اپنے بچو ں کی عزت کیجئے


بچے وہ ان دیکھے بیج ہیں جن کا پھل ہم سب بہت عمدہ کھانا چاہتے ہیں۔ نہ صرف توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارا نام روشن کریں گے، ہماری خدمت کریں گے، ہمارے تابعددار ہوں گے بلکہ ہم یہ دعوی کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم خود کو اپنے والدین سے اچھا والدین سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر ایسا ہو تا نہیں۔

کیو ں نہیں ہوتا ؟

کیو نکہ والدین بنتے ہی ہم میں ایک خاص فرعونیت در آتی ہے۔ جس کا ہمیں خود بھی علم نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنے بچوں کو ڈانٹ کر، مار کر، ان کی عزت نفس مجروح کر کے خاص حکمرانی کا احساس ہو تا ہے۔ ایک خاص تسکین ملتی ہے۔ جواز یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کی تربیت اچھی کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے والدین نے بھی ہمارے ساتھ اچھی تربیت کے زمرے میں کئے گئے سلوک سے بہت تسکین حاصل کی ہوتی ہے۔

کسی عقل مند کا قول ہے کہ ”بچہ سات سال تک بادشاہ، چودہ سال تک غلام، اور چودہ کے بعد وزیر ہے،، گویا ہم ساری عمر اپنی اولاد کو نفسیاتی غلام بنائے رکھتے ہیں۔ اس کو تو اس چودہ سال کی عمر میں آزاد اور سمجھ دار انسان تسلیم کرنا چاہیے۔ لیکن آپ ساری عمر اپنی اولاد کو انسان سمجھتے ہی نہیں۔ آپ کے بچے والدین بن جاتے ہیں مگر آپ کو لگتا ہے وہ بے سمجھ ہیں۔ صرف ایک فطری عمل سے گزر کر ان کو یہ رتبہ مل گیا ہے۔

ایسا نہیں ہے۔ ہمیں اپنی سوچ پہ نظر ثانی کی شدید ضرورت ہے۔ لیکن اگر اس فرعونیت کو نہیں بدلیں گے تو پھر بغاوت، اولاد کی نا فرمانی، بدتمیزی، اور اس طرح کے تمام مسائل کا شکا ر ہو نا پڑے گا۔ کیونکہ یہ مسائل نہیں صرف ردعمل ہیں۔

میں نے بھی جب اولاد کے حقوق کے حوالے سے تحقیق کی تو بظاہر کچھ خاص نہیں ملتا۔ وہ عمومی حقوق کی نعرے بازی ہے۔ جس کو فرائض سمجھا جاتا ہے۔ اچھا نام رکھنا، اچھی تربیت کرنا، اچھی تعلیم دینا، اچھا ماحول دینا، اچھا کھلانا پہنانا، اور پھر اچھی جگہ شادی کر دینا۔ ان سب الفاظ کو ذرا غور سے پڑھئے یو ں نہیں لگتا کہ آپ نے اپنے بچوں کی زندگی کا سٹیرنگ، گیر، بریک، کلچ سب اپنے ہاتھ میں رکھے ہو ئے ہیں۔ اس کی اپنی پوری ذات کی مکمل نفی ہو رہی ہے۔ کیا یہ جبر نہیں ہے؟ کیا یہ دولے شاہ کے چوہوں جیسی صورت حال نہیں ہے؟

اور آپ کو خود کیسا لگے گا جب آپ کی ذات آپ کے والدین کے مکمل کنٹرول میں ہو گی؟

بچوں کے جذباتی حقوق زیادہ اہم ہیں۔ کیونکہ وہ ہم سے زیادہ خالص ہستی ہے۔ ابھی اس نے زمانے کا فریب نہیں سیکھا۔ اسی لئے اس کو ڈانٹ دیں تو وہ سکتے میں جا سکتے ہیں، اپنا ذہنی توازن کھو سکتے ہیں، بدتمیز ہو سکتے ہیں۔ سمجھانے و تربیت کی عمر صرف سات سال ہے۔ یعنی سات سال کی عمر سے چودہ سال کا درمیانی عرصہ اس سے پہلے اور بعد میں یہ خطرناک صورت اختیار کر لیتا ہے جس کا اندازہ اکیس سال کے بعد ہونے لگتا ہے۔

