سندھ اور ڈیم


دنیا کا بڑا دریا جہاں شاہکار انڈس سِولائیزیشن کا آغاز ہوا تھا یہ وہ سندھو ندی ہے جس کے کنارے پر دھرتی کی پہلی کتاب رگ وید لکھی گئی تھی۔ وہ دریائے سندھ ہے جس کی موج و مستی کو دیکھ کر زمانے نے اسے مختلف ناموں سے پکارہ کبھی مہرا، کبھی مہران تو کبھی بادشاہ دریا کے نام سے منسوب کیا۔ ایک دور وہ بھی تھا جب ندی میں تیرتی کشتیاں تتلیوں کی مانند لگتی تھی، جب رات کو چمکتا آسمان ستاورں سے ندی کی مانگ بھرنے کی ناکام کوشش کرتا تھا۔ جہاں چاند کی پرچھائیں لہروں پر رقص میں مُحو ہوا کرتی تھیں، لیکن دھرتی سے 384400 کلومیٹر دور چاند بھی دریا کی
دہشت سے لرزتا تھا۔ جب کئی اقسام کی مچھلیاں اور حشرات الرض دریائے سندھ کو اپنی کُل کائینات سمجھا کرتے تھے اور مچھیرے مچھلیوں سے بھرے جال کے ساتھ گھر لوٹتے تھے، انتظار میں بیٹھی سہاگنوں کی خمار آلود آنکھیں دریا کے دو کناروں سے مشابہت رکھتیں جہاں مچھیروں کی کشتیاں بھی ڈوبنے سے نا بچ سکتی تھیں۔

لیکن آج کوٹڑی کے نچلے حصے پر سندھو دریا کے پیٹ پر مست لہروں کی جگہہ ریت کا کھیل جاری ہے جو سندھ کے ہر اس باسی کی آنکھوں میں گرتی اور کوفت پیدا کرتی ہے جس کے ہر خلیے میں سندھو کا جل پلازما بن کر جسم کے کونے کونے میں پھیلا ہوا ہے۔

آج سوکھے دریا اور بین کرتے سندھ کا ذمہ دار کون ہے؟
کہیں میہار تو نہیں؟
جس نے دریا کو بددعا دی تھی اور کہا تھا کہ تم نے میری محبوب سوہنی کو ڈبویا ہے میں بروز قیامت تم سے حساب لوں گا۔ جسے شاہ عبدالطیف بھٹائی (رح) نے کچھ یوں بیان کیا ہے؛

تو ڪئین ٻوڙی سھڻی، ٻیلی منھجی ٻانھن
دریاھ توتی دانھن، ڏیندس ڏینھن قیام جی۔

یا اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے چشمہ جہلم لنک کنال اور تونسا بیراج کھولا اور یہ بیان کیا کہ ہم سیلاب آنے کی صورت میں ہی کنال کھولیں گے ورنہ ہر صورت میں بند رکھیں گے لیکن آج تک آٹھ کروڑ سندھیوں کے ساتھ ڈاکہ زنی کر کے بہاتے رہے ہیں۔ یا وہ جنہوں نے منگلا اور پھر 1968 عیسوی میں تربیلا ڈیم بنایا جس کے بعد کوٹری کے نچلے حصے پر پانے بہنا بند ہو گیا !

کون ذمہ دار ہے کھارو چھاں، کیٹی بندر، گھوڑا باری اور بدین کی ساحلی پٹی کی تباہی کا جہاں زندگی اب لقمہ اجل بن گئی ہے۔ 2008 کی ایک نجی رپورٹ کے مطابق سندھ کی 12 لاکھ ایکڑ زمین بنجر ہو گئی ہے انڈس ڈیلٹا متاثر ہونے کے باعث سمندر روز 80 ایکڑ زمیں نگل رہا ہے۔ کیٹی بندر اور کھاروچھاں کی پھلتی پھولتی آبادی کی جگہ آج سمندر نے پانی کا ڈیرہ ڈالا ہوا ہے۔ کون ذمہ دار ہے کہ آج سانگھڑ، عمرکوٹ، بدین سمیت سندھ کے کئی اضلاع پینے کے پانی تک کو بھی ترس رہے ہیں !

آپ کہتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم سے سستی بجلی مہیا کریں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ان کروڑں لوگوں کا ایک میت کو غسل اور زندہ کو پینے کے لیے پانی کا ایک گھونٹ بھی میسر نہیں ہوگا تب گھر میں بلب جلا کر آنے والی نسلوں کو کس پیغام سے آشنا کرو گے؟

آپ نے تو نیشنل انسٹیٹوٹ آف اوشیونوگرافی کی اس رپورٹ پر ذرہ برابر بھی غور کرنے کا تکلف نہیں کیا جس کے مطابق، آنے والے 30 سالوں میں بدین، سجاول اور ٹھٹہ نہیں رہیں گے اور آئندہ 60 سالوں بعد کراچی کو بھی سمندر نگل جائے گا جس پر 2015 کی سینیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی آن سائنیس اینڈ ٹیکنالوجی نے کراچی، بدین، ٹھٹہ اور سجاول کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے وزیراعظم پاکستان کو خط بھی لکھا تھا۔ اب تک 25لاکھ ایکڑ بنجر سندھ کی زمین، سوکھی نہریں، نقل مکانی کرتے لوگ، بھیک مانگتے بچے اور خودکشی کرتی ماؤں پر ترس کھانے کے بجائے کیسے سوچ لیا کہ دریائے سندھ پر کالاباغ اور دیامر بھاشا ڈیم بنائے جائیں؟

1901 سے لے کر اب تک پانی کی منصفانہ تقسیم پر بنائے گئے کمیشن اور قوانین جس میں انڈیا ایریگیشن کمیشن، کاٹن کمیٹی، راوء کمیشن، 1991 میں ارسا اور پانی کے ان تمام عالمی قوانین کی سیکڑوں بار دھجیاں اڑانے والے بازو اتنے لمبے ہیں جنہیں آج تک عدالتی یا غیر عدالتی کٹہرے میں کھڑا کرنا کیوں ناممکن رہا ہے؟ پانی کے عالمی قوانین کے مطابق ریاست میں موجود دریاؤں پر ہر ایک صوبے کا حق یکساں ہوتا پھر کیوں سندھ کو جہلم سمیت باقی دریاؤں سے پانی نہیں دیا گیا؟

کیوں ہم نے (IUCN) انٹرنیشنل یونین کنزرویشن آف نیچر کی اس رپورٹ کو بھی ردی بنا دیا جس نے صاف الفاظوں میں کہا کہ کوٹری کے نچلے حصے پر 35 ملیں ایکڑ فوٹ پانی چھوڑا جائے تا کہ دنیا کے ساتویں بڑے انڈس ڈیلٹا اور انڈس ایکوسسٹم کو بچایا جا سکے۔ جہاں دنیا سے آئے کئی اقسام کے پرندے ڈیرے ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے جنگل کا وجود برقرار ہے اور سندھ میں موجود میٹھی جھیلیں جس میں منچھر، کینجھر، ہالیجی، حمل، چوٹیاری اور کئی چھوٹی چھوٹی جھیلوں کو مزید زہر ہونے سے روکا جا سکے۔ لیکن ایک تھر بھی تو ہے جہاں ہزاروں مائیں بچوں کو گھروں میں چھوڑ کر میلوں دور کنووں سے پانی بھرنے جاتیں ہیں اور خشک سالی میں اپنہ گاؤں چھوڑ کر سندھ کے باقی شہروں میں اپنی جوان بیٹیوں سمیت مزدوری کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتیں پھرتی ہیں۔ کیا تھر اس دھرتی کا حصہ نہیں ہے؟ جو بجائے کسی ڈیم کے تھر میں بھی پانی کا کنال پہنچایا جا سکے؟

اگر یہ ہی روش برقرار رہی تو جلد ہی ہم تاریخ کا باب بن جائیں، شاید پھر آنے والی نسلوں کو پلو مچھلی اور انڈس ڈولفن کتابوں میں پڑھنے کو ملے۔ سندھ کے باسی دریائے سندھ کو صرف روایتی دریا نہیں کہتے سندھو ماتا/ماں کہہ کر پکارتے ہیں اور دنیا کا کوئی بھی مذہب، عقیدہ اور فلسفہ ماں کی سودے بازی کرنے پر ہر گز اتفاق نہیں کرتا۔

علی بابا نے انڈس ویلی کے باسیوں کے دلوں کی ترجمانی کچھ اس طرح کی ہے۔
اُتّر سے چلی رے ہوا
گھنگھور گھٹا بنی رے ہوا
مٹی کے گھروندوں جیسے
دل دکھیارے ہمارے
پھر بھی او میرے دریا
تجھ ہی سے میرا روٹھنا
تجھ ہی سے میرا جینا
تو ہی میرا بندھن
اُتّر سے چلی رے ہوا۔

ڈاکٹر دھرمیندر کولہی
Latest posts by ڈاکٹر دھرمیندر کولہی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).