ہے۔ دھوپ نکل آئے تو سورج سے ضد نہیں کی جا سکتی۔ روز بارش ہوتی ہے۔ ہر لمحے سونامی کا خدشہ منڈلاتا رہتا ہے۔ پھر کیوں پچھلے سال اڑھائی کروڑ لوگ ملائشیا کی سیر کرنے گئے اور تخمینہ ہے کہ سیاحوں کی تعداد اس سال ملائشیا کی آبادی سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ راقم نے پچھلے ہفتے ملائشیا کی سیر کی۔ غور سے پاکستان کی شکل دیکھی۔ تھوڑی سی آپ کو بھی دکھاتے ہیں۔ کوئی بات ناگوار گزرے تو نظر انداز کر دیجئے گا کیونکہ بہرصورت شکل تو اپنی ہی ہے۔

لوگ مسلمان اور حکومت پرسان ہے۔ سب کے دل تحمل سے اتنے منور ہیں کہ مسجد کے سامنے بھی کئی جگہ پر مندر بنے ہوئے ہیں لیکن کبھی کسی پولیس والے کو ٹوٹی بندوق اور پھٹی وردی کے ساتھ ریاست کی لاچاری منہ پرسجائے تپتی دوپہروں میں بے یار و مددگار پہرہ نہیں دینا پڑتا۔ یہاں مسجد کی تزین و آرائش کے لئے کسی افلاس زدہ قصیدہ خواں کو منبر رسول پر چڑھ کے بھیک نہیں مانگنی پڑتی۔ یہاں تو مندر کا رنگ روغن بھی حکومت کے ذمہ ہے۔ مندروں میں روز گھنٹیاں بجتی ہیں، بھجن گائے جاتے ہیں اور پرشاد بانٹا جاتا ہے۔ مسجدوں میں اذان دی جاتی ہے اپنے اپنے طریقے سے نماز ادا کی جاتی ہے۔ یہاں بدھ ، ہندو، عیسائی ، مسلمان اور اسلام بلکل محفوظ نظر آئے۔ لوگوں کی نیک نیتی پر رشک آیا۔ یہ جان کر تعجب ہوا کہ مسجد میں جوتے چھپانے نہیں پڑتے۔ ہر واٹر کولر کے ساتھ ایک آزاد گلاس پوری ملائشین قوم کی اخلاقی برتری کی دلالت کرتا نظر آیا۔

ریستوران ہوں یا ہوزری کی دکانیں، ٹریول کمپنی ہو یا رینٹ اے کار، ہر جگہ عورتیں مردوں کے برابر کھڑی ملیں۔ ہم ایک ریستوران پر کھانا کھانے پہنچے جہاں پچاس بندوں کے لئے کرسیاں اور میز لگے ہوئے تھے، بیس کے قریب ڈشوں کا بوفے سجا ہوا تھا۔ ہائی وے پر واقع اس ریستوران کو چھ عورتیں مل کر چلا رہی تھیں۔ سب کی سب حجاب میں تھیں۔ استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس کوئی مرد ملازم نہیں۔ گھر کے مرد دوسرے شہر میں ٹرانسپورٹ کا کام کرتے تھے۔ اور ان کے معاشرے میں عورتوں کا کام کرنا ایک معمول ہے۔ اور اگر کوئی “الکاسب حبیب اللہ” سے روگردانی کرے تو عجیب سمجھا جاتا۔ تین دن ملائشیا کی سڑکوں پر پھرتے ہوئے، ہر عمر کی سینکڑوں عورتیں موٹر سائیکل چلاتی نظر آئیں لیکن باوجود کوشش اور جستجو کے ایک بھی مرد موٹر سائیکل سوار کے پیچھے کوئی عورت بیٹھی نطر نہیں آئی ۔ پتہ چلا کہ ملائشیا میں موٹر سائیکل بالکل مختصر سفر کے لئے استعمال ہوتی ہے اور ہر شہری کو ڈرائیونگ آتی ہے، لہذا جس کو کوئی کام ہو صرف وہی جاتا ہے باقی لوگ اپنا کام کرتے ہیں۔