بہت سے والدین ایسے بھی ہیں جو اپنے بچوں سے ہی جیلس ہیں۔ اور اسی جلن میں انہو ں نے پیدا ہونے سے لے کر، جب تک ان کا بس چلا اپنے بچوں کی خوب توہین کی۔ باپ اپنے بیٹوں کو اپنے سے زیادہ تعلیم یافتہ اور کماتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا، ماں اپنی بیٹیوں کو اپنے سے زیادہ حسین اور کامیاب و تعلیم یافتہ نہیں دیکھ سکتی تھی۔ جو دونوں کو خود نہیں مل سکا، وہ اپنے بچو ں کے پاس بھی نہیں دیکھ سکتے۔ دونوں مل کر ان کو ایسے گھریلو خودساختہ مسائل میں پھنسائے رکھتے ہیں کہ ان کا مسقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ میں ایک ایسے ہی خاندان کو جانتی ہوں جہاں والدین کی ناچاقی اور جلن سے نا کوئی بچہ پڑھ سکا، نا کسی مقام پہ پہنچ سکا، نا شادی کر سکا اور اب وہ صرف اپنے والدین کے ذہنی وجسمانی غلام ہیں۔ جن کا کام اپنے والدین کے بسائے گھر کو چلانا ہے۔

میرے لئے سوال یہ تھا کہ ایسا ہو تا کیسے ہے؟ اس کی کھوج میں بہت برس بیت گئے۔ تب ایک اور ایسا گھرانہ ملا جن کے آٹھ بچے تھے۔ مگر وہی والدین کے ذہنی وجسمانی غلام۔ تجسس نے سفر کیا۔ تو پتا چلا کہ یہ ہوتا کیسے ہے؟ یہ ہوتا نہیں، کیا جاتا ہے۔

وہ گھرانہ چاہتا تو بچے پڑھا سکتا تھا۔ صاحب خانہ ایک عرب ملک میں ملازم تھے، پسند کی شادی کی۔ ایک شام کے گھرانے کی عورت سے۔ پاکستان میں گھر بسایا۔ آٹھ بچے ہوئے۔ بظاہر مکمل، ذہین مگر اب دیکھئے تباہ کیسے کئے گئے۔

ماں نے بیٹیوں کو گھر کے کاموں میں جوت دیا۔ باقی جو وقت بچتا وہ بازار کی سلائی کڑھائی کی طرف لگا دیا گیا کہ خالی ذہین شےطان کا گھرہے۔ اس محنت سے جو چند سکے ملتے وہ بھی والدین کی ہتھیلی پہ رکھ دیتیں، کیونکہ بچپن سے بھاشن یہی سنا تھا کہ تابعداری کا تقاضا ہے۔ اپنی ذات کی نفی۔ خود جن والدین نے پسند کی شادی کی وہا ں بچوں کو یہ حق حاصل نہیں تھا۔ اولاد سے یہ بھی چھپایا گیا کہ ان کے والدین کی پسند کی شادی ہے۔ وہ تو جوڑے آسمان پہ بنے ہوئے تھے۔ لہذا ایک ایک لنگور کے ساتھ بچیاں بیاہ دی گئیں۔ جو بچیوں کو مارتے پیٹتے تک ہیں، جب کوئی بچی پلٹ کر آتی ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ یہ اس کے نصیب ہیں۔

آئیے اب تین بیٹوں کی طرف، بیٹوں کو باپ نے حساب کتاب کی تعلیم کے بعد مختلف دکانوں پہ کام پہ لگا دیا۔ وہا ں سے رات کو واپس آتے تو بکرے، مرغیوں، کبوتروں، طوطوں کے پنجرے صاف کرنا دانہ ڈالنا عین ثواب ہے۔ اس کے بعد رات کا کھانا۔ تھکن تب تک دماغ ماﺅف کر چکی ہوتی ہے۔ اور مہینے کے آخر میں تنخواہ ماں کے ہاتھ میں۔ لڑکے بھی پسند کی شادی نہیں کر سکتے۔ کہ کسی کی عورت کی طرف غلط نگاہ پڑے گی۔ ان کی بیویاں بھی ایسی لائی گئیں جو ان کے والدین کی غلامی میں دم گھٹتے سانس سے تابعداری کا تاج پہنے ہوئے ہیں۔

