مشاہیر علم و ادب کے سرقوں کا محاسبہ: ‘اثبات ‘کی ایک اور جرأت مندانہ پیشکش



جرم بہر حال جرم ہوتا ہے اور غلطی غلطی ،یہ وہ محرکات ہیں جو کسی بھی معاشرے کیلئے انتہائی خطرناک اور ضرررساں ہوتے ہیں اس کے تدارک کیلئے جو تادیبی سزائیں مقرر کی گئی ہیں ان پر پوری طرح عمل درآمد ہی اس کے استیصال کا واحد علاج ہوسکتا ہے اس میں ذرا بھی تساہلی ،تسامح یا مصلحت کوشی جرم کو نہ صرف مزید طاقتوربناسکتی ہے بلکہ اس کی آبیاری کیلئے آب حیات کا کام کرتی ہے ۔اس فلسفے کو سمجھنے کیلئے یہ حدیث رسول ؐہمارے لئے انتہائی معاون ثابت ہوسکتی ہے ۔احادیث کی مختلف کتابوں میں یہ روایت بڑے واضح انداز میں بیان کی گئی ہےکہ ایک معزز قبیلے کی کوئی خاتون چوری کے الزام گرفتار کرکے جب رسول کریم ؐکے سامنے پیش کی گئی تو اصحاب رسول ؐجن میں حضرت عثمان ؓبھی شامل تھےاس بنیاد پر سفارش کی کہ وہ ایک معزز قبیلے اور اعلی ٰخاندان سے تعلق رکھتی ہے لہٰذا اس کے ساتھ رعایت کا معاملہ کرتے ہوئے درگزر سے کام لیا جائے ،یہ جملہ سنتے ہی اللہ کے رسول ؐکا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا آپ نے فرمایا کہ اس سے قبل کی امتیں اسی بنیاد پر تباہ و برباد ہوئیں کہ وہ قانون کے اطلاق کیلئے لوگوں کے مقام و مرتبے کو آنکنے لگیں یعنی کمزوروں اور مفلسوں پر تو قانون کا مکمل اطلاق کیا جاتا لیکن معززین اور صاحب ثروت افراد کو اس سے مستثنیٰ قرار دے دیا جاتا ،آپ ؐ نے نہ صرف اس خاتون پر حد جاری کی بلکہ اس موقع پر وہ تاریخی جملہ بھی ادا کیا جو آب زر سے لکھنے کے لائق ہےجس کی افادیت و معنویت آج بھی جوں کی توں موجود ہے ۔آپ نے فرمایا کہ اگرمیر ی بیٹی فاطمہ ؓبھی اس طرح کے جرم کا ارتکاب کرتی تو میں اس پر بھی قطع ید کی حد جاری کردیتا ۔جس کی تائیدقرآن میں بھی’ والسارق والسارقۃ فقطعوا ایدیھما کے ذریعے کردی گئی ہے ۔سرقہ یعنی چوری کی متعدد قسمیں ہیں اس آیت کا انطباق ہر طرح کی چوریوں پر ہوتا ہے ،چاہے وہ مال و زر کا سرقہ ہو یا پھر علمی یا کوئی اور سرقہ سب کا صحیح صحیح محاسبہ ضروری ہے۔حال ہی میں اثبات نےاپنےکتابی سلسلےکوآگے بڑھاتےہوئے اپنی 18+19 ویں اشاعت کو سرقہ نمبر سے موسوم کرکےایک جرأتمندانہ قدم اٹھایا ہے جس میں مشاہیر علم و ادب کے سرقوں کا مدلل و مفصل محاسبہ کرتے ہوئےدودھ کا دودھ اور پانی کا پانی والے محاورے کو عملی شکل دینے کی قابل تعریف کوشش کی ہے ۔ مدیر نے اس شمارے کی اشاعت ،ضرورت اور مقصدکی وضاحت کرتے ہوئے سید علی اکبر قاصد کی وہ تحریر پیش کی ہے جو پچاس سال قبل انہوں نے مجلہ’ مہرنیم روز ‘میں اپنےمستقل کالم ”چہ دلاور است دزدے ” کے تحت مشاہیر کے سرقوں کے ضمن میں خود پر ہونے والے کچھ اعتراضات و الزامات کے جواب میں لکھی تھیں ۔

” ادبی سراغرساں کی مہمات کا مقصد صرف یہ ہے کہ صحت منداور بہتر ادب پیدا کرنے کیلئے فضا کو سازگار بنایا جائے ، ادیبوں کو متوجہ کیا جائے اور ادبی صلاحیت رکھنے والے اہل قلم کو بیدا رکیا جائے ۔اس کا مقصد سننی پیدا کرنا نہیں ہے نہ کسی کی مخالفت بلکہ تخلیقی عمل کیلئے میدا ن ہموار کرنا ہے اور اس سلسلے میں ادبی سراغرساں چاہتا ہے کہ وہ نمونے پیش کئے جائیں جن میں کہیں تو بڑی چابکدستی نظر آتی ہے ،کہیں بھونڈا پن دکھائی دیتا ہے اس کے علاوہ دوسروں کی نقل اور ترجمہ ، اصل مصنف کے تذکرے اور حوالے سےعملا ً چشم پوشی بلکہ گریز آپ کے سامنے آئے اور دیانت داری سے ان کا تجزیہ کیا جائے ۔ہمارے اکثر ادیبوں اور فن کاروں میں بڑا ادب پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور انہوں نے بڑا ادب پیدا بھی کیا ہے مگر جہاں انہوں نے وہ صورت اختیار کی ہے جس کیلئے سرقہ اورچوری کے سوا دوسرا کوئی نام ہی نہیں ہے یا انہوں نے دوسروں کے افکار و خیالات کو حوالہ دیئے بغیر اپنے نام سے پیش کیا ہے تو یہ نہایت ہی سنگین بات ہے اور بڑا ظلم ہے اور اس ظلم کی ذمہ داری ان کی نیت سے زیادہ ان کی ذہنی سہل انگاری پر عائد ہوتی ہے جس کا اثر ابھرتے ہوئے ادیبوں اور مصنفوں پر بہت برا پڑرہا ہے اور اندیشہ یہ ہے کہ ادب کو مہلک جراحتیں پہنچ جائیں اور آج ادب جس دور سے گزررہا ہے اس کا اندازہ کم و بیش ہر ایک کو ہے ۔”

اسی طرح مدیر نے موضوع اور اپنے موقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے سید ابوالخیر کشفی کی وہ تحریر بھی پیش کی ہے جو نہ صرف ادب کیلئے تریاق کا درجہ رکھتی ہے بلکہ ادب عالیہ کی تخلیق میں مزاحم ان عوامل کا بھی قلع قمع کرنے صلاحیت رکھتی ہے تاکہ پوری صحت اور قوت کے ساتھ ادب کے اس اعلیٰ معیار کو خلق کیا جاسکے جو زندگی کیلئے لزوم کا درجہ رکھتا ہے ۔

” اگر کچھ حضرات کے نزدیک یہ بے ادبی ہے تو الگ بات ہے ورنہ ادبی سراغرساں نے یہی کوشش کی ہے کہ ادب و تہذیب کا رشتہ کہیں ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے اور محض دلائل اور اقتباسات پیش کردیئے جائیں ۔ویسے بھی ادب کی دنیا میں زندوں اور مُردوں کی تقسیم نہیں ۔یہ دنیا تو اپنے وابستگان دامن کو ابدیت عطا کردیتی ہے ۔کچھ نقاد یقینا ً ایسے ہیں جو زندوں سے ڈرتے ہیں اور مُردوں سے بے خوف ہوتے ہیں لیکن ادبی سراغرساں نہ تو زندوں سے ڈرتا ہے اور نہ مُردوں سے بے خوف ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ تقسیم کا قائل نہیں ۔”

اس تناظر میں مدیر کا یہ اعلان کہ ” اس خصوصی شمارے کی اشاعت کا مقصد علم و ادب کے حلقوں میں سنسنی پھیلانا ،گستاخی کرنا یا کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہے بلکہ یہ شمارہ شخصیت پرستی سے آزادی ،علمی و ادبی سرقوں کی حوصلہ شکنی اور نئی نسل کیلئے نسبتا ً بہتر ماحول سازگار کرنے کی جانب ایک پہل ہے ۔” ایک صاف ستھری ادارتی وضاحت ہے جس پر اتہام و اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ۔سرقہ بہر حال ایک غیر اخلاقی اور قابل تعزیر جرم ہے اس کا مرتکب ہرگز قابل معافی نہیں قرار دیا جاسکتا لیکن توارد یعنی فکری ہم خیالی ایک قدرتی و فطری عمل ہے جس کا بیک وقت متعددذہنوں میں نزول ممکن ہے اس پر سرقے کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا لیکن وہ بھی اگر لفظ بہ لفظ اور سطربہ سطر ظہور میں آجائے تو وہ بھی سرقے کے ہی حکم میں آئے گا اور اسے اتفاق پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔اس سلسلہ میں عندلیب شادانی کا مضمون ‘ سرقات اساتدہ ‘ خاصا وقیع ہے جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ فراق گورکھپوری نے ” متوازیات ”کی اصطلاح کا سہارا لے کر ایک طرح سے اساتذہ کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے مگر فراق صاحب اگر اساتذہ کے زیر بحث اشعار کا مطالعہ کرتے تو وہ ضرور اس نتیجے پر پہنچتے کہ ہمارے اساتذہ نے جس صنعت کا بکثرت استعمال کیا ہے ،اس کا صرف ایک ہی نام ہے ،”سرقہ ” ۔ لیکن ہرجگہ تنقید برائےتنقیص سے گریز کی شرط لازمی ہو گی کیونکہ تنقید بہر صورت سماجی ومذہبی نکتہ نظر سے جائز ہےلیکن تنقیص سراسر ناجائز اور غیرپسندیدہ عمل۔

