Happy Teacher’s Day


پاکستان سمیت دنیا بھر میں پانج آکتوبر کو اساتذہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ اس دن کے منانے کا اعلان سال 1994ع کو یونسیکو کی طرف سے ہوئا ، جو کہ اقوام متحدہ کا زیریں کام کرتی تنظیم ہے۔ اس دن منانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دنیا بھر میں موجود ان اساتذوں کو سراہایا جائے ، جنہوں نے اپنی ساری زندگی لوگوں کو پڑھانے میں صرف کردی ، اور اس کے ساتھ ہی استادوں کے اعلیٰ مرتبے کو خراج عقیدت ہیش کیا جائے ۔ ساتھ ہی اساتذہ کو پیش آنے والے مسائل کو بھی زیر غور لایا جائے ۔ اس سال کا موضوع ہے ، تعلیم حاصل کرنے کا حق مطلب ایک قابل ٹیچر کا حق ۔ بچوں کو علم دینا پڑھانا اور تعلیم کی روشنی سے منور کرنا ایک بڑا ہی معتبر کام ہے ۔ حدیث میں ہے کہ “علم نبیوں کا ورثہ ہے” ، اور علم کی آگاہی دینا پیغمبری پیشہ ہے ۔ انسانذات کے سب سے بڑے معلم ، ہمارے آخری نبی حضورﷺ فرماتے تھے کہ ، “علم حاصل کرو چاہے تمھے چائنہ ہی کیوں نہ جانا پڑے ” دوسری جگہ ان کا فرمان ہے کہ “علم حاصل کرو جھولے سے لے تک قبر تک” ۔ اور اس علم کو ہم تک پہچانے والے ہمارے استاد اور ٹیچرس ہی ہوتے ہیں جو ، ہماری اندھیروں سے بھرے ذہن کو اس طرح روشنی بخشتے ہیں ، جس طرح رات کے اندھیرے میں کوئی چراغ جلا کے اندھیرا دور کیا جائے ۔ تعلیم حاصل کرنا اور اسے دوسروں تک پہچانا بہت ہی نیک کام ہے ۔ علم ایک سمندر ہے ، اگر کسی کو ایک بوند بھی میسر ہوگئی ، تو سمجھو وہ کامیاب ہوگیا ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے ، جس کا ترجمہ ہے کہ ، “ای رب میرے علم میں اضافہ عطا فرما “۔

ٹیچرس کے عالمی دن کے موقع پہ دنیا بھر میں مختلف مکتب فکر کے لوگوں اور تنظیموں کی جانب سے پروگرام ، سیمینار رکھے جائے گے ، اور اساتذہ کی محنت و جدوجہد پہ ان کو سلام پیش کیے جائیں گے ۔ ﺍﯾﮏ ﻣﺤﻘﻖ ﮐﺎ ﻗﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ” ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺑﺎﺷﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ‘ چاہے کوئی شخص کتنے ہی بڑے عہدے پہ فائز کیوں نہ ہوجائے ، اس کی کامیابی کے پیچھے اس کے اساتذہ کا ہاتھ ہی ہوتا ہے ۔ ملک کا صدر ہو یا وزیراعظم ، کوئی سائنسدان ہو یا کوئی انجینئر یا کوئی مریضوں کا علاج کرتا ڈاکٹر ہی کیوں نہ ہو ، یہ جو کچھ ہیں اپنی ٹیچر کی بدولت ہیں ۔ جس طرح ایک بچے کی جسمانی پرورش اس کے ماں باپ کرتے ہیں ، اس طرح اس کی ذہنی نشونما اس کا ٹیچر اسکول میں کرتا ہے ۔ بچہ ماں کی کوکھ سے کچھ سیکھ کر نہیں آتا ، جس طرح اس کی ماں اسے گھر میں ہاتھ پکڑ کر چلنا سیکھاتے ہے ، اس کا استاد ویسے ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کے لکھنا سکھاتا ہے ۔ اسی لیے تو ہم اپنے سب سے پسندیدہ ٹیچر کو اپنا آئیڈل بنا کہ اس کے پہناوے ، بولنے چلنے کے طریقے کو اور اس کی چال چلن کو نقل کرتے ہیں ۔ یہ ہم تب ہی کرتے ہیں جب ہمارا ذہن اس استاد کی عادتوں ، رویوں اور اس کے پڑھانے کے طریقے سے متاثر ہوتا ہے ۔ چار سے پانچ سال کی عمر سے شروع ہوکر ایک بچہ ، پانچ سے چھ گھنٹے روزانہ اسکول میں اپنے ٹیچروں کے ساتھ بتاتا ہے ۔ اس لیے ٹیچر بھی والدین کا درجہ رکھتا ہے ، اور اتنی ہی عزت و احترام کا حقدار ہوتا ہے ۔ ہم میں سب کا کوئی نا کوئی استاد آئیڈل ہوگا ، کیونکہ استاد کی کوئی نہ کوئی بات ہمیں اس کی طرف قائل کرتی ہے ۔ میں جب چھوٹی تھی اور ایک پرائمری اسکول میں پڑھتی تھی ، تو میری ایک استانی نے بڑی ہی اہم بات بتائی تھی ، جو مجھے ابھی تک یاد ہے ۔ اس نے کہا تھا ، “ہماری اس دنیا میں تین مائیں ہیں ، ایک وہ جو ہمیں جنم دیتی ہے ، پال پوس کے بڑا کرتی ہے ۔ دوسرے وہ جو اسکول میں ہمیں لکھنا پڑھنا سکھاتی ہی ، معاشرے میں ہمیں اس قابل بناتی ہی کہ ہم پڑھے لکھے بن کہ عزت کی زندگی گزاریں اور ہماری ذہن کو اس قابل بناتی ہے کہ ہم کتابیں / اخبارات پڑھنے کے قابل ہوجاتے ہیں ۔ تیسرے ماں ہماری مٹی ہے ، جو کہ بنیادی طور پہ خالق ہے ، اور جو مرنے کے بعد ہمارے مردہ جسم کو اپنی آپ میں جگہ دے کے خود میں اندر سموں دیتی ہے ۔ “

کچھ دن پہلے دو آکتوبر کو سندھ کا بہت ہی اعلی اور محترم استاد جو کہ سندھ کے ضلعہ ٹنڈومحمدخان سے تعلق رکھتا تھا ،، اس کا انتقال ہوگیا ہے ۔ وہ سندھ کا جانا مانا استاد تھا ۔ دنیا بھر میں استادوں / لیکچراروں / پروفیسروں کو بڑی عزت و احترام سے نوازا جاتا ہے اور ان کو کسی سیاستدان اور کسی اعلیٰ عہدے پہ فائز شخص سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ، پر پاکستان میں استادوں کی اتنی عزت نہیں کی جاتی جتنا ان کا حق ہے ۔ اور دوسرے طرف کچھ استاد بھی اپنے عہدے کا غلط فائدہ اٹھا کے ، طالبات کو تنگ کرتے ہیں ، جس سے سارے طالبات تک یہ تاثر چلا جاتا ہے کہ شاید استاد ہوتے ہی ایسے ہیں ۔ حال ہی میں شہید بینظیر یونیورسٹی نوابشاہ کی طالبہ فرزانا جمالی نے انکشاف کیا کہ ، اس کو وائیس چانسلر ارشد سلیم اور انگریزی ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ عامر خٹک ہراساں کرتے تھے ۔ ابھی اس کا کیس نوابشاہ کی عدالت میں زیر سماعت ہے ۔ اس قسم کے واقعات ملک بھر سے آتے ہیں کہ استاد اپنے طالبات کو جنسی طور پر حراساں کرتے ہیں ، جس سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں اور پڑھائی پہ توجہ نہیں دیتے ۔ایک طرف تو ان واقعات نے منفی تاثر قائم کر رکھے ہیں ، تو دوسرے طرف استادوں کے ساتھ بھی ہوتی ناانصافیاں کو نظراانداز نہیں کیا جا سکتا ۔ سندھ کے دل کراچی میں دسمبر 2017ع کو سندھ اسیمبلی کے باہر استادوں کے ساتھ جارحانہ رویہ اختیار کر کے یہ ظاہر کیا گیا کہ یہ کوئی جمہوری حکومت نہیں ، ضیاءالحق کا مارشل لاء لگا ہوئا ہو ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے پچھلے حکومتی ادوار مِیں سال 2015 کو این ٹی ایس ٹیسٹ کی تحت سندھ بھر میں پرائمری ، سیکینڈری اور ہائی اسکول کے ٹیچروں کو تین سال کی کانٹریکٹ پہ بھرتی کیا گیا تھا ۔ ان کی آفر آرڈر میں یہ درج تھا کے تین سال کے بعد ان کو پکا کرکے ریگیولر کیا جائے گا ۔ تین سال کے بعد جب کانٹریکٹ پورا ہوئا ، تو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی طرف سے بیانات آنے لگے کہ ان ہزاروں ٹیچروں سے پھر ٹیسٹ لیا جائے گا ، جو فیل ہوئا اس کو ملازمت سے فارغ کیا جائے گا ۔جب یہ بات پھیلی تو ٹیچرون کے درمیاں بے چینی پیدا ہوگئی کہ ہم نے ایک دفعہ تو ٹیسٹ پاس کیا ہے ، اب پھر سے کیوں؟

