گاندھی کا ہندوستان، جناح کا پاکستان


جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا یہ تھا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان ہمیشہ اقلیت میں رہیں گے اور ایک ہندو اکثریتی معاشرے میں انہیں کبھی وہ حقوق حاصل نہیں ہو سکیں گے جو اُن کا حق ہیں، وہ کبھی اسلامی شعائر کے مطابق آزادی کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزار سکیں گے، انہیں ہمیشہ اکثریت کا محکوم بن کر رہنا پڑے گا، مسلمانوں کی اپنی تاریخ، روایات اور تشخص ہے جو ہندوؤں سے یکسر جدا ہے سو یہ ممکن نہیں کہ متحدہ ہندوستان میں ان کا علیحدہ تشخص برقرار رہ سکے۔

اِس نظریے کو 1939 کی کانگریسی وزارتوں کے دور میں تقویت ملی جب ہندو اکثریتی حکومت قائم ہوئی اور مسلمانوں کو اندازہ ہوا کہ اگر ٹریلر ایسا ہے تو پوری فلم میں کیا ہوگا، سن 40 ء میں پاکستان کی قرارداد منظور کر لی گئی، سن 46 ء کے انتخابات ایک طر ح سے پاکستان کے حق میں ریفرنڈم ثابت ہوئے جب مسلم لیگ نے مسلمانوں کی نشستیں جیت لیں اور بالآخر سن 47 ء میں بٹوارہ ہو گیا، مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں آگئے باقی ہندوستان میں رہ گئے۔

گاندھی جی اور جناح صاحب کا خیال تھا کہ صرف زمین پر لکیر کھنچے گی اور باقی جو جہاں ہے وہیں رہے گے، اُنہیں یہ خوش گمانی تھی کہ پاکستان انڈیا کے تعلقات ایسے ہو ں گے جیسے امریکہ اور کینیڈا کے، سرحدیں کھلی ہوں گی اور دونوں ممالک کے شہری اسی آسانی کے ساتھ آ جا سکیں گے جیسے متحدہ ہندوستان میں آتے جاتے تھے۔ بد قسمتی سے ایسانہ ہو سکا، بٹوارے کے وقت فسادات پھوٹ پڑے جن میں لاکھوں افراد مارے گئے، قریباًڈیڑھ کروڑ لوگوں کو راتوں رات اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی، لاہور لاہور نہ رہا امرتسر امرتسر نہ رہا!

آج حال یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا ایک دوسرے کے بد ترین دشمن ہیں، ہمسایہ ہونے کے باوجود شہریوں کو بہت مشکل سے ویزا جاری کرتے ہیں، کوئی شریف آدمی واہگہ سے اپنی گاڑی پر سرحد پار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، آئے دن سرحدی جھڑپیں ہوتی ہیں اور ہر دو چار ماہ بعد تعلقات اِس نہج پر آ جاتے ہیں کہ لگتا ہے اب جنگ ہوئی کہ اب ہوئی۔ آزادی سے پہلے متحدہ ہندوستان کے لیڈران کا دعوی ٰ تھا کہ انڈیا ایک سیکولر ملک ہوگا جہاں مذہب کی بنیاد پر تعصب برتنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا، سن 46 ء میں جب انتخابات ہوئے تو اُس وقت مولانا ابولکلام آزاد کانگریس کے صدر تھے، یہ ایک قسم کا سیکو لرازم کا ثبوت تھا۔

ادھر جناح صاحب نے بھی اقلیتو ں کو یقین دلایا تھاکہ پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں برتی جائے گی، ہر شخص کو آزادی ہوگی کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق مندر، مسجد، گرجے، جہاں چاہے جا سکتا ہے، ریاست کسی کے مذہب میں کوئی دخل اندازی نہیں کرے گی، پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریہ ہوگا جہاں انصاف اور مساوات کے اصولوں پر آئین تشکیل دیا جائے گا۔ آج آزادی کے بہتّر برسوں بعد صورتحال یہ ہے کہ

