ایک تھا کھلاڑی پر نکلا اناڑی۔



بطور نوجوان مجھے اس کھلاڑی سے حد سے زیادہ توقعات تھیں اور نہیں بھی؟ اور اسکی وجہ یہ کہ خیبر پختونخواہ میں ہم اس کھلاڑی کی ٹیم کی تبدیلی دیکھ چکے جس چیز پر داد دینی تھی دی لیکن خامیاں بھی خاکسار پچھلی تحریروں میں دوران اقتدار واضح کرتا رہا کسی نے ان پر خاص توجہ دی اور نہ کوئی عمل البتہ محض برائے نام اور وہ بھی کچھ حد تک تبدیلی دیکھنے کو ملی وہ درحقیقت آنکھوں کا ایک فریب تھا۔ ان کھلاڑیوں کی طرف سے جو دعوے کیئے گئے وہ اپنے صوبائی اقتدار میں تیس فیصد بھی سچ ثابت نہ کر پائے لیکن چونکہ عام لوگوں کو تبدیلی کے دھوکے میں رکھا گیا تھا تو سادہ لوح عوام اسے نہیں سمجھ پائے اور ایک بار پھر انہیں اقتدار کا موقع فراہم کردیا خیر اس کی حقیقت پر بحث پھر کبھی۔ پاکستان تحریک انصاف کو نوجوانوں کی جماعت قرار دینے والی قیادت اپنی جماعت میں ایک نوجوان بھی ایسا نہیں لاسکے جو کسی پسماندہ یا غریب خاندان سے ہو؟ بلکہ سب کے سب وہی پرانے سردار، وڈیرے، تاجران اور دوسری سیاسی جماعتوں کے لوٹے جو ہر بار اقتدار کی بو سونگ کر اپنا رخ بدل لیتے ہیں ادوار ماضی میں اعلی عہدوں پر فائز کرپشن زدہ سیاستدان جن پر خود ہمارے کھلاڑی نے بھی الزامات کی بوچھاڑ کی تھی کو یوٹرن لیتے ہوئے سفر اقتدار کی جانب رواں دواں گاڑی میں جگہ دے کر تھوک کر چاٹنے والی مثال کو سچ ثابت کردیکھایا۔

ان کی تبدیلی یہ کہ وہ نوجوانوں کو دوسری جماعتوں کی طرح اپنی جماعت میں لاکر ان کند ذہنوں کی صلاحتیوں کو مثبت کاموں کے بجائے انہیں ناصرف سیاسی مخالفین بلکہ ثبوت سمیت خبر دینے والے صحافیوں اور خلاف رائے ہونی والی آراء سمیت ناقدین کو دبانے کیلئے تضحیک آمیز مہم جوئی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جس سے دلیل و آداب گفتگو کو ملحوظ خاطر لائے بغیر بس تنقید برائے تنقید کا کلچر پروان چڑھایا جارہا ہے جو انتہائی شرمناک فعل ہے۔ لیکن عقل کے اندھے یہ بات بھی ہمیشہ ذہن نشین کرلیں کے وہ وقت بھی دور نہیں جب یہی کچھ دوبارہ انہی کی طرف لوٹنے والا ھے، کیوں کہ انسان جو فصل بوتا ہے پھر وہی کاٹتا بھی ہے۔ اب تبدیلی آگئی ہے تو نئے پاکستان میں محسوس یہی ہورہا ہے کہ سب کچھ الٹ ہوگا۔ نئے پاکستان کی نئی حکومت پر تنقید کرنے والے تجزیہ نگاروں کو چھوڑا جائے گا اور نہ ہی کسی ایسے صحافی و میڈیا ادارے کو جو حکومت کی شیان شان کے برخلاف چیزیں رپورٹ کریگا بھلے وہ خبریں سو فیصد سچی اور ٹھوس ثبوت کی بنیاد پر ہی کیوں نا ہوں۔ مجھے تو فکر لاحق ہوگئی ہے کہ کیا اب شعبہ صحافت میں صرف وہی حقیقی صحافت کرپائے گا جسکی ماں، بہن بیٹیاں نہیں ہوگی یا پھر گالم گلوچ پر کمپرومائز کرلے گا کیونکہ یہ نیا پاکستان ہے اور اس میں اب سب کچھ نیا ہوگا۔۔؟ شائد وہ جو آپ کے تصور میں بھی نہیں۔

گزشتہ دنوں جناب وزیراعظم عمران آحمد خان نیازی کی اہلیہ بشرا بی بی کے سابقہ شوہر خاور مانیکا کو پولیس اہلکاروں نے تیز رفتاری کے باعث ناکے پر روک لیا تھا چونکہ ریاست مدینہ کے طرز حکومت والے لوگ اقتدار میں آچکے تھے تو پولیس کی طرف سے اسی دن سے قانون کی بالاستی اور آئین سب کیلئے برابر ہوگیا تھا جبکہ کسی بااثر شخص کے خلاف کارروائی عمل میں لائے جاویگی تو جب یہ سب اقتدار کے ایوانوں میں جا پہنچے گا تو شائد حکومت کی طرف سے ایسے اہلکاروں کو بہترین کارکردگی پر بےشمار انعامات سے نوازا جائے گا۔ پر کیا خبر تھی کہ واقعی وزیراعلی پنجاب طلب کرکے باعزت طریقے سے ناصرف بے عزت کروائیں گے بلکہ خاور مانیکا کی رہائشگاہ پر جاکر معافی مانگنے کا فرمان بھی صادر کردینگے لیکن ڈی پی او پاکپتن شائد کچھ زیادہ ڈھیٹ شخص تھا جو اس نے ڈٹھائی دکھائی اور معافی مانگنے کے بجائے کھری کھری سنا دی۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ خاتون اول کے سابقہ شوہر ‏خاور کے دبائو پر ایک ڈی پی او کو غیر مہذب اور گھٹیا انداز سے عہدے سے ہٹایا گیا۔ یہ نہ صرف تحریک انصاف نے خود کے منشور کی خلاف ورزی کی تھی بلکہ سپریم کورٹ کے انیتا تراب کیس میں سنائے گئے فیصلے کی بھی کھلا کھلم خلاف ورزی کی۔۔!

خاکسار عرصہ دراز سے وڈیرہ شاہی کے خلاف سرگرم عمل ہے اس موذی مرض کیخلاف متعدد تحریریں بھی لکھ چکا لیکن جب اس وقت میرے علم میں یہ آیا کہ سردار عثمان بزدار جو تونسہ شریف سے تعلق رکھتے ہیں کو وزیراعلی پنجاب بنایا جارہا ہے تو اسی وقت بھی کہا تھا یہ انتہائی غلط فیصلہ ہے۔ اور آپ تبدیلی کے نام پر عوام سے دھوکہ کررہے ہو ایسے لوگوں سے چھٹکارا پانے کیلئے تو کھلاڑی کو ووٹ دیا گیا پر افسوس کہ یہ سب ان توقعات کے برعکس ہوتا دکھائی دیا چونکہ میرا آبائی گاٶں بھی جنوبی خیبر پختون خواہ میں جنوبی پنجاب کے شمال میں واقع ہے جس کے سبب تونسہ شریف میرے قریب واقع پڑتا ہے۔ اور میں جانتا ہوں کہ یہاں کے لوگوں میں جو پسماندگی ہے اسکے پیچھے انہی سرداروں و وڈیروں کا ہاتھ ہے انہی وڈیروں نے لوگوں کو تعلیم سمیت بےشمار سہولیات سے محروم رکھا ہوا ہے اور خود اسی عوام کے ووٹ سے بےشمار مراعات کے مزے لوٹتے ہیں۔ ان علاقوں میں وڈیروں کی ظالمانہ درجنوں ایسی داستانیں موجود ہیں جنہیں سن اور دیکھ کر آپ کے ہوش اڑ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ ایک وڈیرے خاندان سے تعلق رکھنے والے کو وزیراعلی بنائیں تو وہ ماتحت افسر کو بلا اپنی وڈیرہ شاہی ہی دکھائے گا اور بااثر شخص سے معافی منگوانے کی کوشش بھی کریگا۔

یہ وہی تحریک انصاف ہے جس کے چیئرمین جناب عمران خان نے ایک نجی ٹی وی پروگرام میں شیخ رشید کیساتھ بیٹھ کر کہا تھا کہ اللہ مجھے وہ وقت بھی نہ دے کہ میں اس جیسے بندے کو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں؟ علاوہ ازیں یہ بھی کہا کہ جب میں وزیراعظم بن گیا تو وزیراعظم ہاوس میں نہیں رہونگا؟ اور سرکاری پروٹول بھی نہیں لونگا جس سے عام شہریوں کو تکلیف نہ ہو؟ جبکہ سب کچھ ابھی تک اسکے الٹ کیا جارہا ہے۔ جیسا کہ پہلے ہوتا آیا ہے پرویز مشرف کے خلاف بولے مگر انہی کے ساتھی شیخ رشید جسے چپڑاسی تک نہ رکھنے کا کہا گیا تھا کو ہمارے لاڈلے کھلاڑی نے خود کا دست راست بنادیا اور تو اور وہ وزیر ریلوے جیسے اہم منصب پر براجمان بھی ہوگئے۔ سرکاری پروٹوکول نہ لینے کے وعدے کرنے والے پانچ منٹ کی دوری پر سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرنے لگے حتیٰ کہ آئین پاکستان کا تختہ الٹنے والے آمر پرویز مشرف کے وکیل فرغ نسیم کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیر قانون بنادیا گیا۔ بلکہ اس نئی حکومت نے مشرف کابینہ کو کچھ ردوبدل کیساتھ مشرف کابینہ سیکوئل2 بنادیا۔ اور بےچارے شیرو کے علاوہ باقی تمام ساتھیوں کی یاری دوستیوں کا قرض نبھاتے ہوئے دوسرے ممالک کی شہریت تک رکھنے والوں کو بھی وزیر مملکت بنادیا۔ اس سے قبل دور آمریت میں جنرل پرویز مشرف نے شوکت عزیز کو وزارت سونپی تھی۔

سو روزہ پلان کے تحت تبدیلی کا خواب دکھانے والوں کی تیس روزہ کاردگی ہئ دیکھ لی جائے تو لگتا تو نہیں ہے کہ ریاست مدینہ بنانے والے پرانے اور نئے پاکستان میں کوئی واضح فرق دکھا پائیں گے لیکن پھر بھی عاجزانہ مفت مشورہ دے ہی دیتا ہوں جس عزم کیلئے جناب نے مسلسل 22 سال جدوجہد کی ہے خدارا خوشامدیوں کے نرغے میں آکر اسے 22 دنوں میں برباد نہ کریں۔ خود میں تحمل و برداشت لانے کیساتھ ساتھ فلحال خود پسندی بھی ترک کردیں۔ اس وقت آپ اقتدار میں ہیں لہذا اپنے ماتحت لوگوں پر چیک اینڈ بیلنس بنائے رکھیں تاکہ کسی میں غلط کام کرنے کی جرآت نہ ہو۔ باصلاحیت لوگوں کو خدمت کا موقع دیں۔ باتیں کم اور کام زیادہ کریں، اگر مخالفین کو لاجواب کرنا چاہتے ہو تو اچھے اچھے کام اور جہاں جہاں غلط لوگ ہیں انکے خلاف ثبوت کی بناپر قانونی کاروائی کرکے عام عوام کو اپنے عمل سے بتائیں کے یہ ہے اصل تبدیلی اور میں ہوں کھلاڑی۔ باقی ہماری طرف سے اچھے کام پر ضرور تعریف ہوگی مگر ایسی غلط پالیسز جو ایک ماہ بعد بھی سنبھل نہ پائیں پر تنقید برائے اصلاح ہوگی کیونکہ حقیقی صحافت معاشرے کی آنکھ اور اس شیشے کی مانند ہے جس میں جو جیسا ہوتا ہے وہ ویسا ہی دکھتا ہے۔ اور اب تک تو ہمارے کھلاڑی اپنے فیصلوں سے خودی کے ہاتھوں اناڑی دکھائی دیتے ہیں لیکن پھر بھی ہماری دعا ہے کہ یہ کھلاڑی اپنے سارے کیئے گئے دعووں پر کھرے ثابت ہوں اور وہ کچھ کر دکھائیں جن مسائل کا ذکر وہ ماضی کی حکومت پر تنقید کرکے کرتے رہے، مثلا کرپشن، اداروں میں سیاسی مداخلت، بے روزگاری، وڈیراشاہی کیساتھ ساتھ ان تمام مسائل سے ہمیں نجات دلا دیں جن میں وطن عزیز گھرا ہوا ہے۔ ورنہ پھر ہم تو یہیں کہیں گے کہ ایک تھا کھلاڑی جو نکلا اناڑی۔

ملک رمضان اسراء

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملک رمضان اسراء

ملک رمضان اسراء مصنف معروف صحافی و قلم کار ہیں۔ انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز سے وابسطہ ہیں جبکہ دنیا نیوز، ایکسپریس، ہم سب سمیت مخلتف قومی اخبارات کےلیے کالم/بلاگ لکھتے ہیں اور ہمہ وقت جمہوریت کی بقاء اور آزادئ صحافت کےلیے سرگرم رہتے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی اے ماس کیمونی کیشن کررہے ہیں۔ ان سے ٹوئٹر اور فیس بُک آئی ڈی اور ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتاہے۔ malikramzanisra@yahoo.com

malik-ramzan-isra has 18 posts and counting.See all posts by malik-ramzan-isra