پاکستان کی نوجوان مگر نابلد کابینہ


ہم سب بڈھے یک زبان یہ کہتے رہتے تھے کہ ان سیاست دانوں کی شکلیں اور کرتوت دیکھ دیکھ کر تنگ آئے ہوئے ہیں۔ اللہ میاں ہمیں ان سے بچا اور کوئی نوجوان قیادت عطا کر۔ شاید قبولیت کی گھڑی تھی یا پھر بشریٰ بی بی کے وظیفوں کا اثر تھا کہ آخر اگست میں نئی کابینہ بننی شروع ہوئی۔

سوائے چند کے باقی سب نوجوان چاق و چوبند چہرے نظر آنے لگے۔ صرف ایک ماہ کے تجربے نے بتایا کہ یہ معصوم نوجوان نہ دفتری امور سے واقف ہیں، نہ پاکستان کی تاریخ اور ثقافت سے آگاہ ہیں۔ اگر ذرا بھی آگاہی ہوتی تو پہلے اکیڈمی آف لیٹرز، لوک ورثہ، سیاحت اور دیگر اداروں میں پڑھے لکھے لوگوں کو لگا کر اپنے لئے تعریف وصول کرتے۔

یہ تو اکھاڑ پچھاڑ کے چکر میں ہیں۔ چلو ٹھیک کیا پرائم منسٹر ہائوس سے کالی بھینسیں نکال دیں مگر یہ کیا قیام پاکستان سے پہلے کی روایت ریڈیو پاکستان کی بلڈنگ سارے اثاثے ختم کرکے، میڈیا ہائوس بنانے لگے ہیں۔ وہ جو نیف ڈیک کی بلڈنگ کھنڈر ہوئی کھڑی ہے، جو ادارے بنانے ہیں اس جگہ اور اسلام آباد ہی میں لوک ورثہ کی عمارت کے ساتھ چین کی مدد سے بننے والے میڈیا ہائوس کی بلڈنگ کو مکمل کرکے وہاں اپنا شوق پورا کرلیں۔

کراچی، لاہور، پشاور اور ٹیکسلا کے میوزیم کو قابل دید بنائیں۔ قطر سے آئی ہوئی اور پوشیدہ رکھی ہوئی سیف الرحمان کی گاڑیوں کے بارے میں بھی خبریں سنائیں مگر ریڈیو پاکستان میں تو ہماری موسیقی، عظیم فنکاروں، دانشوروں اور سیاسی شخصیات کا وہ خزانہ ہے جو ہماری ثقافت کا امین ہے۔

آپ کو آج کہاں روشن آرا بیگم یا مختار بیگم یا بڑے غلام علی خان کا انٹرویو ملے گا۔ یہ تو اس خزانے میں ہیں جس کی آپ کو معلومات ہی نہیں۔

یہ بالکل ایسے ہورہا ہے کہ جیسے جب بے نظیر پہلی دفعہ وزیراعظم بنیں تو اس زمانے میں ’’دھنک‘‘ رسالہ بہت مقبول تھا۔ انہوں نے سرور سکھیرا جو اس کے مدیر تھے، کو اپنا اطلاعات کا مشیر لگا لیا اور بھی بقراط ہوں گے، ان سب نے مشورہ دیا کہ اب جو اخباروں میں ہفتہ وار سیاسی گفتگو ہونے لگی ہے تو اس کی روشنی میں موجود نیشنل سینٹرز کی ضرورت نہیں ہے، ان کو فوراً بند کردیا جائے۔

حکم کی تعمیل بغیر کسی مشورے کے کردی گئی۔ ان اداروں میں جو نوجوان لوگوں کیلئے پڑھنے لکھنے اور شام کو ادبی و ثقافتی پروگرام دیکھنے کی لگن ہوتی تھی، آج بھی سینئر سیکرٹریز یاد کرتے ہیں کہ ہم وہاں آکر پڑھا کرتے تھے۔ لاہور اور کراچی تو کیا چھوٹے شہروں کے سینٹر اور لائبریریوں سے استفادہ ہوتا تھا۔ ان ضخیم لائبریریوں کی کتابیں، کارپوریشن کے کوڑا اٹھانے والے ٹرکوں میں بھر کر نامعلوم کہاں دفن کی گئیں۔

بی بی بینظیر کی دوسری حکومت آئی تو سیکرٹری کلچر خواجہ شاہد حسین اور سی ڈی اے کے چیف ظفر نے مجھے کہا کہ پریذیڈنٹ اور پرائم منسٹر ہائوس میں پرانے اور بوسیدہ پرنٹ لگے ہیں، پاکستان کے سارے سینئر آرٹسٹوں سے ثقافتی شاہکار بنوائو۔

میں نے سب کو بلا لیا۔ جب سارا کام ہوگیا تو ظفر کو موت لے گئی اور خواجہ صاحب فرانس چلے گئے۔ اوپر سے نئے سیکرٹری صاحب جن کا پولیس سے تعلق تھا، وہ آگئے اور پھر صدر لغاری صاحب نے صرف ایک خطاطی کو منتخب کیا۔ معلوم نہیں وہ نابغہ روزگار اور اوریجنل پینٹنگز کس بلا کے گھر گئیں۔

اب جتنے نوجوان وزیر ہیں، وہ تو فائلیں پڑھنا سیکھ رہے ہیں اور باقی وقت ٹی وی پروگراموں میں بخوشی شامل ہورہے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کو ہر ادارے کو سمجھنے کیلئے کمیٹی بنانا پڑتی ہے۔ رہ گیا ہمارا نوجوان فواد چوہدری، اسے ہر طرف اس قدر بولنا پڑتا ہے۔ وہ کبھی کبھی غیر ضروری ہوجاتا ہے مگر اس نے ہی تو ریڈیو پاکستان کی بلڈنگ ہتھیانے کیلئے کہا ہے کہ وہاں میڈیا ہائوس بنایا جائے گا۔

فواد حسین کا مشرف سے لے کر ہر سیاسی پارٹی کے ساتھ رہنے کا بہت وسیع تجربہ ہے مگر شاید اس نے کبھی استاد سلامت علی خان کی گائیکی نہیں سنی۔ واقعی سیاست کل وقتی پیشہ ہے مگر اب تک ہم نے دیکھا ہے کہ پی این سی اے کی بلڈنگ اپنی نگرانی میں مشرف نے بنوائی۔

ناپا کے ذریعے ضیا محی الدین اور دیگر فنکاروں کو نیا ٹیلنٹ تیار کرنے کیلئے فنڈز فراہم کئے۔ پھر اس کے بعد ایک سیکرٹری نے ابھی حال ہی میں کہا ہے۔ ’’میں ناچ گانے کیلئے فنڈز نہیں دے سکتا۔‘‘

اگر ایسی باتوں کو علم و دانش کہا جاسکتا ہے تو پھر میں علامہ اقبال کو کیا جواب دوں کہ وہ تو ہر نظم میں نوجوانوں کی توجہ اور تربیت کے خواہاں تھے۔ براہ کرم ریڈیو پاکستان صرف عمارت نہیں تاریخ ہے۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).