مجلے کو محاضرات،جراحیات ، مشتے نمونہ از خروارے اور تورلحظہ آخری ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے تحت مشاہیر اہل قلم کی تخلیقات پر مدلل و مفصل بحث کی گئی ہے ۔محاضرات میں شامل مضامین’ سرقے کی روایت تاریخ کی روشنی میں ، سرقات اساتذہ ، سرقہ نویسی ، قصہ کچھ کتابوں کا اور سرقہ توارد اور استفادہ جیسے عنوانات سے مزین مضامین اپنے موضوع پر شاہ کلید کا درجہ رکھتے ہیں ،اسی طرح جراحیات کے باب میں محمد حسین آزاد کے سرقے ،مولانا ابوالکلام آزاد سرقے کی زد میں ، ترغیبات جنسی ، نیاز فتحپوری ، شبلی نعمانی کی تنقید پر مغربی اثرات، مولانا اشرف علی تھانوی کا علمی سرقہ، ابوللیث صدیقی کا سرقہ، فیض احمد فیض، قزاقی کا طوق ، آل احمد سرورکی کرامتیں ، چہ دلاوراست دزدے ، ابن صفی کے ناولوں کا سرقہ ، مرزا حامد بیگ کا مال و متاع جیسے متعدد اہمیت کے حامل ہیں اور دامن توجہ مبذول کرتے ہیں ،اسی طرح تیسرے باب کے کچھ مضامین کے عنوانات اس طرح ہیں ۔’کچھ جعلی کتابوں کے بارے میں ، کتابوں کا کاروبار اور جعل سازیاں ، اسداللہ کی اردو دوستی ، مولانا اسلم جیراجپوری ،مصنف یا مترجم ،تحقیق کا ڈول ، میرحسن کی مثنوی اور ایک مستشرق ، مضمون نہ ملا تو اداریہ ہی سہی ، وزیرآغا کے گھر بھی ڈاکہ ، حضرت نیاز اور جاد وناتھ سرکار ، حیدرطباطبائی کی آئین سخنوری ، فکر غامدی اور علمی سرقہ ،واوین کی معدومیت کی علت ،دانتے اور ابن عربی جیسے چشم کشا مضامین قارئین کی حیرت انگیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔

آخری باب میں عبداللہ حسین کےناول ‘نادار لوگ ‘ پر خورشید قائم خانی کا مضمون بھی نہایت چشم کشا ہے جس میں بڑی چابکدستی کے ساتھ موصوف کے سرقےکا محاسبہ کیا گیا ہے ۔شمارے کے کچھ قلمکاروں کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں ۔خالد جامعی ، عندلیب شادانی ، مشفق خواجہ ، خالد علوی ، مرغوب علی ، فہیم کاظمی ، سید ابوالخیرکشفی ، سید حسن مثنیٰ ندوی ، ماہر القادری ، سید علی اکبر قاصد ، فرمان فتحپوری ، انجم رحمانی ، عارف اقبال ، گیان چند جین ، خلیق انجم ، قاضی عبدالودود ، قرۃ العین حیدر ، عمیق حنفی ، ، انور سدید ،نجیف اشرف ندوی ، اسیم کاویانی ، قاضی عابد اور محمد فہد حارث وغیرہم ۔478 صفحات پر مشتمل یہ شمارہ اپنے اہم ،حیرت انگیزلیکن مدلل مضامین کے حوالے سے اس لئے بھی ایک یادگارکا درجہ رکھتا ہے کہ سرقے کے موضوع پر اتنے ضخیم اور معیاری مجلے کی اشاعت کے حوالے سے اس نے ایک تاریخ رقم کردی ہے۔ اس سے قبل اس موضوع پر کچھ چنندہ اور تحقیقی مضامین ہی سامنے آئےتھے۔ اس تناظر میں مدیر اثبات کے اس کام کو محض کام نہیں ایک کارنامہ کہا جاسکتا ہے ،جس کی پذیرائی ہر متوازن اور انصاف پسند شخص کوضرور کرنی چاہیئے۔ مضامین کی ندرت اور موضوع کی حساسیت اور اہمیت کےپیش نظر کمزور طباعت اور غیر معیاری کاغذ باہم متصادم نظر آتے ہیں جس کی طرف توجہ کی شدید ضرورت تھی لیکن پروف ریڈنگ پر بڑی حد تک گرفت موجودہ دور میں شائع ہونے والی اکثر کتابوں کے ہولناک نتائج کے اعتبار سے ایک کرشماتی عمل محسوس ہوتا ہے ۔ مجلے کے حصول کیلئے ان نمبرات پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔مکتبہ جامعہ (ممبئی )8108307322 مکتبہ جامعہ ۰دہلی ) 011-23260668سٹی بکڈپو( مالیگاؤں )9226728995بک ایمپوریم پٹنہ 9304888739۔مدیر سے رابطہ ::8169002417 ۔
(مبصرسے رابطہ  :  الثنا بلڈنگ M/39 احمدزکریا نگر باندرہ  ( ایسٹ ) ممبئی 51موبائل :            9004538929


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).