خارجہ پالیسی کا چاک چاک گریباں



گزشتہ انتخابات سے قبل تحریک انصاف اپنے انتخابی جلسے اور جلسوں میں سابق فوجی آمر ایوب خان کا امریکہ میں استقبال کی ویڈیو کو اس دعوے کے ساتھ دکھاتی تھی کہ اس وقت اقوام عالم میں ہمارا احترام کتنا زیادہ تھا اور اب یہ احترام کافور ہو گیا ہے۔ حالانکہ اس احترام کی بدولت ہی ہم آج تک مصائب کا شکار ہیں بہرحال انتخابات میں دعوے کرنے پر ان کے حامی یہ دعویٰ کرتے نظر آتے تھے کہ عمران خان کی حکومت بغیر وجہ کے بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہر کسی سے بات کرے گی اور جہاں کہیں ضرورت محسوس ہوئی تو وہاں ایک دو گھسن بھی میل سکتی ہے۔ لیکن یہ تصور دھڑام کے ساتھ بار بار زمین بوس ہوتا چلا جا رہا ہے کہ انتخابات کے بعد اپنی پہلی تقریر میں بھارت کی جانب دو قدم بڑھانے اور دہشت گردی کلبھوشن یادیو کے ذکر کو گول کرنے سے ہی بچے کے پاؤں پالنے میں نظر آ جاتے ہیں کہ محاورا سامنے آ کھڑا ہو گیا۔ بھارت نے اپنے تعلقات کا ذکر کرنا، پھر وہاں کے کرکٹروں کو حلف برداری میں شرکت کی دعوت اور پھر اس پر ایڑھی چوٹی کا زور لگانا حالانکہ آیا صرف ایک، بہرحال یہ سب نظر انداز کیا جا سکتا تھا کہ غیر متوقع ، غیر حقیقی “کامیابی” ملنے سے خوشی سے باؤلا ہو جانا پھر بھی سمجھ میں آتا ہے۔

لیکن معاملہ ادھر ٹھہرا نہیں بلکہ پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے یہ تاثر دے دیا گیا کہ بھارت نے مذاکرات کی حامی بھر لی ہے۔ بھارت نے تردید کرنا ہی تھی مگر شاہ محمود قریشی اپنی پریس کانفرنس تک انتظار کرتے رہے کہ شاید ڈور کا سرا کوئی ہاتھ آ جائے۔ اور کام بن جائے۔ پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی رہی۔ اب یہ جگ ہنسائی تھمی نہیں تھی کہ معلوم ہوا کہ عمران خان جن کو وزیر اعظم کے منصب پر تعینات کیا گیا ہے نے ایک خط جو خفیہ ٹائپ کا تھا بھارت ارسال کیا کہ ہم سے بات کر لو۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس خط میں دہشت گردی کے بھارتی پسندیدہ موضوع پر بھی گفتگو کی پیشکش کی گئی۔ یہ کوئی ماضی بعید کا قصہ نہیں ہے کہ جب واجپائی پاکستان آئے تو انہوں نے لاہور میں کھڑے ہو کر جموں کشمیر پر بات کرنے کی بات کی۔ مودی تعلقات کو بہتر کرنے اور گفتگو کی غرض سے ایک سماجی تقریب کا بہانہ بنا کر دوڑا دوڑا آیا مگر ماضی کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی قیادت محتاط رہی۔ اس دوستی کی آڑ میں کوئی ایک ایسا حرف بھی ادا نہ ہو جائے کہ جو پاکستان کے خلاف ایک ثبوت کا روپ اختیار کر جائے۔ جیسے سابق فوجی آمر جو ڈرتے ورتے کسی سے نہیں تھے اور آج کل دوبئی میں مفروری کی زندگی کاٹ رہے ہیں نے بھارت سے مذاکرات میں دہشت گردی کے معاملے کو پاکستان کے ساتھ اس حد تک منسلک کر دیا تھا کہ اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین سے آئندہ بھارت میں دہشت گردی نہیں ہونے دے گا بالکل اسی کی مانند اب موجودہ حکومت نے دہشت گردی پر بات کر کے تحریری خفیہ خط بھیج کر بھارت کے ہاتھوں میں مشرف کے بعد دوسرا ثبوت پکڑا دیا ہے۔

