بیرونی سربراہان کا شوقِ ملاقات اور مشیران کی نامکمل ٹیم


جب سے ہماری نئی حکومت نے ملکِ عزیز کی باگ ڈور سنبھالی ہے، دنیا بھر کے سربراہانِ کا نئے پاکستان کے وزیر اعظم سے ملنے کا یا کم از کم فون پر بات کرنے کا اشتیاق دیدنی ہے۔ چونکہ ہمارے نئے حکمرانوں کو اندازہ ہے کہ یہ ٹیلیفون کالز اور ملاقاتوں کی خواہش محض مبارکبادی کی خاطر ہے اور ان میں چندہ دینے والے شامل نہیں ہیں، اس لئے خود وزیر اعظم کا ہر فون کال سننا یا ملاقات کے لئے وقت نکالنا مشیران کی نامکمل ٹیم کے ساتھ مناسب نہیں ہے۔ ترجیح یقیناٗ یہی ہونی چاہیے کہ پہلے مشیروں کی ٹیم مکمل کر لی جائے تا کہ وہ دلجمعی کے ساتھ پہلے سو دنوں کے اہداف حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کر سکیں ورنہ ذرا سی بے توجہی سے شہباز شریف پی اے سی کے چئرمین کا عہدہ لے اُڑیں گے۔

یہ تو خیر دنیا بھر میں ہوتا ہے کہ نئی حکومت کے بنتے ہی بیرونی ممالک رابطہ کرتے ہیں تا کہ نئے بننے والے سربراہ سے بہتر تعلقات ِ کار بنائے جا سکیں۔ در حقیقت یہ ملکوں کے باہمی مفاد کی بات ہوتی ہے۔ اس طرح کے تہنیتی پیغامات اور ملاقاتیں دونوں ملکوں کے مابین اقتصادی، تجارتی اور سیاسی معاملات کو عمدگی سے نمٹانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ میڈیا بھی اس طرح کے روابط کی خبریں شائع اور نشر کرتا ہے مگر لوگ ان خبروں میں کم ہی دلچسپی لیتے ہیں۔ کیونکہ عوام کے لئے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہوتی گویا ایسی خبر کان دھرنے والی نہیں ہوتی۔ میڈیا کو زیادہ دلچسپی اس بات سے ہے کہ نئے پاکستان میں وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر کے سفر میں وزیر اعظم کے کتے بھی شامل ہوتے ہیں اور یہ کہ خاتونِ اوّل اپنے شوہرِ نامدار اور اُنکے کتوں کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں۔ اور یہ بھی کہ وزیر اعظم نے اپنے جو مشیر یعنی ایڈوائزر مقررکیے ہیں اُن کی کیا قابلیت ہے۔

مگر اس دفعہ عالمی رہمنماؤں کے پیغامات پر مبنی خبروں میں عوام کی دلچسپی دیکھی گئی ہے۔ یہاں تک کہ عوام اور میڈیا اس کھوج میں بھی رہے ہیں کہ کس سربراہ مملکت نے ہمارے نئے وزیر اعظم کے بارے میں کس رائے کا اظہار کیا ہے اور کتنی مسرٌت اور تپاک سے ہمارے وزیر اعظم کو حکمرانوں کے بین الاقوامی کلب میں خوش آمدید کہا گیا ہے۔ اس کے برعکس میڈیا کے ہاتھ ایسی خبریں کم ہی لگی ہیں اور جو ایک آدھ خبر سامنے آئی بھی ہے وہ بھی بھینسوں ک نیلامی اور وزیر اعظم کے رنگا رنگ مشیر مقرر ہونے کی دلکش خبروں میں دب کر گئی ہے۔

البتہ سوشل میڈیا نے جہاں اور کئی میدانوں میں ریگولر میڈیا کو مات دی ہے وہیں اس معاملے میں بھی سوشل میڈیا نے لیڈ لی ہے اور کہیں نہ کہیں سے اس طرح کی خبریں نکال کر ریگولر میڈیا کے آگے ڈال دی ہیں اور پھر ہمارے تبصرہ نگاروں اور تجزیہ کاروں نے اُن خبروں پر خوب خوب گفتگو کی ہے اور داد سمیٹی ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کا بس اتنا ہی کام ہے۔ باقی اندازے لگانے، اندر کی خبر نکالنے اور خبر بنانے کا کام ہمارے عوام خود نہایت ہی عمدگی سے کر لیتے ہیں۔ اسی کام کے لئے ہمارے ہاں کوچہ کوچہ قریہ قریہ تھڑے، چائے خانے، مساجد کے باہر کھڑے ہونے کی جگہیں اور واک کرنے والے ٹریک بنائے گئے ہیں جہاں ہمارے گمنام دانشور ان تبصروں پر مزید تبصرے اور تجزیوں پر مزید تجزئے کرتے ہیں اور بات ہاتھا پائی تک پہنچتے پہنچتے رہ جاتی ہے۔ اس طرح کی تمام نجی قیاس آرائیاں سرکاری دفتروں میں پہنچ کر نیم سرکاری کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں کہ ہمارے ہاں سرکار نے سرکاری عمارتیں بنا کر اُن میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو بیٹھنے، گپیں لگانے، اپنے آپ کو گرمی اور سردی کی شدت سے بچانے، بیویوں سے کچھ دیر اوہلے ہونے حتیٰ کہ نیند پوری کرنے کے لئے مواقع فراہمکیے ہیں۔ ان سرکاری محفلوں میں ان موضوعات پر ہونے والی گفتگو مزید نکھر کر سامنے آتی ہے اور ایک فیصلہ کُن رائے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

