’پرانے پاکستان‘ کی ’متروک‘ یادداشتیں


1991 ء میں جب پہلی بار اوچ شریف کو ٹیلی فون کی سہولت نصیب ہوئی تو پہلے مرحلے میں ہمارا گھر بھی ان دو سو خوش قسمت گھروں میں شامل تھا جس کو ٹیلی فون کا کنکشن ملا، ہمارا ٹیلی فون نمبر 192 تھا، ڈائریکٹ ڈائلنگ کا نظام تھا نہیں سو پہلے ٹیلی فون آپریٹر سے بات کر کے اپنا مطلوبہ نمبر ملانے کی درخواست کرنا پڑتی تھی۔ دوسرے شہر بات کرنے کے لئے ایڈوانس بکنگ کرانا پڑتی تھی، کیا عجیب رومانس تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجتے ہی ہم سب بہن بھائیوں کی یہ کوشش ہوتی کہ ریسور اٹھانے کا اعزاز اسے ہی حاصل ہو۔ پورے محلے میں ہمارے گھر ہی فون تھا تو آئے روز اہل محلہ بھی اس سہولت کو ’’پبلک کال آفس‘‘ کی طرح استعمال کرتے۔ ان کی اپنے پیاروں سے بات ہو جاتی اور ہمیں دلی خوشی۔ اس زمانے میں معاوضے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔

اس دور میں ہمارا گھر کچا تھا، کچے آنگن میں کنواری مٹی کی روح پرور باس میں بسا ایک چھوٹا سا گھر، جہاں امی بھور سمے بیدار ہوتیں، سردی گرمی کی پرواہ کئے بنا وہ نماز کی ادائی اور قرآن پاک کی تلاوت کے بعد صحن میں جھاڑو لگاتیں، ناشتہ تیار کرتیں اور ہمیں سکول کی تیاری کراتیں، سکول جانے سے پہلے ہم ابو کے کمرے میں جاتے، ان سے دو روپے بھاڑا لیتے اور سکول چلے جاتے، اس دور میں سکول سے چھٹی کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا تھا، بڑی بہن سے ہیڈماسٹر صاحب کے نام چھٹی کی عرضی لکھ کر ابو سے تحریری تصدیق اور دستخط کے ساتھ ان کی مہر لگوانی پڑتی تھی جو کہ ناممکن بات تھی۔ ناشتے میں ہمیں چائے کا ایک پیالہ اور ایک روٹی ملتی تھی جو ہم چائے میں بھگو کر مزے مزے سے تناول کرتے تھے، لیکن ابو کے لئے ناشتہ چائے کے دو پیالے اور ڈالڈا گھی میں چپڑے ایک پراٹھے پر مشتمل ہوتا تھا، چائے جرس کی روایتی کیتلی میں ہوتی۔ امی ہم بہن بھائیوں میں سے کسی کو چائے سے بھری کیتلی اور پراٹھے والی چنگیر دیتی جو ہم ابو کے کمرے میں چارپائی کے ساتھ رکھی میز پر رکھ کر امید اور آس کے ساتھ دروازے سے لگ کر کھڑے ہو جاتے کہ ابو سے واپس آنے والے برتنوں میں موجود پراٹھے کے چند ٹکڑے ہماری متاع ہوتے تھے، جس خوش قسمت کی ان ٹکڑوں تک رسائی ہو جاتی باقی بہن بھائی اسے رشک سے دیکھتے۔ میں چونکہ گھر میں سب چھوٹا تھا لہذا ابو سے بچے ہوئے پراٹھے کے چند ٹکڑے حاصل کرنے والا خوش قسمت عموماً میں ہی ہوتا تھا۔ کچے صحن میں نیچے بیٹھ کر ٹانگیں پھیلا کر ان پر چھابی دھر لینا اور ابو کے استعمال کی کیتلی اور پیالے سے چائے پینا واقعی ایک اعزاز ہی کی بات تو تھی۔

پوری شمس کالونی میں ہمارا واحد گھر تھا جہاں سب سے پہلے ٹیلی ویژن آیا، 1988ء کے اوائل میں ابو لکڑی کے ڈبے کا چار فٹ طویل بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی لے کر آئے تھے، گرمیوں میں اسے کمرے سے نکال کر صحن میں رکھنا ایک عذاب عظیم سمجھا جاتا تھا، سو ہر شام دو افراد کی باریاں مقرر ہوتی تھیں، ایک ہی چینل پی ٹی وی ہوتا تھا، تین بجے سہہ پہر کو نشریات کا آغاز ہوتا ، اس دوران سرشام ہی صحن میں چھڑکاؤ کر کے چارپائیوں کے آگے چٹائیاں بچھا دی جاتی تھیں، شام چار سے پانچ بجے بچوں کے پروگرام، آٹھ بجے ڈرامہ ، نو بجے خبرنامہ اور شب گیارہ بجے نشریات اختتام پذیر ہو جاتیں، ’’وارث‘‘، ’’تنہائیاں‘‘، ’’جانگلوس‘‘، ’’عروسہ‘‘، ’’اندھیرا اجالا‘‘، ’’دھواں‘‘، ’’آہٹ‘‘، ’’عینک والا جن‘‘ اور’’گیسٹ ہاؤس‘‘ جیسے ڈراموں کو دیکھنے کے لئے محلے کی عورتیں اور بچے ہمارے گھر براجمان ہوتے۔ اس دور میں پاکستانی ٹیلی ویژن ڈرامہ نے اپنے ناظرین کو سحر میں لے رکھا تھا۔ تب ہماری فیچر فلمیں بھی تہذیبی زندگی اور بڑی حد تک عمومی شائستگی کا مظہر ہوا کرتی تھیں۔