بھارت نے اس خط کو مزید استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران وزرائے خارجہ کی ملاقات پر اقرار کر لیا۔ دنیا میں یہ خبر ایک بڑی خبر بن گئی کہ پاکستان کی نئی حکومت سے بات چیت دوبارہ شروع ہو رہی ہے۔ جب یہ خبر موضوع بن گئی تو ایسے واقعات کی آڑ میں کہ جن کا الزام جس کے سر چاہے منڈھ دو۔ بھارت نے ملاقات منسوخ کر دی اور دنیا میں یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو گیا کہ ہم تو پھر بھی دل پر پتھر رکھ کر مذاکرات یا ملاقات کے لئے تیار ہو گئے تھے مگر پاکستان دہشت گردی سے باز نہیں آیا۔ لہٰذا بادل نخواستہ ملاقات منسوخ کر دی ہے۔ کیونکہ ویسے بھی اس ملاقات کی ضرورت خواہش پاکستان کو تھی ہم تو بڑے پن کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ بھارتی اس اقدام پر پاکستان کے دفتر خارجہ کا بیان حماقت در حماقت کا بے مثال نمونہ ہے۔ بھارت نے ڈاک ٹکٹس کے اجراء پر اعتراض کیا۔ یہاں بیان یہ جاری ہوا کہ وہ ڈاک ٹکٹس 25 جولائی سے قبل جاری ہوئے تھے۔ ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ آپ کے سامنے ماضی کی حکومت کھڑی تھی ہم تو نہیں کھڑے۔ او بھائی ڈاک ٹکٹس کا معاملہ ریاست پاکستان کا ہے۔ ماضی کی حکومت کے متعلق ایسی گفتگو کر کے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ کہ وہ جان بوجھ کر بھارت کے دشمن تھے اور ہم سمجھ بوجھ رکھتے ہوئے بھی یہ جسارت نہیں کریں گے۔ اتنی کمزور خارجہ پالیسی کہ انسان دم بخود رہ جائے۔

جب بھارت یہ اقدامات کر رہا تھا تو اس وقت عرب ممالک کے دوروں پر گئے فواد چوہدری بھارت کی پاکستانی راستے سے تجارت کی اجازت کی حمایت میں بول رہے تھے۔ یہ بھی نہ کہہ سکے کہ کلبھوشن یادیو جن کو زمانہ حزب اختلاف میں وہ نام لے کر بلند بانگ دعوےٰ کرتے تھے کہ ان جیسے واقعات کے سبب سے یہ تجارتی راستہ نہیں کھولا جا سکتا۔ بس بھارت سے بھارتی مفادات کو تحفظ دیتے ہوئے دوستی کی خواہش۔ اتنی بھارت پرستی اچنبھا ہے۔ پھر یہ گفتگو وہ اس وقت فرما رہے تھے جب سی پیک کے منصوبے پر اس کی کامیابی پر ایک گومگو کی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے۔ چین کی سیاست اور خارجہ حکمت عملی مغربی ممالک اور امریکہ سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔ ان کا ہر فرد نہیں بولتا اور وہ اس وقت ہی عوامی سطح پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں جب اس کے بنا کوئی چارہ کار نہ رہے۔ یہاں یہ تصور دیا جا رہا ہے کہ گوادر آئل سٹی کا منصوبہ چین سے لیکر سعودی عرب کو دے دیا جائے گا اور وہ اس کے عوض پاکستان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے میں مدد کرے گا۔ اول تو ایسا کرنے سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ سی پیک سے وابستہ توانائی کی ضروریات پر امریکہ کی حکمرانی ہو گی کیونکہ سعودی عرب خود تو اس منصوبے کو مکمل نہیں کر سکتا۔ لامحالہ وہ اس کے لئے امریکہ سے ہی اس کی کمپنیوں کے ذریعے ہی اس کے ہنرمند افراد کی صلاحیتوں کے سبب سے ہی یہ منصوبہ پائیہ تکمیل کو پہنچا سکے گا۔ اب کان ادھر سے پکڑ لو یا ادھر سے بات ایک ہی ہے۔ اسی کیفیت کو سمجھتے ہوئے چینی صدر نے جنرل باجوہ سے ملاقات کی ۔ خیال رہے کہ یہ ملاقات جنرل باجوہ کے شیڈول میں شامل نہیں تھی۔ بات بھی انہی سے کرنی تھی کیونکہ چین پاکستان کی سیاسی صورتحال سے ناواقف نہیں ہے۔ پھر ابھی بیان کیے گئے بھارت نوازی کے اقدامات کے بعد چین میں یہ تصور پختہ ہوتا چلا رہا ہے کہ اگر معاملہ اب کرنا ہے تو کس سے کرنا ہے۔ ان کو اس کی سمجھ ہے۔ کیونکہ اب پردے میں کچھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).