سندھی ورثہ گٹر کی نذر


صوبہ سندھ کے لوگ برسوں سے ایک نفسیاتی جنگ کا شکار ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی تو سندھ کے لوگ راجہ داہر کو اپنا حکمران مانتے ہوئے ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہ ہی رہے تھے۔ لسانی بنیادوں پر نفرتوں کے بیج بونے کا معاملہ پاکستان بننے کے بعد خصوصاً جنرل ضیاء کے دور میں شروع ہوا اس کے بعد یہ معاملہ ایسا چلا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ وفاق کی ترجمانی کرنے والی جماعتوں سے لے کر لسانیت پر سیاست کرنے والی اور دیگر قوتیں اس معاملے کو پروان چڑھاتی رہتی ہیں۔

اب پھر دوبارہ کراچی میں وال چاکنگ کر کے سندھ کی عوام کو لسانی بنیادوں پر لڑوانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایک چنگاری سے سب کچھ جلا کر راکھ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔ سندھ کے لوگ نفسیاتی جنگ کا شکار ہیں کبھی ان کو کالا باغ ڈیم کے نام پر الجھایا جاتا ہے تو کبھی لسانیت کے نام پر بانٹا جاتا رہا ہے۔ یاد رہے کہ سندھ کبھی ون یونٹ کی مخالفت کی جدوجہد میں پیش پیش نظر آیا تو کبھی سوشل ازم اور مارکس ازم کے خواب دیکھتے ہوئے موہن جو داڑو کے دامن میں کامریڈ انور پیرزادو کے گاؤں بلڑیجی (لٹل ماسکو) میں انقلاب روس کے گیت گاتے ہوئے تو کبھی سندھ یونیورسٹی کی نوجوان لڑکیاں بختاور اور امرتا، جاگیرداروں کے دیس نئی گڈ میں آنا شروع ہو گئیں اور انقلاب کے سہانے خواب بچوں اور خواتین کو سنانے لگیں۔

کامریڈ جام ساقی اور کامریڈ انور پیزادو تو خالق حقیقی سے جا ملے اور کامریڈ امرتا اور بختاور زمانے کے بھیڑ میں کہیں گم ہو کر رہ گئیں۔ مگر یہ لسانیت اور ورثے کے معاملات شہید ذوالفقار علی بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو اور بےنظیر بھٹو کے نوحوں اور مرثیوں کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔

پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی قرار داد، سندھ اسمبلی سے منظور کروانے والے سائیں جی ایم سید نے اس ملک کے ساتھ اپنے نظریات الگ کر کے ایک نئی تحریک کے شروعات کی۔ اس تحریک نے کئی اور تحریکوں کو جنم دیا اور اب چلتے چلتے سائیں جی ایم سید کے اپنے وارث پارلیمانی سیاست کے ذریعے عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے نظریاتی پیروکار سائیں جی ایم سید کے نظریاتی مقاصد کے حصول کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف رسول بخش پلیجو جو عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے حوالے سے ایک اہم مقام رکھتے تھے یہ دونوں مختلف نظریاتی گروہ ہمیشہ سندھ کی ثقافت اور تہذیب کو زندہ رکھنے اور سندھی عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سرگرم عمل نظر آئے ہیں۔ یاد رہے یہ دو نظریاتی گروہ ہی نہیں بلکہ سندھ کے تمام تر طبقات کا سندھی ورثے کی حفاظت میں بڑا اہم کردار رہا ہے۔ سندھ کے لوگ اپنے ثقافتی ورثے پر کسی قسم کی کوئی چھیڑ چاڑ برداشت نہیں کرتے۔ اجرک، سندھی ٹوپی اور موہن جو داڑو اور لال شھباز قلندر اور بھٹائی میں تو ان کی جان ہے۔

آج کل موہن جو داڑو کی ثقافت پر بحث و مباحثہ جاری ہے کہ کیسے موہن جو داڑو کی قدیم تہذیب کی نشانیوں کو اسلام آباد کی کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی ( CDA) گٹروں کے ڈھکنوں پر دکھا سکتی ہے۔ سندھ کے لوگوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو بھی اس وقت شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا تھا جب انہوں نے سندھ فیسٹول کا انعقاد موہن جو داڑو کے کھنڈرات پر کیا تھا۔ اگر کسی تہذیب کی قدر نہیں کی جا سکتی تو کم از کم ایک گٹر پر اس طرح سندھی ورثہ دکھا کر سندھ کے عوام کے جذبات کو مجروح نہ کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).