پی ٹی وی کا ڈرامہ تفریح طبع کے ساتھ ساتھ معاشرتی تربیت کے حوالے سے ایک بہترین اتالیق، مبلغ اورمصلح کا انداز اپنائے ہوئے تھا۔ پی ٹی وی پر ہر جمعرات کو طارق عزیز کا نیلام گھر پروگرام نشر ہوتا تھا اور پھر رات گئے ایک اردو فلم بھی ضرور لگتی تھی، جمعتہ المبارک کو ہفتہ وار سرکاری تعطیل ہوتی تھی۔ 17اگست 1988ء کو طیارے میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی ناگہانی وفات تو ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے، پی ٹی وی کی خصوصی نشریات کے ذریعے پاکستان کے آنجہانی مرد آہن کی باقیات کی تلاش کے مناظر دیکھ کر ہمارے گھر کے بڑے کمرے کے ننگے فرش پر بیٹھی درجنوں محلہ دار خواتین، بڑی بوڑھیاں اور میری امی کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ یہ وہ زمانہ اور دن تھے جب ابھی معاشرتی اقدار کی اس قدر ٹوٹ پھوٹ نہ ہوئی تھی۔ گھروں کے ماحول میں یکجائی تھی اور سب اہل خانہ باہم مل کر ٹیلی ویژن کی نشریات سے فیض یاب ہوا کرتے تھے۔

پی ٹی وی کی نشریات کو ’مکھیوں‘ سے صاف رکھنے کے لئے کمرے کی کھڑکی سے بندھے انٹینے کا ڈنڈا پھیرنے میں بھی عجیب چارم نظر آتا تھا۔ نشریات صاف نظر آنے کی تگ و دو میں انٹینے کی مخصوص تار پر ٹوینٹی سگریٹ کی ڈبی سے نکلنے والی کناری اوڑھ کر اسے گھمایا جاتا، 14اگست کو یوم آزادی کی خوشی میں اسی انٹینے کے بانس پر انٹینا تھوڑا نیچے ایڈجسٹ کرکے اوپر سبز ہلالی پرچم لگا دیا جاتا تو فخر سے اپنے دوستوں کو گھر بلا کر وہ انٹینا دکھاتے رہتے۔

ہمارے گھر میں مہینے میں ایک بار وی سی آر ضرور منگوایا جاتا تھا، جب امی کی سفارشات پر ابو کے ’اوول آفس‘ سے باضابطہ طور پر رینٹ پر وی سی آر منگوانے کی منظوری ملتی تو گویا عید کا سا سماں ہوتا۔ سب سے پہلے تمام گھر والوں کی پسند کے مطابق اتفاق رائے سے فلموں کی فہرست بنائی جاتی، بہنیں سر جوڑ کر بیٹھتیں، کاٹ چھانٹ کر کے صرف پانچ فلموں کو منتخب کیا جاتا، اس جاں گسل مرحلے کے بعد فلم کے ان شائقین سے دس روپے فی کس کے حساب سے چندہ اکٹھا کیا جاتا، باقی ماندہ رقم ابو سے لے کر پوری کی جاتی، اس دن شام کو گھر میں بریانی کا اہتمام کیا جاتا، ساری رات جاگنے کے خیال سے بچے بڑے دوپہر کو ہی نیند کا کوٹہ مکمل کر لیتے تاکہ رات کو فلم بینی کے دوران نیند کے جھٹکوں سے مناظر رہ نہ جائیں، وی سی آر لانے کی ذمہ داری عموماً میری اور بڑے بھائی شمیم کی ہوتی، جوش و جذبے کے ساتھ ہاتھی گیٹ بازار کے قریب واقع منو بھائی کے ویڈیو سنٹر پر جاتے۔ رنگین ٹی وی، وی سی آر اور پانچ فلموں کا کل کرایہ اڑھائی سو روپے ہوتا تھا، ’ڈونرز‘ کی پسند کے مطابق فلمیں لیتے اور کرایہ کے سائیکل رکشہ پر لاد کر گھر لے آتے جہاں تزک و احتشام کے ساتھ ہمارا خیرمقدم ہوتا۔ وی سی آر لاتے ہوئے مومنوں کی ’کم نگاہی‘ اور اپنی ’بے عزتی‘ کے ڈر سے ہم اپنے چہروں پر کپڑے یا صافے کا بکل مار لیتے تھے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2