اداروں کو متنازعہ نہ بنائیے


آج کل نئی نویلی حکومت کی ناقص اور نابالغ قسم کی کارکردگی ہر جگہ زیر بحث ہے۔ حکومت جس قدر اپنی کارگزاری کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرتی ہے اسی قدر آئے دن خارجہ اور داخلہ محاذ پر ایک سے بڑھ کر ایک ہزیمت کا سامنا کر رہی ہے۔ کہہ مکرنیو ں اور یو ٹرنوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کی دعویدار حکومت بری طرح عوامی مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ بیشتر وزرا اور حکومتی نمائندے ابھی تک کنٹینر پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ احتساب انتقامی کارروائیوں تک محدود ہوتا جارہاہے۔ مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور گرانی کی دھوم ہے۔ کھانے پینے کی سیکڑوں اشیا کے نرخوں میں 25 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ وزرا سرکاری اہلکاروں پر دباؤ ڈال کر انہیں غیر قانونی کام کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

سابقہ حکومتوں کے مثبت اور مستحسن کاموں کو بھی حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ سٹریٹ کرائمز، لوٹ مار، چور بازاری اور بدامنی کے واقعات میں پہلے کے مقابلے میں اضافہ ہورہاہے۔ تبدیلی کا نعرہ لگا کر براجمان ہونے والی حکومت 50 دن ہی میں بند گلی میں جا چکی ہے۔ سب سے بری حالت اقتصادی صورت حال کی ہے۔ منی بجٹ میں دو ارب کے قریب نئے ٹیکس مفلوک الحال اور غریب عوام کی کمر پر لاد دیے گئے ہیں۔ گیس، بجلی، پانی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے ظلم کی چکی میں پستے عوام کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے۔

یہ سب مسائل بلاشبہ اپنی جگہ بہت بڑے اور ہوشربا ہیں مگر آج کل حکومتی وزرا اور عہدےدار ایک اور خطرناک کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ آئے دن کسی نہ کسی اہم حکومتی وزیر یا اتحادی کا اس طرح کا بیان جلی حروف میں دکھائی دیتا ہے جس میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ملک کے مقتدر اور اہم ادارے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیر اطلاعات جوہر حزب اختلاف سے مبارزت آرائی اور لڑائی جھگڑے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے; کا ایک حالیہ بیان آیا جس میں انہوں نے ببانگ دہل اس امر کی یاددہانی کروائی ہے کہ آرمی اور سپریم کورٹ اس حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ان کا یہ بیان جناب وزیر اعظم کی آرمی چیف سے حالیہ ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی ہر حکومت نے حسب ضرورت طاقت کے سرچشموں کی طرف سے سرپرستی کے دعوں کے ذریعے مخصوص مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے مگر اس حکومت نے تو اس حوالے سے رسمی حجاب اور رکھ رکھاؤ کو بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی شعوری کوشش بھی نہیں کی ہے۔ جب پتا پتا بوٹا بوٹا اس حقیقت سےآگاہ ہے کہ موجودہ حکومت کی رونمائی میں ہمارے مقتدر اداروں کا گراں مایہ تعاون شامل حال رہا ہے اور اسی وجہ سے موجودہ وزیراعظم پر ”سلیکٹڈ“ وزیراعظم کی پھبتی کسی جاتی ہے;تو اس کے باوجود حکومت کو ابتدائے عشق ہی میں یہ راگ الاپنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے کہ

جہاں پناہ!مجھے بازوؤں میں لے لیجیے
مری تلاش میں ہیں گرشیں زمانے کی

اس حوالے سے ہم دست بدستہ عرض کریں گے کہ ایسے اعلانات سے ممکن ہے حکومت کا تھوڑا بہت فائدہ ہو جائے اور وہ حزب مخالف کو یہ باور کرانے میں شاید کسی حد تک کامیاب ہوجائے کہ اسے مقتدر حلقوں کی پشت پناہی اور آشیر باد حاصل ہے مگر یہ بات ان اداوں کے لیے بہت ضرر رساں اور خطرناک ہے۔ پاک آرمی اور سپریم کورٹ کسی حکومت کے ادارے نہیں ہیں بلکہ یہ پورے ملک کے ادارے ہیں۔ یہ تاثر دینا کہ یہ ادارے کسی ایک پارٹی، گروہ یا حکومت کے ساتھ ہیں، اداروں کو متنازعہ بنانے کے مترادف ہے۔ پی ٹی آئی کے متلون مزاج، عاقبت نا اندیش اور بسیار گو اراکین تو خیر ماضی قریب میں بھی یہ بھرپور تاثر دیتے رہے ہیں کہ کہ جیسے ان اداروں کے جملہ حقوق اس پارٹی کے پاس محفوظ ہیں۔ یہ سلسلہ حکومت میں آنے کے بعد بھی شد و مد سے جاری ہے۔

اس تاثر کے پس پردہ بہت سے محرکات ہوسکتے ہیں جن میں سب سے بڑا اور اہم یہ کہ اس طرح حکومت کو اپنی نا اہلیوں پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔ اس طرح کی حرکتوں سے حکومت کو تو ذرا بھی فائدہ ہونے کا امکان نہیں البتہ مقتدر ادارے جن پر پہلے ہی پی ٹی آئی کی سیاسی سرپرستی کا الزام ہے، مزید متنازعہ ہورہے ہیں۔ مقتدر اداروں کو خود بھی چاہیے کہ وہ اپنے اس تاثر کو زائل کرنے کی شعوری کوشش کریں۔ یاد رکھیں پاک آرمی ملکی بقا، سلامتی اور تحفظ کی ضامن ہے۔ یہ جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی ضمانت بھی دیتی ہے۔ ملک کے اندر یا باہر اس کی کمزوری کا یہ مطلب ہو گا کہ خدانخواستہ ملک کمزور ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے بزرجمہروں اور شہہ دماغوں کو بھی اسے سیاست کی پرخار وادی میں گھسیٹنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ ایک ایٹمی طاقت کی باصلاحیت اور پیشہ ورانہ اہلیت کی حامل فوج ہے، کوئی خطرناک گینگ نہیں کہ کوئی پارٹی یا گروہ اس کو اپنے ساتھ ملا کر طاقتور ہونے کا پیغام دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).