اساتذہ کا عالمی دن اور پاکستان


5 اکتوبر کو ہر سال دنیا میں اساتذہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن کے منانے کا مقصد دنیا بھر کے اساتذہ کو سلام پیش کرنا ہے اور ان کے مقام کو معاشرے میں اجاگرکرنا ہے۔ ایک انگریزی مقولہ ہے کہ استاد وہ مینارہ نور ہے جو بچے کو راستے کو روشن کرتا ہے۔ سکندر اعظم کا قول ہے میرے والدین نے مجھے زمین پر اتارا اور میرے استاد نے مجھے آسمان کی بلندی تک پہنچا دیا۔ آج آپ دنیا میں کوئی بھی کامیاب انسان دیکھتے ہیں تو اس کامیاب انسان کے پیچھے ایک استاد ہوتا ہے جس نے اپنے شاگرد کو کامیابی کا رستہ دکھایا ہوتاہے۔ نوبل انعام یافتہ سائنسداں عبدالسلام نے نوبل انعام کو اپنے استاد کے قدموں میں رکھ کر کہا تھا

کلاس روم میں اگر آپ نے میری ہمت افزائی کے طور پر ایک روپیہ نہ دیا ہوتا تو آج میں نوبل انعام کا حقدار نہ بنتا، میری نظر میں نوبل انعام کی اہمیت آپ کے ایک روپئے سے بھی کم ہے
جو لوگ بچوں کو اچھی تعلیم دیتے ہیں ان کی عزت کرو۔ ماں باپ تمہیں پیدا کرتے ہیں لیکن استاد تمہیں اچھی زندگی گزارنے کا فن سکھاتے ہیں (ارسطو)

استاد میری نظر میں دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تعلیم کے استاد اور دوسرے زندگی کے استاد ۔ اساتذہ کے اس عالمی دن پر میں ان دونوں قسم کے اساتذہ کو سلام پیش کرتا ہوں۔ راجن پور سے ایک دوست امجد رسول فرازی سے جب میں نے پوچھاکہ آپ اس اساتذہ کے عالمی دن پرکس استاد کو سلام پیش کرنا چاہو گے تو اس دوست نے بتایا کہ میں نے ایم سی ایس میں ابھی داخلہ نہیں لیا تھا ایک دوست جو کہ پہلے ہی کمپیوٹر سائنس میں داخلہ لے چکا تھا اور اپنے ایک استاد صاحب کے پاس ٹیوشن پڑھنے کے لیے جا رہا تھا مجھے کہا کہ چلو میں اس استاد صاحب سے آپ کو ملواتا ہوں وہ کمپیوٹر پڑھاتے ہیں۔

ان استاد صاحب کا نام عابد حسین تھا لیہ سے تعلق تھا اور ڈگری کالج ڈیرہ غازی خان میں پڑھاتے تھے مجھے کمپیوٹر کا شوق تھا ان سے ٹیوشن پڑھانے کا کہا اور پوری محنت سے کمپیوٹر پڑھنا شروع کیا میں نے ابھی ایم سی ایس میں داخلہ بھی نہیں لیا تھا میں نے جب مہینہ کے آخر میں استاد صاحب سے فیس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فیس لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جو شاگرد شوق سے پڑھتا ہے میں اس سے کوئی فیس نہیں لیتا۔ میرے دل میں ایسے اساتذہ کی عزت اور بڑھ گئی۔ عابد صاحب جیسے استاد اپنے شاگردوں میں ایسی تحریک، جوش، ولولہ بھر دیتے ہیں جس سے وہ زندگی کی ہر سیڑھی پر بغیر ڈرے چڑھتا جاتا ہے اور اپنی منزل کو پا جاتا ہے۔ میرے ابا جی ہمیشہ کہا کرتے ہیں بیٹا استاد اور باپ یہ دو ہستیاں ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا اور شاگرد ان سے بھی آگے نکل جائے۔

ایک عام استاد تمہیں چیزوں کے بارے میں صرف بتاتا ہے، ایک اچھا استاد اس کی وضاحت کرتا ہے، ایک اعلیٰ درجہ کا استاد عملی طور پر کرکے دکھاتا ہے، جبکہ ایک بہترین استاد طالب علموں میں تحریک پیدا کرتا ہے“۔ (ولیم آرتھر وارڈ)

اب اگر میں تھوڑی سی بات اساتذہ کے اس عالمی دن اور پاکستان میں اساتذہ کے ساتھ سلوک کے حوالے سے کر لوں تو مجھے پر واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کی ترقی نہ کر سکنے کی وجوہات کیا ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو اپنے استادوں قوم کے معماروں سے قوم کے بچوں کو پڑھانے کی بجائے دوسرے کام زیادہ لیے جاتے ہیں۔ مردم شماری ہو تو استاد ماڈل بازار لگنے ہوں تو استاد اگر ماضی کے جھروکوں سے دیکھا جائے تو میں نے ایک آرٹیکل لکھا تھا جس میں بتایا تھا کہ کیسے ایک پی ایچ ڈی استاد کو رمضان بازار میں چینی بیچنے کے کام پر لگایا گیا ہے۔ الیکشن آ گیا تو ڈیوٹی کے لیے استاد، یو پی سروے ہو تو گھر گھر جائیں گے استاد اور اس سب کے بدلے ان کو ملتا کیا ہے سوائے ذلالت کے؟ کچھ بھی نہیں رکیے رکیے میں ابھی بہت کچھ بتانے لگا ہوں۔

استادوں کے لیے پالیسیاں بنانے والے شاید آرم چیئر پالیساں ہی بناتے رہیں گے جب تک کہ ان کے ساتھ اساتذہ کی پوری کمیٹی نہ بٹھائی جائے جو قوم اپنے اساتذہ کو عزت نہیں دیتی وہ قومیں ترقی بھی نہیں کیا کرتی۔ میری نظر سے بہت سے ایسے واقعات گزرے ہیں جن کو بیان کرتے میری روح تک کانپ جاتی ہے ایک اخبار کی شہ سرخی ایجوکیشن افسر جلاد بن گئی حاملہ معلمہ کی چھٹی کی درخواست مسترد سکول میں طبیعت بگڑنے پر زچہ و بچہ جاں بحق، ملتان پرنسپل نے چھٹی نہ دی بیمار معلمہ نے دم توڑ دیا، ایک استاد کو چھٹی نہ دگئی دیر سے حاملہ بیوہ کو ہسپتال لے جانے تک بچہ ماں کے پیٹ میں ہی دم توڑ گیا۔ کیا ایسے حالات میں کوئی قوم ترقی کیا کرتی ہے؟ نہیں کبھی نہیں اشفاق احمد صاحب اپنا ایک واقعہ سناتے ہیں کہ جب ان سے کوئی قانون ٹوٹا اور وہ عدالت میں دیر سے پہنچے اور بتایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور یونیورسٹی کی مصروفیت کی وجہ سے پہنچ نہیں سکے۔ جج صاحب نے استاد کا لفظ سنتے ہی ©Teacher in the Court کا نعرہ لگایا اور سارا مجمع کھڑا ہو گیا۔ یہ عزت ہے اپنی اساتذہ کی اور ملک ایسے ہی ترقی کیا کرتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان صاحب آپ اگر آج وزیر اعظم پاکستان ہیں تو اس کے پیچھے بھی آپ کے استادوں کی محنت ہے۔ ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کو ان اساتذہ کا خیال کیوں نہیں آتا؟ ترقی یافتہ ممالک میں اساتذہ کے عالمی دن پر یہ عہد کیا جاتاہے کہ ہم اپنے اساتذہ کی عزت اور تکریم میں اضافہ کے لیے کون کون سی پالیسیاں بنائیں گے اور ترقی پذیر ممالک اپنے اساتذہ کی تذلیل میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔

ایک دوست لاہور میں نوکری کرتا ہے اور اس کی بیگم کی نوکری ملتان میں ہے تبادلہ اتنا مشکل ہے کہ وہ میاں بیوی دونوں کی زندگی پریشانیوں میں گزر رہی ہے جب تک ہم ان مسائل کو حل نہیں کر سکتے تب تک ہم ترقی یافتہ قوموں میں شامل نہیں ہو سکتے۔ استاد اگر ایک منٹ لیٹ آئے تو اس پر پانچ ہزار روپئے جرمانہ کی سزا دے دی جاتی ہے لیکن شاید کسی کو یہ اندازہ نہیں ہو گا کہ یہ استاد کتنی دور سے یہاں اپنی ڈیوٹی دینے کے لیے پہنچا ہے۔