اس دن مجھے سمجھ آیا کہ جیسے ہم ایک بمبار برین واشنگ سے تیار کرتے ہیں۔ یونہی ہم اپنی اولادوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔

بچوں کو اتنا وقت دیں کہ وہ سوچ سکیں۔ وہ سوچیں گے تب، جب ان کا جسم تھکن سے چور نہیں ہو گا۔ صحت مند جسم میں صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ صحت کے لئے صرف خوراک ضروری نہیں۔ آرام، ماحول کا سکو ن، والدین کا اعتماد، بچوں کو پورا نسان سمجھنا، اس کی رائے کا احترام کرنا، ان پہ اپنا غصہ نا اتارنا اور بہت سے عوامل شامل ہیں۔

جب سے لکھنا شروع کیا بہت سے لوگوں کی زندگیاں سننے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ بہت سے فارن کوالیفائیڈ بچے بھی دیکھے جو والدین کے تابعدار غلام ہیں۔ خصوصاً شادی کے موقع پہ والدین ان کی ذات، سوچ، خواہش کی اتنی زیادہ نفی کر دیتے ہیں کہ ان کے دل میں والدین کی عزت نہیں رہتی۔ عزت وہ پودا ہے کہ اس کو خود پانی دینا پڑتا ہے۔ عزت کم ہوتی ہے تو محبت بھی کم ہوتی ہے، محبت کم ہوتی ہے تو کئیر بھی نہیں رہتی، جب کئیر ختم ہوئی تو خود غرضی ناچاہتے ہوئے جگہ بنا لیتی ہے۔ یہ بہت نازک موڑ ہے۔ یہیں سے یوٹرن ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد کسی کو منزل مل جاتی ہے۔ کسی کی راہیں بھی کھو جاتی ہیں

1۔ بچہ کبھی بھی باتو ں اور بھاشن سے نہیں سیکھتا، وہ آپ کے عمل اور ماحول سے سیکھتا ہے۔

2۔ بچے کی بھی عزت نفس ہے۔ اس کو عزت دیں گے تو آپ کی توقع پہ پورا اترنے کے قابل ہو گا۔

3۔ اس کی بھی خواہش آپ ہی جیسے ایک دل میں دھڑکتی ہے۔ اس دل کی دکھن کا احساس کیجئے۔

4۔ بچے پر طنز کرنے سے پرہیز کیجئے

5۔ اس کے ساتھ اگر آپ اپنے والدین ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بدزبانی کریں گے تو، مستقبل قریب میں وہ بھی ایسا ہی کرے گا۔

6۔ اس کی بات آپ کی سوچ سے زیادہ اہم ہے چاہے وہ پانچ سال کا ہے۔ کیونکہ آپ پہ دنیا کی کثافیتں چڑھ چکی ہیں۔ وہ ابھی صاف ہے۔

7۔ اس کو اس کا وقت دیں۔ ورنہ جب آپ کو وقت کی ضرورت ہو گی تو وہ بھی مصروف ہو گا۔

8۔ اس کی معصومیت کی حفاظت کریں۔

9۔ اس کو کند ذہین، نالائق، دوسرے بچوں سے کم تر ہو نے کا احساس نا دلائیے۔ کیونکہ یہ سب جینز اور فطرت ہے۔ بنانے والے نے سب کو ایک ہی کام کے لئے نہیں بنایا۔ اس لئے ایک جیسا بھی نہیں بنایا۔ اور بچہ کبھی بھی کند ذہین نہیں ہوتا۔ وہ جہاں ہوتا ہے وہاں مس فٹ ہوتا ہے۔

10۔ اپنا غصہ بچے پہ نا اتاریں۔ ورنہ جب وہ طاقت ور ہوا تو آپ کو پچھتانا پڑے گا۔ وہ یہ غصہ سماج پہ بھی اتار سکتا ہے۔

اگر آپ عزت چاہتے ہیں تو اپنے بچوں کی عزت کیجئے کہ عزت محبت سے بڑا جادو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).