ریاکاری اور دکھاوا ڈھونڈنے کے لئے دوربین بھی لگائی لیکن یہ ہمارے معیار پر پورے نہیں اترے۔ عمارتوں اور سڑکوں پر فیشن کے اشتہارات کے سائن بورڈ کہیں بھی نہ دیکھنے کو ملے۔ تسلی نہ ہوئی تو پاکستانی متجسس طبیعیت نے انٹرنیٹ بھی کھنگال مارا۔ آپ بھی کوشش کر لیں۔ کچھ ملے تو ضرور بتایئے گا۔ اس کے برعکس آپ لاہور اور کراچی کے کسی بھی چوراہے پر کھڑے ہو جائیں آپکو لگے گا اس ملک میں لان اور کھاڈی کی فارمولا ون ریس چل رہی ہے۔ پچھلے سال ملائشیا کی سالانہ فی کس آمدنی بارہ ہزار امریکی ڈالر اور پاکستان کی صرف بارہ سو امریکی ڈالر تھی۔ فی کس آمدنی کی گنتی میں ہم ان سے گیارہ ہزار ڈالر پیچھے ہیں لیکن فیشن میں ان سے گیارہ ہزار گنا آگے ہیں۔ رات کے ایک بجے بھی اندھیری راہوں پر خواتین بلا خوف و خطر اپنی منزل کی جانب گامزن نظر آئیں۔ بیوٹی سیلون بھی تھے اور چیدہ چیدہ میک اپ والی خواتین بھی تھیں، لیکن “انھی” نہیں پڑی ہوئی تھی۔ تصنع و آرائش سے مبرا ملائشیا کی پر اعتماد اور آزاد عورتیں دیکھ کر ہمیں پاکستان کی فیشن زدہ سہمی ہوئی عورتوں سے ہمدردی ہونے لگی۔

مرد و زن میں بناؤ سنگھار کےمتجاوز رجحانات  معاشرے کے کھوکھلے پن کا ثبوت ہوتے ہیں۔ جب معاشرہ آپ کے کردار اور عمل کی قدر نہیں کرتا تو آپ کو منفرد کپڑوں اور نایاب جوتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ مارا یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ملائشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار چینی، تامل، ملے اور دیگر قومیتوں کے طلبا زیر تعلیم ہیں۔ سب نے بستے لٹکائے ہوتے ہیں جیسا ہمارے سکولوں والے بچے پہنتے ہیں۔ نا کوئی لان، نا کوئی ہینڈ بیگ اور نا کوئی برانڈ ۔ سب ایک جیسے دکھتے ہیں، اپنی پڑھائی میں مگن۔ شائد اسی طرح کل کے بچے آج کی قوم بن گئے ہیں۔

کہیں پولیس یا فوج نظر نہیں آئی۔ لیکن ہر جگہ لوگ ٹریفک اشارے کے کھلنے کا انتظار کرتے تھے۔ کسی نے شناختی کارڈ نہیں مانگا نہ تلاشی کے لئے روکا۔ نہ کوئی کسی کا راستہ کاٹتا دکھائی دیا نہ کسی نے ہارن بجایا۔ کہیں بھی لوگوں کے ماتھے پر بل نہ تھا۔ راقم کو ایک ٹیکسی میں پونا گھنٹا سفر کرنا پڑا۔ ڈرائیور سے چند سوالات کے حیران کن جوابات ملے۔ پہلا سوال، مہاتیر محمد ٹھیک جا رہے ہیں آپ کے خیال میں؟ ڈرائیور نے جواب دیا “مجھے سیاست کا اتنا علم نہیں ہے لیکن ایک وزیراعظم کو پانچ سال کا وقت دینا چاہئے ۔ ابھی وہ آیا ہے، پہلے تو اچھا تھا لیکن اب کیا کرتا ہے یہ جاننے کے لئے انتظار کرنا پڑے گا۔” دوسرا سوال، آپ لوگوں نے سابق وزیراعظم نجیب رزاق کو کیوں برداشت کیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس نے اربوں کی کرپشن کی ہوئی ہے؟ موصوف نے جواب دیا”  ایک تو اس پر کرپشن ابھی تک ثابت نہیں ہوئی، وزیر اعظم تھا تو ہم نے اسے پانچ سال کا وقت دیا۔ دوسرا ہم نے شک کے پیش نظر اسے حالیہ الیکشن میں مسترد تو کر دیا ہے۔ کچھ ثابت ہو گا تو سزا بھی مل جائے گی۔” تیسرا سوال ، آپ کے آرمی چیف کا کیا نام ہے؟ جواب” نام تو نہیں معلوم ، لیکن زیادہ امکان ہے کوئی فوجی ہی ہو گا۔”  کیا آپ کو اسی طرح کا پاکستان چا ہیے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).