یہی وہ فیصلہ کُن رائے ہے کہ جس کی بنیاد پر ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ دنیا بھر کے ممالک کے سربراہان ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ صاحبان سے اِذنِ باریابی کے متمنی ہیں اور کئی ایک تو بیتابی کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ مگر چونکہ ہمارے وزیر اعظم صاحب کی فی الحال ترجیح پہلے سو دنوں کے اہداف ہیں اور چونکہ سو دن، محض تین مہنے سے دس دن ہی اوپر ہوتے ہیں اور یہ کہ پچھلی حکومتیں جان بوجھ کر مسائل کا ایک انبار اس نئی حکومت کے لئے چھوڑ گئی ہیں جو ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے علم میں بالکل بھی نہیں تھا، اس لئے ہمارے وزیر اعظم صاحب ہر آنے والی فون کال اور ملاقات کی خواہش کو شرفیاب نہیں کر سکتے۔ چنانچہ، فرانس کے صدر کی فون کال فوری طور پر نہیں سنی جا سکی اور اُن کو بار بار کال کرنا پڑی کہ بات ہو سکے۔ بالآخر اُن کے اشتیاق کے پیشِ نظر کئی روز بعد، اُن کی مختصر بات کرا دی گئی۔ ابھی ہمارے وزیر خارجہ کو بھی تقریباً ایسی ہی صورتِ حال پیش آئی اور وہ بھی امریکہ میں، جب وہ بین الاقوامی تعلقات کی گتھیاں سُلجھانے میں از حد مصروف تھے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو محض ہینڈشیک پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ البتہ ہمارے دانشوروں کی رائے میں پھر کسی موقع پر امریکی صدر کو بھرپور ملاقات کا وقت دیا جا سکتا ہے کہ ابھی اُن کی مدتِ صدارت کے تقریباً دو سال باقی ہیں اور ہمارے وزیر خارجہ کے دیگر رشتہ دار بھی باقی ہیں جو ابھی تک پارلیمینٹری سیکریٹری کے عہدے پر فائز نہیں ہو سکے۔

عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں سست روی کی بنیادی وجہ بظاہر مشیران کی ٹیم کا نامکمل ہونا ہے۔ جس میں وزیر اعظم کے طویل عرصے سے ذاتی معاون عون چوہدری اور وزیر اعظم کے عمرے کے زلفی بخاری کی شمولیت کے بعد کچھ کسر باقی رہ گئی ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم کی اقربا پروری کے خلاف بائیس سالہ جد و جہد، اب مشیروں کی ٹیم مکمل ہونے میں مانع ہے کیونکہ مشیر بننے کےاہل لوگ یا تو وزیر اعظم کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں یا اُن کے قریبی دوست ہیں۔

ہماری رائے میں ایسی تمام فون کالز جو نہ سنی جا سکیں، کا تزکرہ کرنا اس لئے مناسب نہیں ہے کہ مُبادا کہ اُن سربراہان اور اُن ملکوں کے عوام کی دل شکنی ہو۔ البتہ ہمارے اندازے کے مطابق، ان نہ سنی جا سکنے والی کالز میں، سب سے زیادہ ٹیلی فون کالز برادر اسلامی ملک کویت سے ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ اسلامی رشتوں میں بندھا ہؤا یہ ملک ہمارے وزیر اعظم اور اُن کی ٹیم سے ملنے اور سبق سیکھنے کا زیادہ ہی متمنی ہو گا۔ مزید یہ کہ کویت اپنے حالیہ وفد کے کامیاب دورۂِ پاکستان پر شکریہ بھی ادا کرنا چاہے گا کہ کس کے دوران کویتی وفد کا ایک چوری شدہ پرس وغیرہ سُرعت سے برآمد کروا لیا گیا۔ اب اس شکریے کی غیر اہم بات کے لئے کال کرنا اور سننا وہ بھی پہلے سو دنوں میں، کتنا ضروری ہے جبکہ انتہائی اہم معاملات پر مشورہ دینے کے لئے وزیر اعظم کے مشیرانِ کرام کی ٹیم ابھی تک تکمیل کے مراحل میں ہے کہ وزیر اعظم کے کئی قریبی عزیز اور پرانے دوست اور اُن دوستوں کے قریبی عزیز ابھی تک کسی عہدے کے بغیر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).