پاکستان گونگا نہیں


اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔ لیکن سرکاری طور پر اس کو اپنانے کی کبھی بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ دنیا بھر میں چینی، انگریزی اور ہسپانوی کےبعد بول چال کی تعداد کے لہاظ سے اردو، ہندی دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔ جو پاکستان، ہندوستان، متحدہ عرب امارات اور انگلستان کے علاوہ دنیا کے کئی اور ممالک میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ماہرین لسانیات اردو اور ہندی کو بول چال کے لہذا سے ایک ہی زبان سمجھتے ہی۔ اگرچہ یہ دو مختلف قسم کے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ یہی حال پنجابی کا بھی ہے جو فارسی اور گورمکھی دونوں رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔

ہر ملک اور قوم کے لئے کچھ چیزیں انتہائی قابل فخر اور اس ملک و قوم کی پہچان ہوتی ہیں۔ جیسے ایک ملک کا جھنڈا، ایک ملک کا قومی ترانہ اور ایک ملک کی قومی زبان۔ با وقار قومیں ان چیزوں پر نہ صرف فخر کرتی ہیں، بلکہ ان کے تحفظ، ترقی، اور ترویج کا پورا پورا اہتمام کیا جاتا ہے۔

ابھی کچھ سال پہلے ہی فرانس میں ایک قانون پاس ہوا تھا کہ اگر کوئی شخص فرانسیسی زبان میں غیر ضروری طور پر انگریزی یا کسی اور بدیسی زبان کا کوئی لفظ استعمال کرے گا تو یہ جرم تصور ہو گا اور اس پر سزا بھی رکھی گئی تھی۔

پورے یورپ میں چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بھی ان کی اپنی قومی زبانیں ہیں۔ جن کے تحفظ اورترویج کا پورا پورا جیال رکھا جاتا ہے۔ وہاں اگر کوئی انگریزی زبان جانتا بھی ہو گا تو کوشش کرے گا کہ اظہار خیال قومی زبان میں ہی کرے۔ ہمارے پڑوسی عرب ملکوں اور ایران میں بھی یہی اہتمام ہے۔ وہاں تو آپ کو دوکانوں کے سائن بورڈ بھی ان کی قومی زبانوں کے علاوہ کسی زبان میں نظر نہیں آئیں گے۔ مشرق بعید اورایشیا کے زیادہ ترقی یافتہ ممالک جیسے جاپان، کوریا، ملائیشیا اور چین سب جگہ یہی حال ہے۔ ان سب قوموں نے جدید علوم کو اپنی زبانوں میں ڈھالا اور ترقی کی منازل طے کیں۔
صرف برصغیر پاک وہند میں ہی ایسا ہوا کہ سابقہ بدیسی آقاوں کی نشانیوں کو سینے سے لگا کر رکھا گیا۔ ان میں ان کے دیے گئے قوانین، طورطریقے، لباس اور ان کی زبان بھی شامل تھی۔ ہائے غلامی گئی پر خوئے غلامی نہ گئی۔

پاکستان میں ستر سال سے دفتری اور سرکاری سطح پر صرف انگریزی ہی کا راج ہے۔ افواج اور سول سروس میں بھی انگریزی زبان میں قابلیت کو ہی میعار مانا جاتا ہے۔ باقی صلاحیتوں کی حیثیت ثانوی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دنیا بھر کے علوم کو اردو زبان میں ڈھالا جاتا۔ اور اعلیٰ فنون اور مہارتیں اپنی زبان میں ترجمہ کر کے ان سے نئی پود کو جوہر تعلیم سےآراستہ کیا جاتا۔ مگر بد قسمتی سے اس کے الٹ ہوا۔ اعلیٰ ثانوی تعلیم تک انگریزی زبان کی لازمی تعلیم کا بے مقصد اور غیر ضروری قانون لاگو رکھا گیا۔ جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ دیگر علوم میں قابلیت رکھنے والے طلباء لازمی انگریزی زبان میں ناکام ہو کر تعلیمی دھارے سے نکلتے چلے گئے۔ اور اس طرح ستر فیصد نوجوان نسل پر ہم نے اعلیٰ تعلیم کے دروازے ہی بند کر دیے۔