بھارت پاکستان میں یہ آدرش زمین بوس ہو چکے ہیں، انڈیا میں آر ایس ایس کے غنڈے سرعام مسلمانوں کو ڈنڈے مار مار کر ہلاک کرتے ہیں اورطعنے دیتے ہیں کہ مسلمانوں نے اپنا علیحدہ ملک بنا لیا اب وہاں جاؤ انڈیا میں کیا کر رہے ہو! اِدھر پاکستان کے حالات بھی دگرگوں ہیں، اعلی عہدں پر براجمان افراد اپنی تقاریر میں ہندو مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں اوراُن کی تضحیک کرتے ہیں، قائد اعظم نے جب 11 اگست 1947 ء کی تقریر کی تھی تو اُس وقت آئین ساز اسمبلی میں بے شمار غیر مسلم تھے اورجوگندر ناتھ منڈل سپیکر تھے، مگر یہی جو گندر ناتھ منڈل بعد میں انڈیا چلے گئے اور جاتے ہوئے ایک خط لکھ گئے جو اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان پر ایک قسم کی چارج شیٹ ہے۔

یہ ساری مہا بھارت لکھنے کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ چار دن پہلے قائد اعظم کا جنم دن تھا، ہم نے جوش و خروش سے یہ دن منایا اور قائد کا شکریہ ادا کیا جن کی بدولت آج ہم بی جے پی کے چنگل سے آزاد ہیں جبکہ ہندوستان میں ہمارے مسلمان بھائی بہن آج اکثریت کا وہی جبر سہنے پر مجبور ہیں جس کی بنیاد پر ہندوستان تقسیم ہوا تھا۔ مگر کیا یہ تشکر کافی ہے؟ بے شک آج کا ہندوستان نہرو اور گاندھی کا ہندوستان نہیں ہے مگر کیا آج کا پاکستان جناح کا پاکستان ہے؟

انڈیا میں مسلمانوں کا تحفظ فقط سیکولر ازم سے ممکن ہے تو کیا یہی تحفظ ہمیں اپنی اقلیتوں کو نہیں دینا چاہیے جس کا وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا؟ قائد اعظم کی تقاریر ایسے بیانات سے بھری پڑی ہیں جن میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہوگا جہاں ایک دستوری حکومت ہوگی، پارلیمانی نظام ہوگا، آئین کی حاکمیت ہوگی، مسلح افواج اپنے حلف کی پابند ہوں گی، اظہار رائے کی آزادی ہوگی، ہر شخص کو رنگ، نسل، مذہب سے ماورا ہو کر برابری کے حقوق ملیں گے اوراقلیتوں کا تحفظ ہوگا، یعنی قائد کے ویژن کے مطابق آج پاکستان کو ناروے یا سویڈن کی طرح کی فلاحی مملکت ہونا چاہیے تھا جہاں فرد کو ہر قسم کی شخصی اور مذہبی آزادی حاصل ہے، اقلیتوں کو کوئی خوف نہیں، سوچ کی آزادی ہے اور معاشرہ انصاف کے اصولوں پر کھڑا ہے۔

جنہیں قائد کے اِس ویژن پر کوئی شبہ ہو وہ صرف دو کام کر لیں، ایک، قائد کا لائف سٹائل دیکھ لیں، قائد اعظم سوٹ پہنتے تھے، سگار پیتے تھے، انہوں نے کتے پال رکھے تھے، اپنی بمبئی کی رہائش گا ہ انہوں یورپئین طرز پرتعمیر کروائی تھی، انگریزی میں بات کرتے تھے، انگریزی میں لکھ کر تقریر کرتے تھے، سر تا پا مغربی اور سیکولر لائف سٹائل تھا، اُن کی ہمشیرہ فاطمہ جناح شٹل کاک برقع تو کیا سرے سے برقع ہی نہیں پہنتی تھیں ہاں دوپٹہ ضرور اوڑھتی تھیں۔

دوسرا، یہ دیکھ لیں کہ قائد اعظم کی زندگی میں پاکستان کس قسم کا تھا، جہاں تک میں نے پڑھا ہے اُس وقت کا پاکستان آج کے پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ماڈرن اور آزاد خیال تھا، دعوتوں میں شراب سرو کی جاتی تھی، لاہور اور کراچی میں نائٹ کلب تھے جہاں ڈانس کی محفلیں ہوتی تھیں، جناح صاحب نے کوئی مہ خانہ بند کیا نہ کسی نائٹ کلب پر تالا ڈلوایا، تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں یہ ’نیک‘ کام پاکستان بننے کے تیس برس بعد ہوا۔ بحث یہ نہیں کہ آج نائٹ کلب کھول دیے جائیں، سوال صرف یہ ہے کہ گاندھی کا ہندوستان تو سیکولر نہیں رہا تو کیا جناح کا پاکستان وہ رہا جس
کا تصور جناح نے دیا تھا؟

ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments