زمین متنازعہ ہے یا عوام


گلگت بلتستان میں ’متنازعہ حیثیت‘ کا استعمال متعدد مواقعوں پہ ہوتا ہے، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اسے عمر بھر کے روگ کے طور پر پالا ہوا ہے، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے آئینی حقوق اور متنازعہ حیثیت ہی یاد رہتی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وفاقی مہمانوں کے سامنے ’متنازعہ حیثیت‘ کارونارونا ہی اہم موقع ہوتا ہے اور وہ یہاں پر ہماری بات سن کر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جاکر ایسی دھواں دار تقریر کریں گے کہ وزیراعظم اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے پریس کانفرنس کریں گے اور گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے کا اعلان کریں گے۔ متنازعہ حیثیت پر لب کشاہی کرنے والی ایک اور قسم کا خیال ہے کہ جب بھی کسی مشکل میں پھنسے، فوراً ’متنازعہ حیثیت ‘ کا نعرہ مستانہ بلند کیا جائے، اس کا اثر یہ ہوگا کہ ان کے سر پر پڑی ہوئی مشکل اس نعرے کی بنیاد پر ٹل جائے گی اور ان پر کوئی مہربانی ہی ہوجائے۔ ان میں سے اول الذکر کو مقامی زبان میں قوم پرست کہتے ہیں جن میں سے اکثر اس کے مفہوم سے کوسوں دور رہتے ہوئے کسی ’اختراع ‘ کو ذہن میں جگہ بنالیتے ہیں، اس کے اکثریت کی مظلومیت ریاست مخالف اقدامات کی جانب ایک راستہ کھول دیتی ہے جہاں سے مفہوم نہ صرف سخت متاثر ہوتا ہے بلکہ دیگر تمام کے لئے بھی سبب آفت بن جاتا ہے۔

ثانی الذکر میں ایسے لوگ شامل ہیں جو افواہوں کی بنیاد پر ایک نظریہ قائم کرتے ہیں، اس قسم کے افراد کا خیال ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کو دباؤ میں لانے سے آئینی حقوق کے غبارے میں ہوا بھراجاسکتا ہے، اس قسم کے لوگ سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں چونکہ اکثریت اقلیت پر غالب آجاتی ہے اسی لئے اس خیال نے سب سے زیادہ فروغ پایا ہے اور اسی نے عوامی رائے کی حیثیت اختیار کرلی ہے، اسی وجہ سے وفاقی حکومت یا حکمرانوں کے سامنے آواز بلند کرنے والے اکثر یہاں پر ہیرو قرار پاتے ہیں تاہم بہت قلیل عرصے کے لئے۔ آخرالذکر قسم سب سے دلچسپ ہے اس قسم کے خیالات رکھنے والوں میں وہی لوگ ’گِرتے‘ہیں جن کی رسائی حکومت تک ہوتی ہے اس طبقے کے لوگ حکومت بناتے ہیں یا پھر حکومت کا حصہ قرار پاتے ہیں چونکہ گلگت بلتستان میں وفاقی حکومت کے ان مٹ نقش ’آئین ‘ہے، انتخابات کے درمیان موجود وقفہ اور حکومت سے الوداعی تقریب کا وقت یہاں پر مشکلات کا ہوتا ہے اسی لئے یہ طبقہ اکثر ان اوقات میں ہی ازان دینے میں عافیت سمجھتے ہیں، اس طبقے کی قیادت کرنے والوں میں اب تک فدا محمد ناشاد، سید مہدی شاہ اور حافظ حفیظ الرحمن نے کی ہے۔