اس سب سے بھی زیادہ افسوسناک کام یہ ہوا کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی قومی شناخت کو پس پشت ڈال کر انگریزی زبان میں اظہار خیال کو وطیرہ بنا لیا۔ وہ چاہے غیر ملکی سربراہان سے تبادلہ خیال ہو، اندرون ملک کوئی تقریب ہو“ یا کوئی بین الاقوامی فورم۔ ہر جگہ اپنی الٹی سیدھی انگریزی سے دنیا کو رام کرنے میں لگے رہے۔ سابقہ وزیراعظم میاں نواز شریف تو اسی مجبوری کی وجہ سے صرف پرچیوں کے محتاج ہو کر رہ گئے تھے۔ جب بھی کسی بھی فورم پر ان کے اظہار خیال کا موقع آتا تو یہ اپنی جیبیں ٹٹولنے لگ جاتے، ان کے پسینے چھوٹ جاتے، سخت کنفیوز ہو جاتے، اور اگر فی البدیہہ کچھ کہنا پڑتا تو یہ اس وقت منہہ میں گھنگھنیاں ڈال کر خاموش ہوجاتے۔ اور اس پر ستم یہ کہ انہوں نے وزیر خارجہ کا قلمدان بھی اپنے پاس ہی رکھا ہوا تھا۔ ان کی اس خاموش سفارت کاری نے پوری دنیا میں پاکستان کو تنہا کر دیا تھا۔

ترک وزیراعظم جناب رجب طیب اردگان اور ترک وزیر خارجہ کئی بار پاکستان آئے ایک بار تو جناب رجب طیب نے پاکستانی پارلیمان سے خطاب بھی کیا لیکن ترکی زبان میں۔ یہاں پاکستان میں کتنے لوگ ترکی جانتے ہیں؟
لیکن یہ ان کا مسئلہ نہیں تھا کہ یہاں کوئی ترکی جانتا ہے یا نہیں۔ ہاں انہیںں ضرور معلوم تھا کہ ترک قوم اپنی زبان اور شناخت رکھتی ہے۔

اسرائیل کی قومی زبان عبرانی(hebrew)ہے۔ دنیابھر میں ڈیڑھ کروڑ یہودی ہیں اور ان میں سے بھی صرف نوے لاکھ یہ زبان جانتے ہیں۔ اسرائیل کی اپنی آبادی 84 لاکھ ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم جب بھی امریکہ ’اقوام متحدہ یا کسی بھی دوسرے فورم پر دنیا سے مخاطب ہوتے ہیں تو صرف عبرانی زبان میں ہی بات کرتے ہیں، چاہے امریکی صدر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس ہی کیوں نہ ہو۔

چین کے انقلابی رہنما ماؤزے تنگ چینی زبان کے علاوہ انگریزی، فرانسیس، روسی اور دیگر کئی زبانیں جانتے تھے۔ ایک بار ایک غیر ملکی وفد ملاقات کو آیا اور وفد کے سربراہ نے رسمی بات چیت کے دوران انگریزی زبان میں ایک لطیفہ سنایا۔ ماؤ خاموش رہے۔ جب مترجم نے اس انگریزی لطیفے کو چینی زبان میں ترجمہ کر کے سنایا تو ماؤ نے قہقہہ لگایا۔ بعد میں کسی نے ماؤ سے پوچھا کہ آپ کو تو انگریزی زبان پر عبور ہے تو آپ اس لطیفے پر ہنسے کیوں نہیں۔ تو ماؤ نے کہا، میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ، چین گونگا نہیں۔

دیر سے ہی سہی لیکن آزادی کے ستر سال کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران قومی زبان اردو میں اظہار خیال کیا، تو بہت خوشی ہوئی۔ اس بحث سے قطع نظر کہ ان کا دورہ کتنا کامیاب رہا۔ یہ بات بجائے خود قابل فخر ہے۔ اور وزیر خارجہ کا یہ اقدام قابل تحسین ہے اور امید ہے ہمارے وزیراعظم بھی اس روایت کو جاری رکھیں گے۔ کیونکہ یہ قومی وقار کا معاملہ ہے۔ اب ہم بھی فخر سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ”پاکستان گونگا نہیں“

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).