اس بات پہ پریشان این ٹی ایس ٹیسٹ پاس استادوں نے جب کراچی میں دھرنا دے کہ احتجاج کیا ، تو ان کی کس قدر تذلیل کر کے ان کو رسوا کیا گیا ۔ ہماری حکومت کو بھی ایک لمحے کے لیے خیال نہ آیا کہ یہ وہ استاد ہیں جو آنے والے مستقبل کے معماروں کی تربیت کر رہے ہیں ۔ استادوں اور استانیوں پہ دوران احتجاج واٹر کینن کا استمعال کیا گیا ، پولیس اور رینجرز کی جانب سے ان پہ لاٹھیاں برسائی گئی ، خواتین استانیوں کی تو ریاستی تشدد کی وجہ سے سر پہ چادریں بھی سلامت نہیں رہہ پائیں ، ان کے کپڑے پھٹ گئے ، بیچھ سڑک ان کو گھسیٹا گیا ان کو ڈانٹا گیا ۔ یہ عالم دیکھ کہ بہت افسوس ہوئا ، کہ یہ ہماری ملک اور صوبہ میں ہے استادوں کی عزت ؟ جو استاد ہمیں آنے والے کل کے لیے ڈاکٹر انجنیئر، سیاستدان ، آرٹسٹ ، شاعر ، دینگے آج ہماری منتخب جمہوری حکومت ان ک ساتھ کیسا وحشیانہ سلوک کر رہی ہے ۔ یہ اسمبلی ارکان ، یہ اسپیکر ، اور یہ ساری کابینا کے میمبرانوں کو بھی کسی استاد نے محنت کر کے پڑھایا ہوگا ، اور وہ ان جیسے ہی ٹیچروں پہ سرے عام یوں تشدد کر وا رہے ہیں ۔ اور پھر دیر سے اس کا بات کا اعلان ہوئا کہ ان ٹیچروں کے مطالبات کو تسلیم کیا جائے گا ۔

استاد کی عزت کرنا اور ان کے ساتھ احترام سے پیش آنا ہمارا فرض ہے ۔ دنیا بھر میں استادوں کو بڑی شان و شوکت دی جاتی ہے، پر ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں اساتذہ کو ان کا اپنا جائز حق اور عزت نہیں ملتی ۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں پرائمری استاد کو تو بلکل ہے کم نظر سے دیکھا جاتا ہے ، جیسے وہ کوئی گرا ہوئا کام کر رہا ہو ۔ شاید اسی لیے ہماری قوم دوسری قوموں سے ترقی کی دوڑ میں آگے نکل نہیں پائی ، کہ ہم اپنے پڑھانے اور تربیت دینے والے استادوں کا اتنا احترام نہیں کرتے جتنا ان کا حق ہے ۔

ﺍﺷﻔﺎﻕ ﺍﺣﻤﺪ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ” ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﭨﺮﯾﻔﮏ ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﮐﯽ ﺧﻼﻑ ﻭﺭﺯﯼ ﭘﺮ ﻣﺠﮫ ﭘﺮﺟﺮﻣﺎﻧﮧ ﻋﺎﺋﺪ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ، ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻓﯿﺎﺕ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﭼﺎﻻﻥ ﺟﻤﻊ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮨﻮﻧﺎ ﭘﮍﺍ۔ ﮐﻤﺮﮦ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺞ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﭼﺎﻻﻥ ﺟﻤﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ؟ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﮨﻮﮞ ، ﺍﮐﺜﺮ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻻﻥ ﺟﻤﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺎ، ﺗﻮ ﺟﺞ ﻧﮯ ﺑﻮﻻ ?The teacher is in the court ، ﺍﻭﺭ ﺟﺞ ﺳﻤﯿﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻟﻮﮒ ﺍﺣﺘﺮﺍﻣﺎً ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮔﺌﮯ ۔ ﺍﺳﯽ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﻮﻡ ﮐﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﺎ ﺭﺍﺯ ﺟﺎﻥ ﮔﯿﺎ “۔ آج استادوں کے عالمی دن پہ آئیے ہم سب مل کے عہد کریں کہ ، ہم ہر ممکن کوششں کریں گے کہ ، ہمارے معاشرے میں ایک پرائمری ٹیچر کو بھی وہی عزت بھرا مقام لے جو کہ ہم ایک لیکچرار اور پروفیسر کو دیتے ہیں ۔ کیونکہ بچے کا ہاتھ پکڑ کے لکھنا پڑھنا اور اسے الف ب پ کی شناخت ایک پرائمری ٹیچر ہی کرواتا ہے ۔ اصل بنیاد ڈال کے روشنی کی کرن ایک پرائمری استاد ہی پھونکتا ہے ،،جو آگے چل کے روشن سورج کی طرح ہم سب کو تاریکی سے نکالتی ہے ۔

ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﺍﯾﮏ ﭼﺮﺍﻍ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺗﺎﺭﯾﮏ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﻭﮦ ﭘﮭﻮﻝ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﻦ، ﻣﮩﺮﻭﻣﺤﺒﺖ ﻭ ﺩﻭﺳﺘﯽ ﮐﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﭘﮩﻨﭽﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺭﮨﻨﻤﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﮔﻢ ﺭﺍﮨﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮔﺎﻣﺰﻥ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ آخر میں تمام محترم استادوں اور استانیوں کو میری طرف سے ہیپی ٹیچرس ڈے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).