دنیا کی 80فیصد جنگیں زمینوں کی بنیاد پر لڑی گئی ہے، زمین سے تین قسم کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں، جن میں معاشی، سیاسی اور عسکری مفادات شامل ہیں، گلگت بلتستان دنیا کے ایک ایسے مقام پر موجود ہے جہاں پر اس کے ارد گرد سبھی ممالک کے یہاں پر تینوں مفادات موجود ہیں تاہم مسئلہ کشمیر کی موجودگی کی وجہ سے یہاں کے عوام مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے لئے ہنوزمنتظر ہیں۔ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا تعین آج اور کل کا نہیں بلکہ تقسیم برصغیر کے دوران بھی گلگت بلتستان کا مستقبل کا معاملہ اپنی اہمیت اور حساسیت کے ساتھ موجود تھا، تقسیم برصغیر سے قبل 2 اگست 1947 کو ہندوستان کے آزادی پسند لیڈر موہن داس کرم چند گاندھی نے مہاراجہ کشمیر کو تجویز دی تھی کہ گلگت کو حکومتی خودمختاری دینے کے لئے ’لوکل ایریا انڈیپنڈنس ‘دی جائے، جسے کشمیر کے مہاراجہ نے نظر انداز کرتے ہوئے گھنسارا سنگھ کو روانہ کردیا، یہاں سے اس بات کی اہمیت کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ گلگت بلتستان کی سرزمین کی دنیا بھر کے لئے کتنی اہمیت ہے۔

گھنسارا سنگھ سے بغاوت کے بعد گلگت بلتستان نے نئی وجود میں آنے والی مملکت پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا، یہ اس وقت کی بات ہے جب مملکت پاکستان کو خود اپنے راستے کا علم نہیں تھا اور تقریباً 26 سالوں کے بعد اپنے لئے آئین مقرر کیا، ایسے میں گلگت بلتستان کو ایڈجسٹ کرنا عقلی لحاظ سے بھی مشکل تھا، کشمیر کے مسئلے کے تناظر میں بھی، جہاں پر باوجود اکثریت مسلمان ہونے کے ہندوستان نے اپنی فوجیں اتاری تھی، ان جنگوں کے نتیجے میں معاملہ اقوام متحدہ تک جاپہنچا، اور یوں گلگت بلتستان دوبارہ ریاست کشمیر کا حصہ قرار پایا اور اقوام متحدہ کے قراردادوں متنازعہ قرار پاتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام آگیا۔ اس سارے دورانیے میں گلگت بلتستان کے عوام آئینی تحفظ سے دور رہے، اقوم متحدہ کی قراردادوں کی موجودگی میں متنازعہ قرار پانے والے تینوں علاقوں(مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) کا الگ الگ انتظامی نظام رہا جن میں سب سے کمزور نظام گلگت بلتستان کا تھا، ۔ 2009 تک گلگت بلتستان کاسیاسی اور انتظامی سیٹ اپ سی قبائلی علاقے کے جرگے سے بھی کمزور قسم کا تھا۔

گزشتہ سات دہائیاں گلگت بلتستان کے عوام کے لئے آئینی لحاظ سے بارگراں ثابت رہے، بدقسمتی سے گلگت بلتستان کی عوام اس دورانیے میں اپنی پوزیشن سمجھنے کی بجائے مذہبی، فرقہ وارانہ اور سیاسی مفادات اور گروہوں میں تقسیم رہی جن میں سے صرف تین کا ذکر شروع میں کیا گیا ہے اس گروہی چپقلش وکشمکش نے یہاں کے ثقافتی، لسانی تنوع سمیت دیگر خوبصورتیوں کو زنگ آلود کردیا، عقل و دانش کے دروازوں پر قفل لگ گئے، ثقافتی حیثیت و پہچان بحران کی شکل اختیار کرگئی، ثقافت اور مذہب کئی اشکال میں آمنے سامنے آئے، معاشرتی ترقی جمود کا شکار ہوگئی۔ گلگت بلتستان کے آئینی تحفظ کے لئے مقامی سطح پر جن نعروں کا وجود رہا ان میں پانچواں صوبہ، کشمیر طرز سیٹ اپ، مقبوضہ کشمیر طرز سیٹ اپ، آزاد کشمیر کے ساتھ انضمام، کشمیر اور جی بی کی مشترکہ کونسل کے قیام کی تجاویز شامل رہی ہیں اور گزشتہ 70سالوں سے بے آئین رہنے کے اسباب کو ریاست کی مجبوری، اقوام متحدہ کی قراردادیں، سیاسی جماعتوں کی عدم بصیرت، بین الاقوامی سازشیں، مسئلہ کشمیر، کشمیری قیادت کے رویوں میں ڈھونڈنا شروع کردیا۔

گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کے تعین کے لئے منظم تحریک اب تک نہیں چل سکی ہے جو سیاسی، علاقائی بالخصوص مذہبی مفادات سے بالاتر ہوتی، جن جن لوگوں کو قوم کی قیادت کی ڈور ہاتھ میں دے دی گئی وہ یا تو کٹ گئی یا کہیں اور سے ہلنے لگ گئی ان مطالبات میں سے مقبول مگر کھوکھلے نعرے ماضی میں مسلکی نعروں کی حیثیت سے پہچانے جاتے رہے ہیں، ان مطالبات میں عقلی دلائل، گلگت بلتستان کے ضروریات اور سیاسی طور پر ارتقائی مراحل کا کہیں پر ذکر نہیں ہے۔ اور جہاں پر اسباب ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی رہی وہاں پر مقامی قیادت اور مقامی سوچ کا ذکر تک موجود نہیں رہا کسی حد تک بعض حلقوں میں حقوق سے لاشعوری کی نشاندہی ہوتی رہی مگرجن نعروں کی وجہ سے پسماندگی کا تسلسل رہا اور ریاست کو بھی مشکلات کی طرف دھکیلا گیا ان کھوکھلے نعروں کی مذمت آج بھی نہیں ہورہی ہے۔ چند برس قبل تک بھی گلگت بلتستان کی عوام نے ریاست پاکستان سے کوئی بھی قابل عمل مطالبہ نہیں کیا ہے، موجودہ اسمبلی میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے دو معزز اراکین نے متعدد مقامات پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اسمبلی میں آنے سے قبل ہمیں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کی سمجھ ہی نہیں تھی اسمبلی میں آنے کے بعد مختلف فورموں میں شرکت اور ملاقاتوں کے بعد اس پیچیدگی کو سمجھ سکے ہیں۔

اب چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ، دیامر بھاشا ڈیم جیسے منصوبوں نے ایک بار پھر آئینی حیثیت کے تعین کا تقاضا کیا ہے تاکہ ہندوستان کی جانب سے اٹھنے والے اعتراضات کو رد کیا جائے اور مقامی لوگوں میں پھیلی مایوسی کو کم کیا جائے، اور ساتھ میں خبردار بھی کیا ہے کہ ریاست کے پاس اب کی بار کسی قسم کی غلطی کی گنجائش باقی نہیں رہ سکتی ہے۔ یہ منصوبے آئینی تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں جس کا ایک کیس اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت بھی ہے، جس کا بنیادی استدعا ”گلگت بلتستان کے عوام کو دیگر صوبوں کے عوام کی طرح ہی حقوق دیے جائے ‘‘کے مشہور زمانہ فیصلے پر عملدرآمد کا ہے، ریاستی فیصلے چونکہ ماضی میں قابل تعریف قسم کے نہیں رہے ہیں مگر اب سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق آئینی ایکٹ کے ذریعے تحفظ دینے کا سنہرا اور نادر موقع ہے، قوی امید بھی ہے کہ آئینی تحفظ کا فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان سے ہی ہوگا اور سیاستدانوں کے احسانات سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ عوام گلگت بلتستان اگر معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے قدم اٹھائیں گے تو صرف زمین متنازعہ ہے جس کا فائدہ بلاواسطہ عوام کو پہنچ سکتا ہے اگر اس کی بجائے شروع میں ذکرکیے گئے اقسام میں تقسیم ہوتے رہے تو عوام متنازعہ ہوں گے زمین غیر اعلانیہ غیر متنازعہ قرار پائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).