غفار ذکری کی موت۔۔۔اب لیاری کا مستقبل کیا ہوگا؟


کراچی کے علاقے لیاری کے علی محمد محلہ میں پولیس کی پانچ گھنٹے کی کارروائی کے نتیجے میں غفار ذکری اپنے پانچ سالہ بیٹے اور ساتھی چھوٹا زاہد المعروف بجلی سمیت مارا گیا۔ پولیس کے اس دعوے کے برعکس غفار ذکری کی والدہ روش خاتون کا کہنا ہے کہ پولیس نے بچے کو تو مارا ہے مگر غفار نے گھیرا تنگ دیکھ کر خودکشی کی ہے۔ جو بھی ہو ارشد پپو گروپ کے سربراہ غفار ذکری کے مارے جانے کو پولیس کی کامیابی کے ساتھ علاقے میں امن کی امید کے طور پر لیا جارہا ہے۔

غفار ذکری کا تعلق بلوچستان کے علاقے تربت سے تھا، مقامی طور پر ذکری کہلانے والے غفار بلوچ اپنے لڑکپن سے ارشد پپو گروپ سے منسلک ہو گیا تھا، لیاری میں ارشد پپو گروپ اور رحمان ڈکیت گروپ کو متحارب گروپس کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ کہا جاتاہے کہ رحمان ڈکیت کی شناسائی پی پی کی اہم شخصیات سے تھی اور وہ ان کے لئے کام بھی کرتا تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ ارشد پپو گروپ نے ایم کیو ایم سے مراسم استوار کر لئے۔ 2009ع میں چوہدری اسلم کے ساتھ مبینہ مقابلے میں رحمان ڈکیت کے مارے جانے کے بعد عزیر بلوچ نے گروپ کی کمان سنبھالی، کہا جاتا ہے کہ اس وقت بھی پی پی کی ایک اہم شخصیت نے عزیر بلوچ کو ہر ممکن مدد فراہم کی جس سے وہ نہ صرف منظم ہوا بلکہ لیاری امن کمیٹی کا قیام بھی عمل میں آیا، جس کو حکومت کی کھلی سرپرستی حاصل تھی۔

اسی عرصے میں ارشد پپو کا قتل ہوا، جس کی ایف آئی آر عزیر بلوچ، شاہ جہان بلوچ (جو 2013 میں پی پی کے ٹکٹ پر نبیل گبول کے حلقے سے ایم این اے بنے) اور ایک ایس ایچ او کے خلاف درج ہوئی، یہ بات بھی لیاری میں مشہور ہے کہ ارشد پپو کے قتل کے بعد اس کے سر کے ساتھ فٹبال کھیلی گئی تھی۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ ذوالفقار مرزا اور نبیل گبول کے درمیان اختلافات کی وجہ بھی ان گینگس کی سرپرستی تھی، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ غالباّ اسی وجہ سے نبیل گبول کی ایم کیو ایم سے قربت ہوئی، جس کے نتیجے میں وہ متحدہ میں شامل ہوئے، ایسے میں ان کو لیاری سے تو کامیابی نہیں ملی مگر عزیز آباد کی سیٹ سے ان کو منتخب کروایا گیا۔

کراچی آپریشن میں عزیر بلوچ کی گرفتاری کے ساتھ ہی ان کا گروپ بھی زیر زمین چلا گیا، جبکہ غفار ذکری بھی منظر سے غائب ہو گئے تھے۔ اسی طرح لیاری کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا، گزشتہ سال غفار ذکری کا بھائی بھی ایک مقابلے میں مارا گیا تھا اور اب غفار ذکری کے مارے جانے سے بظاہر یہ گروپ بھی ختم ہوتا ہوا لگ رہا ہے۔

جب سے غفار ذکری کے موت کی خبر سنی ہے ایک سوال مسلسل ذہن میں گردش کررہا ہے کہ کیا اب لیاری میں مستقل امن ہوجائے گا؟ ساتھ ہی یہ سوال بھی کہ کیا لیاری ایک بار پھر پی پی کے ہاتھ میں چلا جائے گا؟

ان سوالوں کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ لیاری والے مسلسل اس خوف کا شکار تو بہر حال ہیں کہ کہیں لیاری دوبارہ گینگ وار کے ہتھے نہ چڑھ جائے، عزیر بلوچ اور غفار ذکری کے انجام کے بعد شاید گینگس کو منظم ہونے میں مشکلات درپیش ہوں۔

ان سوالات کی دوسری وجہ سیاسی ہے، جس دن لیاری میں بلاول کے قافلے پر پتھراؤ ہوا، اس دن سے لے کر انتخابات میں پی پی کا صفایا ہونے تک لیاری کے حالات پر نظر رکھتے ہوئے ایک بات شدت سے محسوس ہوئی کہ ماضی میں پی پی کا قلعہ سمجھاجانے والا یہ علاقہ اپنے ووٹ کا استعمال بھی خوف کے پیش نظر کرتا ہے۔

2103ع میں پی پی کی کامیابی ہو یا 2018ع میں تحریک انصاف کے سر سہرا سجنے کی کہانی، خوف بہرحال حاوی نظر آتا ہے۔ پانچ سال پہلے لوگوں نے اس لیے عزیر بلوچ کے کہنے پر پی پی کو ووٹ دیا کہ اس وقت اس گروپ کی مخالفت زندگی خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھی۔

2108 ع کے انتخابات میں ایک طرف تو بی بی کا بیٹا لیاری سے امیدوار تھا، دوسری طرف خوف کی اک نئی شکل تھی کہ اگر پی پی جیت گئی تو پھر لیاری میں گینگ وار شروع ہوجائے گی۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ لیاری والوں کے دل سے بھٹو کا سحر ختم نہیں ہوا مگر اس دفعہ و خوف تھا اس کی وجہ لیاری کے سابقہ ایم این اے کا بلاول کے ساتھ انتخابی مہم چلانا بھی تھا، کیونکہ لوگ ڈر گئے کہ اگر اس رہنما کو اختیار ملا تو وہی ہوگا جس کا خدشہ ہے۔

لیاری میں قیام پذیر سینئر صحافی سلیم سومرو کا کہنا ہے کہ اس دفعہ جب لیاری کے لوگ ووٹ کاسٹ کرنے گئے تو ان کے دل تو شاید اب بھی بی بی کے بیٹے کے ساتھ تھے مگر جب ان کو اپنے بیٹے کا مستقبل مخدوش نظر آیا تو انہوں نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ ٹھپا بلے پر لگا دیا۔ لگتا یہی ہے کہ یہ دراصل پی پی کے لئے وارننگ تھی کہ گینگ وار کی سرپرستی چھوڑ دو، اگر ایسا ہوا تو لوگ پھر پی پی کی طرف واپس جائیں گے، اگر ایسا نہیں ہوا توہمیشہ کے لئے لیاری سے پی پی کا پتہ صاف ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).