ماہرِ نفسیات کی ڈائری: ہمیں زندگی میں کیا نہیں کرنا چاہیے


ہمیں زندگی میں کیا نہیں کرنا چاہیے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ یہ جاننا کہ ہمیں زندگی میں کیا کرنا چاہیے۔  میری نگاہ میں علم ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں زندگی میں کیا کرنا چاہیے اور دانائی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمیں زندگی میں کیا نہیں کرنا چاہیے۔  میں نے زندگی کا یہ راز ایک واقعہ سے سیکھا جو میں آپ سے شیر کرنا چاہتا ہوں۔

ایک مرد نے ایک ماہرِ نفسیات کو خط لکھا تا کہ ان سے مشورہ کر سکے۔  اس شخص نے ماہرِ نفسیات کو اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ اسے ایک عورت پسند آ گئی تھی۔  ان دونوں کی دوستی ہو گئی۔  پھر وہ ڈیٹنگ کرنے لگے۔ دونوں مختلف شہروں میں رہتے تھے۔  وہ شخص اپنی محبوبہ سے ملنے اس کے شہر جاتا تھا اور اس کے ساتھ ویک اینڈ گزارتا تھا۔  اس مرد کی محبوبہ نرس تھیں اور کبھی کبھار وہ ویک اینڈ پر ہسپتال میں کام کرتی تھیں۔  اس شخص کو وہ محبوبہ اتنی پسند آئی کہ وہ شادی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگا۔

ایک دفعہ وہ شخص اپنی محبوبہ سے ملنے گیا تو وہ کام کرنے ہسپتال چلی گئیں۔  وہ شخص گھر میں اکیلا تھا۔  وہ یونہی جب بیسمنٹ میں گیا تو اسے ایک خوبصورت بریف کیس نظر آیا۔  اس شخص کو تجسس ہوا کہ اس بریف کیس میں کیا ہے۔  اگرچہ وہ جانتا تھا کہ اسے اپنی محبوبہ کی اجازت کے بغیر اس کا بریف کیس نہیں کھولنا چاہیے لیکن اس نے اپنے تجسس کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور بریف کیس کھولا۔  اس بریف کیس میں بہت سے میڈیکل کے کاغذات تھے۔  جب اس شخص نے وہ کاغذات پڑھے تو اسے پتہ چلا کہ اس کی محبوبہ اس سے ملنے سے چند سال پیشتر ایک مرد تھی اور وہ ایک آپریشن کے ذریعے عورت بنی تھی۔  اس شخص نے ماہرِ نفسیات کو بتایا کہ اب جبکہ وہ جان چکا ہے کہ اس کی محبوبہ ایک مرد تھی اب نہ تو وہ اس سے ساتھ سو سکتا ہےاور نہ ہی اس سے شادی کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔  اس نے ماہرِ نفسیات سےپوچھا۔۔۔ اب میں کیا کروں؟ ماہرِ نفسیات نے طنز سے صرف ایک جملے میں جواب دیا۔۔ ’کسی کی اجازت کے بغیر اس کا بریف کیس کھولنے کا یہ ہی نتیجہ ہے‘۔

میں اپنے کلینک میں بہت سے جوڑوں سے مل چکا ہوں جن کی شادیاں اس لیے بحران کا شکار ہو گئیں کیونکہ

بیوی شوہر کے خط پڑھتی تھیں

شوہر بیوی کے ای میل پڑھتا تھا

بیوی شوہر کے سیل فون پر مسیجز چیک کرتی تھی

اب کینیڈا میں اس ناپسندیدہ رویے کو creeping کہتے ہیں۔

میں اپنے مریضوں کو بتاتا ہوں کہ ہر رشتے کی ایک حد ہوتی ہے اور دونوں لوگوں کو اس حد کا احترام کرنا چاہیے۔  اگر ایک فریق کسی بات سے پریشان ہوتا ہو تو دوسرے کو اس عمل سےکنارہ کش ہو جانا چاہیے اگر ایسا نہ ہو تو رشتے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

یہ اصول صرف رومانوی رشتوں کے لیے نہیں ہے۔  یہ اصول ماں بیٹے۔۔۔ باپ بیٹی۔۔۔ بہن بھائی۔۔۔ دو بھائیوں۔۔۔ دو بہنوں۔۔۔ دو دوستوں اور دو سہیلیوں کے لیے بھی اہم ہے۔

دوسروں کی حد کا احترام کرنا انسانی رشتوں کی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔  اگر ایسا نہ ہو تو فریقین اور رشتے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ہر رشتے میں ایک حد ہوتی ہے جس کا احترام نہ کیا جائے تو رشتہ ٹوٹ بھی سکتا ہے۔  میں اسے DEAL BREAKER  کہتا ہوں۔  میں تھیریپی میں جوڑوں سے پوچھتا ہوں کہ ان کا ڈیل بریکر کیا ہےَ

ایک بیوی نے کہا ’اگر میرے شوہر نے ایک دفعہ بھی مجھ پر ہاتھ اٹھایا تو وہ ڈیل بریکر ہوگا‘

ایک شوہر نے کہا ’اگر میری بیوی نے مجھے اپنے دوستوں سے ملنے سے روکا تو میں اسے چھوڑ دوں گا‘

ایک بیوی نے کہا میں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا کیونکہ وہ میری چھوٹی بہن سے حد سے زیادہ بے تکلف ہو رہا تھا۔

ایک شوہر نے کہا کہ میں نے بیوی کو چھوڑ دیا کیونکہ میری بیوی میرے والد کی عزت نہیں کرتی تھی۔

تھیریپی میں ہم ڈیل بریکرز پر تبادلہِ خیال کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ جوڑے اپنے مسائل کا تسلی بخش حل تلاش کریں تا کہ شادی بچ سکے۔  ہم ان کی مدد کرتے ہیں کہ پہلے وہ اپنی حد طے کریں اور پھر اس حد کا احترام کریں۔

ہر رشتے میں چند مسائل اور چند تضادات ہوتے ہیں۔  ہماری کوشش ہوتی ہے کہ مسئلے کا حل تلاش کیا جائے اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے اور بہت دیر ہو جائے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail