پنجاب کو سنبھالیے اس سے پہلے کہ چڑیاں چُگ جائیں کھیت


ریلوے کے وزیر نے اعلان کیا ہے کہ سی پیک معاہدے کے تحت‘ ریلوے منصوبوں کے حجم میں دو ارب ڈالر کی کمی کر دی گئی ہے۔ اب یہ حجم آٹھ ارب سے کم ہو کر چھ ارب رہ گیا ہے۔ اسے چار ارب تک لانے کا پروگرام ہیْ وجہ یہ ہے کہ بقول وزیر ریلوے قرضوں کی بڑھتی ہوئی شرح نقصان دہ ثابت ہو گی!

تحریک انصاف کی حکومت جس طرح کچھ دیگر معاملات میں مذبذبین بین ذالک لا الیٰ ہو لا ولا الیٰ فھوولا کی کیفیت کا شکار ہے‘ بالکل اسی طرح سی پیک کے معاملے میں ایک واضح موقف اپنانے میں بھی ہچکچاہٹ میں مبتلا ہے۔

تذبذب کے سبب پوری طرح اس طرف نہ اس طرف! اور اگر حکومت کے تھیلے میں واضح موقف موجود ہے تو پھر اسے چاہیے کہ یہ موقف عوام تک پہنچائے۔ سخی سے شوم بھلا جو ترت دے جواب! یہ تاثر روز بروز گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے کہ سی پیک کے معاملے میں موجودہ حکومت کا رویہ اگر معاندانہ نہیں بھی ہے تو غیر ہمدردانہ ضرور ہے!

یہ تاثر جو ہر نئے دن‘ پختہ تر ہو رہا ہے‘ حکومت کے لیے مفید ہے؟ یا نقصان دہ؟ اس کا جواب واضح ہے!! اگر حکومت کا موقف یہ ہے کہ سی پیک کے معاہدوں میں شفافیت نہیں تھی تو پھر اس پر لازم ہے کہ ان کو منظرِ عام پر لائے۔ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ان معاہدوں میں سفید حصہ کتنا ہے اور سیاہ کتنا؟

اگر چین کو ناروا حد تک زیادہ فائدہ ہے تو پاکستانی عوام کو بتانے میں کیا حرج ہے؟ حکومت سی پیک کے اردگرد یوں لگتا ہے مکڑی کا ایک جالا‘ دانستہ یا نادانستہ‘ بن رہی ہے! ابہام در ابہام! ایک قدم آج آگے بڑھتا ہے تو کل دو قدم واپس ہو جاتی ہے۔ جیسے ملک میں سی پیک کا کوئی والی وارث نہیں!

احسن اقبال غلط تھے یا صحیح۔ کم از کم سی پیک کواپنا بے بی مانتے تھے۔ اب تو یہ لاوارث بچہ چوک پر کھڑا ہے۔ حیران پریشان! کوئی اسے اپنانے کو تیار نہیں! پھر سعودی عرب کے عنصر کو درمیان میں ڈال کر مسئلے کو اور پیچیدہ کر دیا گیا ہے اور سعودی عرب کو ڈالا بھی یوں ہے کہ وہ اندر ہے نہ باہر!

کچھ پہلوئوں سے سعودی انکار کر رہے ہیں کچھ سے چینی‘ رضا ربانی اور ان کے‘ ہم خیال‘ نظریاتی رفقا‘ الگ خم ٹھونکے کھڑے ہیں ایسے میں حکومتی عمائدین میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو تکنیکی بنیادوں پر معاملے کی وضاحت کر سکے۔

حکومت کو سوچنا چاہیے کہ کہیں ’’عدم تسلسل‘‘ کا نقصان اس کے ذمہ نہ لگ جائے۔’’عدم تسلسل‘‘ کیا ہے؟ یہی کہ جو منصوبے گزشتہ حکومت نے شروع کیے تھے‘ ان کا رُک جانا! ایسے ادھورے منصوبے چونکہ جسمانی طور پر نظروں کے سامنے آتے ہیں اور بار بار آتے ہیں اس لیے رائے سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں!

عوامی تبصرہ ان کے ادھورے پن پر عموماً یہ ہوتا ہے کہ ’’پچھلی حکومت ہی بھلی تھی جس نے یہ منصوبہ شروع کیا تھا۔ انہوں نے آ کر بند کر دیا ہے۔ دشمنی اس حد تک بھی نہیں جانی چاہیے!‘‘ ایک بُری مثال اس’’عدم تسلسل‘‘ کی میٹرو بس کا وہ منصوبہ ہے جو گزشتہ حکومت نے دارالحکومت کے نئے ایئر پورٹ کو اسلام آباد سے مربوط کرنے کے لیے شروع کیا تھا۔ کام زور و شور سے ہو رہا تھا۔

پشاور موڑ سے پشاور روڈ کی طرف تعمیر جاری تھی۔ نئی حکومت آئی تو تعمیر کا یہ کام رُک گیا۔ ایک دوست بتا رہے تھے کہ کام ہو رہا ہے مگر بددلی سے! اب حالت یہ ہے کہ شاہراہ کے دونوں طرف بڑے بڑے قوی ہیکل سٹرکچر پڑے ہیں۔ لاکھوں لوگ ہر روز دیکھتے ہیں۔

گزشتہ حکومت سے ہمدردی کی ایک لہر اپنے دلوں میں اٹھتی پاتے ہیں۔ پھر وہ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ ان منصوبے کا کیا مستقبل ہے؟ کیا یہ سٹرکچر اسی طرح پڑے رہیں گے؟ حکومت اس منصوبے کو پسند کرتی ہے یا نہیں‘ اب یہ اس کے گلے کا ہار ہے۔ بقول محبوب خزاں ؎ محبت کو گلے کا ہار بھی کرتے نہیں بنتا کچھ ایسی بات ہے انکار بھی کرتے نہیں بنتا حکومت مکمل کر کے اس کا کریڈٹ لے سکتی ہے۔ ورنہ اس سے منفی تاثر تو پھیل ہی رہا ہے!

