معیشت کی “شاک تھراپی”: سوویت یونین سے پاکستان تک


کوئی تین عشرے پہلے کی بات ہے ایک نابغہ ماہر معاشیات ہوا کرتے تھے۔ نام ان کا تھا یاوگور گائیدر ( گائیدر تاتار زبان میں حیدر کا متبادل ہے )۔ انہوں نے ہی روس میں کمیونسٹ معیشت کی بیخ کنی کرنے کا ڈول ڈالا تھا۔ اس عمل کا بیڑہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے روس کی تمام صنعتوں کو یونٹس میں بانٹ کر یونٹس پر مبنی کوپن بنائے تھے جو ملک بھر کی بالغ آبادی میں تقریبا” برابر تقسیم کرکے سبھوں کو صنعتوں میں حصہ دار بنا کر صنعتیں سرکاری تحویل سے نکال دی تھیں۔ اس کے بعد کس نے کیسے لوگوں سے اونے پونے کوپن خریدے اور کس طرح چند لوگ انتہائی امیر ہو کر اولیگارک کہلائے یہ علیحدہ قصہ ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے اپنے ایک اور ماہر معاشیات ساتھی اناطولی چوبائس، جو تب سے اب تک حکومتوں کا حصہ ہیں اور اب بھی روسی نینو ٹکنالوجی کارپوریشن کے سربراہ ہیں، کے ساتھ مل کر معیشت کو سرعت کے ساتھ زیادہ سرمایہ دارانہ بنانے کی غرض سے ایک اصطلاح ” شاک تھراپی” نہ صرف استعمال کی تھی بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کیا تھا۔ اس ضمن میں اشیائے صرف کی قیمتیں اور خدمات کے معاوضے یکدم بڑھا دیے گئے تھے۔ یوں لوگوں کو جھٹکے سے صدمہ پہنچا کر انہیں دوسری طرز معیشت کا عادی بنانے کا طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔

اس وقت پاکستان کی نئی حکومت جو “تحریک انصاف” کی حکومت ہے، شاک تھراپی کی اصطلاح استعمال کیے بنا اس پر عمل درآمد کروا کر لوگوں کو ٹریفک قوانین کا پابند بنانے یا قرض کی غرض سے کسی عالمی ادارے جیسے آئی ایم ایف سے حکومت کے رجوع کئے جانے پر چپ رہنے کے لیے تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

آپ کو سوشل میڈیا پر کہیں کوئی داڑھی والا شخص پھٹی قمیص اتارے ٹریفک وارڈنز کو گالیاں دیتے ہوئے خود کشی کرنے کو نہر میں کودنے کی دھمکی دیتے دکھائی دیتا ہے تو کہیں کوئی اپنی موٹر سائیکل تو کوئی اپنے رکشہ کو نذر آتش کرکے غائب ہوتا معلوم ہوتا ہے۔ کچھ لوگ خاص طور پر نوجوان صحافی بغیر ہیلمٹ کے موٹر سائیکل پر سوار ہونے کی پاداش میں ٹریفک وارڈنز کی جانب سے اپنی وڈیو بنا کر جاری کیے جانے پر سیخ پا ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور تو اور ایک ٹی وی شو کی سنجیدہ اینکر پرسن اپنے گھر میں گیس کا بل 2200 روپے کی بجائے آٹھ ہزار روپے آ جانے کا گلہ کرتی سنائی دیتی ہے۔

اقتصادی شاک تھراپی شروع کرنے کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ لوگ پہلے سے ہی اقتصادی مسائل کی وجہ سے سناٹے میں آئے ہوئے راضی بہ رضا ہوئے محسوس ہوں۔ جیسے جب روس میں یہ علاج شروع کیا گیا تو دکانیں خالی تھیں۔ ملازمتیں تو تھیں مگر تنخواہیں ویسی ہی معمولی تھیں جو سرمایہ داری دور سے پہلے ہوتی تھیں۔ اگر کچھ دستیاب بھی تھا تو بہت گراں۔ امراء ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ جو خفیہ امیر تھے وہ دوسرے ملکوں میں چلے جا سکتے تھے۔ غرض پریشانی کا سناٹا تقریبا” سبھی کے لیے تھا۔ ہر شخص ہر چیز بیچ رہا تھا۔ ایٹم بم نہیں بیچ سکتا تھا تو ایٹم بم سے کچھ کم کچھ نہ کچھ بیچنے کی سعی کر رہا تھا۔ پنشن یافتہ بوڑھے اور بوڑھیاں اور نہیں تو ایک آدھی بند گوبھی، گھر کے چمچے اور چھلنیاں تک بیچنے کو سڑک پر کھڑے ہوتے تھے۔ لڑکے غنڈے اور لڑکیاں طوائفیں بن کر کمانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یعنی ایک طرح سے ہلکی پھلکی طوائف الملوکی کا عالم تھا۔

جیتے جاگتے عوام کو ہزار دو ہزار روپے کا غیر معیاری اور غیر آرام دہ ہیلمٹ خریدنے پر مجبور کرنے کی خاطر ٹریفک کے جرمانوں کا سینکڑوں سے ہزاروں میں پہنچایا جانا مناسب ہے ہی نہیں۔ ایسا کیا جانا اگر موٹر سائکلیں اور سیکنڈ ہینڈ کاریں استعمال کرنے والے نچلے اور وسطی درمیانہ طبقے کے لوگوں کو متحد نہیں کر سکے گا تو انہیں احتجاجاً اپنی منقولہ جائیداد سے جو واحد جائیداد بھی ہو سکتی ہے، سے ہاتھ دھونے سے نہیں روک سکے گا۔

اس طرح کے طریقے اختیار کرنے کے لیے پہلے آگاہی مہم چلائی جاتی ہے پھر تنبیہی انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ اس دوران کچھ مدت جو کم از کم تین ماہ تو ہونی چاہیے ذہنی اور عملی طور پر تیار ہونے کے لیے دی جاتی ہے جس کے بعد قانون کی پابندی شروع کیا جانا لوگوں کے لیے صدمہ یعنی شاک نہیں ہوتا۔

آپ اس طرح سے شاک تھراپی کریں گے تو بہت زیادہ لوگ گیس اور بجلی کے بڑھے ہوئے بل ادا کرنے سے قاصر ہونگے۔ یوں حکومت کی آمدنی بڑھنے کی بجائے کم اور پھر کم سے کم تر ہوگی۔ عدم ادائیگی کی ایک مخصوص مدت تمام ہونے کے بعد اگر آپ نادہندگان کے گیس اور بجلی کے کنکشن منقطع کریں گے تو جہاں ایک طرف آمدنی بہر طور کم ہوگی وہاں لوگوں کا غم و غصہ بھی بڑھے گا اور تب تک لوگوں کے مختلف حلقے اپنی رنجشوں کے حوالے سے متحد بھی ہو چکے ہونگے اور ان متحد جتھوں کو استعمال کرنے کا موقع حکومت مخالف سیاسی پارٹیاں ہاتھ سے جانے بھی نہیں دیں گی۔ یوں حکومت کے خلاف ایک ٹھیک ٹھاک تحریک شروع کیا جانا آسان ہو جائے گا۔
ہیلمٹ استعمال کیا جانا اور ٹریفک کے دوسرے قوانین کا پابند ہونا نہ صرف اچھا ہوتا ہے بلکہ لازمی بھی ہونا چاہیے مگر وہ جو کہتے ہیں کہ “زبردستی محبت نہیں کروائی جا سکتی” اسی طرح زبردستی لوگوں کو کسی بھی عمل کا پابند نہیں بنایا جا سکتا۔

فوری طور پر تو ٹریفک وارڈنز بھی مستعد ہیں اور لوگ بھی رنجیدہ مگر چاہے ٹریفک قوانین پر عمل کروانے والے ہوں یا ان پر عمل کرنے یا نہ کرنے والے، ہیں تو سبھی ایک ہی معاشرے سے جس کی تربیت کرنے میں سالوں چاہییں اور وہ بھی اس صورت میں اگر لوگوں کو تعلیم دی جائے اور ان کی زندگیاں بہتر کی جائیں بصورت دیگر یہ کار دارد ہے۔ ہم سب اکٹھے ایک دم کی مانند ہی تو ہیں جسے سختی کے پائپ میں اگر یونہی سالہا سال بھی رکھ کے نکالو گے تو نتیجہ وہی ہوگا جو محاورے کے مطابق ہوتا ہے۔ ہمیں انسان بننا ہوگا جن کی دم نہ ہو بلکہ جن کا دماغ ہو جو سوچ سکیں کہ کس مناسب پارٹی کو ووٹ دینا ہے جس کے رہنما جب اقتدار میں آئیں تو عاقلانہ پالیسیاں وضع کرکے ان کی جانب لوگوں کو راغب کریں، لیکن جیسے ہم جذباتی ہیں اور جس طرح جذبات کے تحت ہم اپنے لیے سیاسی پارٹیاں اور اپنے راہنما چنتے ہیں ویسے ہی وہ پارٹی اور اس کے راہنما بھی ہمارے ساتھ فوری جذباتی سلوک ہی کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).