میرے ایک دوست ہیں شاہد اقبال جن کو لیہ کے دریا کے پار ایک سکول ملا ہے مجھے ایک بار موقع ملا ہے ان کے ساتھ جانے کا وہ بھی شاید اس لیے ساتھ لے گئے کہ اساتذہ کی مشکلات کے حوالے سے بتانا چاہتے تھے۔ سردیاں ہوں یا گرمیاں وہ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر کشتی پر دریا عبور کرتے ہیں اور درمیان میں تین کلومیٹر خشکی کا حصہ ہے جو کہ پیدل عبور کرتے ہیں پھر ایک دریا کا دوسرا حصہ جس کو عبور کرنے کے لیے پھر سے کشتی کا سہارا لیا جاتا ہے اور دو گھنٹہ کے بعد پہنچ جاتے ہیں۔ چھٹیوں کے بعد جب وہ سکول گئے ہیں کیونکہ سکول میں کوئی چپڑاسی موجود نہیں ہے تو خود ہی واش روم صاف کرتے رہے ہیں خود ہی سکول میں پیدا ہونے والی لمبی گھاس کو کاٹ کر صاف کرتے رہے ہیں اور یہ کوئی واحد سکول نہیں جہاں چپڑاسی موجود نہیں ہے پورے پاکستان اور پنجاب کے بہت سے سکولوں میں یہ ہی حال ہے لیکن آفیسر کہتے ہیں کہ صفائی نہیں ہے تو آپ کو معطل کر دیا جائے گا

اگر غلطی سے کسی سکول کے بچے کو کہ دیا کہ آپ لوگ بھی سکول کی صفائی میں حصہ لیں تو اس پر تصویریں بنا کر لوگ اس استاد کو بلیک میل کرتے ہیں۔ ایک اس قسم کی تصویر پر روف کلاسرہ صاحب نے کمنٹ کیا تھا کہ ہم خود بھی سکول میں اپنی کلاس اور صفائی کی مہم میں حصہ لیتے تھے۔ ایک تو اس سے صفائی نصف ایمان ہے کو تقویت ملتی تھی دوسرا اس طرح ٹیم ورک اور اپنے ماحول کو صاف رکھنے کے حوالے سے ایکٹیویٹی بھی ہو جاتی تھی۔

محکمہ کے افسران اساتذہ کو اپنے ذاتی ملازم تصور کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ رہی سہی کسر فوجی مانیٹرنگ والے نے پوری کی ہوتی ہے۔ مانیٹرنگ آفیسر رکھنا ہے تو کوئی برابر تعلیم والا یا اعلی تعلیم یافتہ انسان رکھیں ان مانیٹرنگ آفیسرز کا رویہ اساتذہ کے ساتھ ایسے ہوتا ہے جیسے وہ ان کے گھر کے ملازم ہوں۔

ایک استاد صاحب ملک حشمت اللہ صاحب بتا رہے تھے کہ ان کی کلاس میں ایک پنکھا تھا غالبا پانچویں کلاس کے بچے تھے اکثریت کا کہنا تھا کہ پنکھا بند کر دیا جائے ٹھنڈ ہے ایک نے ضد پکڑ لی کہ پنکھا چلانا ہے تو ٹھیک ورنہ میں جا رہا ہوں گھر۔ پھر آپ آو گے منتیں کرو گے تو میں واپس آوں گا ورنہ نہیں۔ مار نہیں پیار کی پالیسی کے نتائج اگر آپ دیکھیں تو بہت تباہ کن نکلے ہیں۔ کلاس میں بچہ ٹیچر سے بدتمیزی سے پیش آئے تو اس کو سزا نہیں دی جا سکتی، بچہ سکول نہیں آتا تو استاد اس کا نام خارج نہیں کر سکتا بچے کو پیپر نہیں آتا تو اس کو فیل نہیں کیا جا سکتا بچہ فیل ہو جائے تو سزا ٹیچر کو، بچہ والدین داخل نہ کروائیں تو استاد ان کی منتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ داخلہ پورا کرنے کی خاطر وہ پیدا ہونے والے بچے تک کو داخل کر دیتے ہیں کیا کریں روزی کا مسئلہ ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں استاد بچوں کو گھروں سے بلانے نہیں جاتے اس کے لیے Social Scientestرکھے جاتے ہیں وہ لوگوں کو موبلائز کرتے ہیں لیکن پاکستان میں استاد لوگوں کے گھروں میں جار ہے ہوتے ہیں۔

وزیر اعظم کو پورے ملک میں جہاں تعلیمی ایمرجنسی لگانی چاہیے وہیں قوم کے معماروں کی عزت کو بحال بھی کروانا چاہیے ہمیں ہمارے فرسودہ نظام کو ختم کر کے ایک نیا نظام لانا ہوگا اس نظام میں ہم پھر سے اپنے استادوں کو عزت بھی دیں گے اور اس ملک میں تعلیم کو عام بھی کریں گے۔ میر ی قلم میں اتنی طاقت تو نہیں کہ میں ایک استا د کی شان بیان کر سکوں بس آخر میں ایک بار پوری پاکستانی قوم کی طرف سے اپنے تمام اساتذہ کرام کو سلام پیش کرتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).