’’عدم تسلسل‘‘ کا دوسرا نمونہ جو کم بُرا نہیں‘ ایکسپریس ہائی وے کا معاملہ ہے ۔یہ وہ شاہراہ ہے جو روات‘ یعنی جی ٹی روڈ کو فیض آباد سے ملاتی ہے۔ یہ علاقے کی مصروف ترین شاہراہ ہے۔ ہر روز لاکھوں افراد چکوال جہلم ‘دینہ‘ منگلا‘ مندرہ‘ گوجر خان‘ کلر سیداں روات اور بیسیوں دوسری بستیوں سے اس شاہراہ کے راستے دارالحکومت پہنچتے ہیں اور واپس جاتے ہیں!

اسلام آباد کی نئی آبادیاں جو سی ڈی اے کی کرپشن اور نالائقی کی وجہ سے نجی طور پر بسانا پڑ گئیں وہ سب بھی اسی شاہراہ کے اردگرد سانس لے رہی ہیں۔ بحریہ ٹائون کے آٹھ فیز۔ ڈی ایچ اے کے پانچ فیز۔ نیوی کالونی‘ پی ڈبلیو ڈی۔ پولیس فائونڈیشن ‘ میڈیا ٹائون‘ ڈاکٹرز ٹائون‘ پاکستان ٹائون‘ گلبرگ‘ جناح ٹائون‘ غوری ٹائون‘ کُرنگ ٹائون اور دیگر ملحقہ آبادیوں سے بھی لاکھوں لوگ اس شاہراہ کو برت رہے ہیں۔

پچھلی حکومت نے فیض آباد سے گلبرگ تک اسے وسیع اور جدید کر دیا تھا۔ آخری ٹکڑا گلبرگ سے روات چوک تک رہتا ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اخباری اطلاع کے مطابق‘ اس ٹکڑے کی تعمیر و توسیع کے لیے مطلوبہ فنڈز منظور کر کے جاری کر دیے تھے۔

اب خبر یہ گردش کر رہی ہے کہ یہ منصوبہ ادھورا ہی رہے گا۔ حکومت پر لازم ہے کہ اس ادھورے کام کو فوراً پایۂ تکمیل تک پہنچائے ورنہ لاکھوں افراد پر مشتمل یہ وسیع و عریض پٹی ساری کی ساری مخالف ہو جائے گی اور بے بسی کے مارے ہوئے لوگ‘ اور کچھ نہ کر سکے تو تحریک انصاف کو اپنے ووٹوں سے ضرور محروم کر دیں گے! کوئی ہے جو ان پہلوئوں سے وزیر اعظم کو آشنا کرے اور خبردار بھی!!

رہا معاملہ رانا مشہود صاحب کے بیان کا تو اسے مجذوب کی بڑ گرداننے والے غلطی پر بھی ہو سکتے ہیں! تادمِ تحریر‘ رانا صاحب اپنے ہوش و حواس میں ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انہوں نے کسی سبب‘ کسی بنیاد کے بغیر اتنا بڑا دعویٰ کر دیا ہو! اس کا ایک مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ متعلقہ حلقے‘ وزیر اعظم کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پنجاب کا معاملہ اطمینان بخش نہیں!

حضور! اس کا کچھ کیجیے اس سے پہلے کہ چڑیاں کھیت چُگ جائیں! جو حضرات یہ نتیجہ نکال کر فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ داد وصول کرنے کے لیے دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں کہ نون لیگ بالآخر اپنے بیانیے سے منحرف ہو کر اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو گئی ہے‘ وہ یقینا غلط فہمی کا شکار ہیں!

تردید تردید کا کھیل اس ملک میں عام ہے۔ ایک فِیلر چھوڑا جاتا ہے‘ ایک حقیقت کا کچھ حصہ منکشف کیا جاتا ہے۔ پھر ردِ عمل کو غور سے دیکھا اور جانچا جاتا ہے۔ اگر بات نہ بنے تو تردید کر دی جاتی ہے۔ یا کہا جاتا ہے کہ بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔

پنجاب کا بہت بڑا دھڑ اِس وقت بغیر سر کے ہے! پہلے بھی عرض کیا۔ بہت سوں نے اس کمزوری کی‘ اس سقم کی نشان دہی کی۔ مگر ؎ کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجیے تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں اور یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ احسن اقبال جمیل نے غیر مشروط معافی مانگ لی!

جیسے وہ لشکر لے کر زبردستی وزیر اعلیٰ کے گھر میں گُھسے تھے! خدا کے بندو! یا تو انہیں آنے کی دعوت دی گئی‘ یا وہ آئے تو انہیں اندر آنے کی اور سینئر پولیس افسروں سے بات چیت کرنے کی اجازت دی گئی۔ چیف منسٹر وہاں اس وقت موجود تھے! کیا ان کا کوئی قصور نہیں!

کیا کوئی جاندار وزیر اعلیٰ ایسا کر سکتا تھا؟

پنجاب کو سنبھالیے ! جناب وزیر اعظم! اس سے پہلے کہ چڑیاں چُگ جائیں کھیت! غلطی ہو گئی ہے تو اعتراف کرنے میں کوئی برائی نہیں! مزید نقصان سے تو بچ جائیں گے!!

بشکریہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).