جنسی ہراسانی آخر کب تک؟


قلم قبیلے سے تعلق رکھنے کی بنا پر ہمیں الفاظ کی حرمت کا زیادہ ہی پاس رہا ہے۔ مگر توبہ کیجئے صاحب، یہ پاکستان ہے، یہاں کسی کے بارے میں کچھ بھی شائع ہو جائے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ اخبار یا کتاب کی بات تو چھوڑئیے، ان الفاظ کو آپ قانون کی شکل بھی دے دیں، تب بھی بہت سے لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہونے والا۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ 2010ء میں کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے خلاف قانون بن چکا ہے لیکن دفتروں اور تعلیمی اداروں میں آج بھی خواتین کو ہراساں کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ جب تعلیمی اداروں میں اس طرح کے کیسز سامنے آتے ہیں تو کچھ لوگ یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ اس قانون کا اطلاق صرف کام والی جگہ پر ہوتا ہے اور طالبات کے ساتھ ہونے والے واقعات اس کے دائرے میں نہیں آتے۔

بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ جنسی ہراسانی سے کیا مراد ہے۔ آشا کی ویب سائٹ پر دی گئی قانونی تفصیلات کے مطابق جنسی طور پر ہراساں کئے جانے میں درج ذیل چیزیں شامل ہو سکتی ہیں، اگرچہ یہ محض انہی تک محدود نہیں ہے: زبانی طور پر ہراساں کرنا یا زیادتی کرنا، جنسی حرکات کے لئے اشارتاً دباﺅ ڈالنا، جنسی واقعات بیان کرنے کے بہانے جنسی دست درازی کرنا، ہاتھ لگانا، تھپکی دینا یا چٹکی کاٹنا، یا کسی کے جسم کو شہوانی نظر سے دیکھنا، جنسی عنایات کا مطالبہ کرنا، جس کے ساتھ اشارتاً یا واضح طور پرملازمت یا ترقی کے بارے میں دھمکیاں بھی دی جائیں اور جسمانی حملہ بشمول عصمت دری۔

ہمیں یہ سب کچھ لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ گذشتہ کچھ عرصہ میں کراچی یونیورسٹی میں خواتین کو ہراساں کرنے کے کئی واقعات پیش آئے لیکن ہمیں ان کا علم اس وقت ہوا جب ایک انگریزی اخبار میں طالبات کے حوالے سے رپورٹ نظر سے گزری۔ جب کہ ایک اور انگریزی اخبارنے ایک خاتون استاد کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ شائع کی۔ کراچی سے شائع ہونے والے اردو کے اخبارات نے ہمیشہ کی طرح چشم پوشی کو ہی مناسب سمجھا۔ اسی دوران سول سوسائٹی کے ایکٹوسٹس کو بھی طلبہ کے ایک گروپ کی جانب سے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا اور یوں سول سوسائٹی بھی متحرک ہو گئی۔ طلبہ بھی اب خاموشی توڑنے کا فیصلہ کر چکے تھے چنانچہ این ایس ایف (نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن) کے طلبہ نے گلستان جوہر میں ایک میٹنگ منعقد کی جس میں جنسی ہراسانی کے خلاف 2010ء میں منظورہونے والا قانون بھی زیر بحث آیا۔ این ایس ایف کے آرگنائزر محمد افضل کا کہنا تھا کہ یہ قانون طلبہ کا احاطہ نہیں کرتا، یہ صرف ملازمین کو تحفظ دیتا ہے، طلبہ کو نہیں۔ اس کے بعد سول سوسائٹی کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں بھی طلبہ نے یہ بات دہرائی۔

اس قانون کے حوالے سے کچھ سال پہلے ہمیں فوزیہ سعید کے ساتھ پاکستان بھر میں پروگرام کرنے کا موقع ملا تھا، چنانچہ ہم نے ان سے رابطہ کیا۔ فوزیہ کا کہنا تھا کہ یہ قانون طلبہ کی شکایات کا بھی پورے طور پر احاطہ کرتا ہے۔ اس پر کافی لمبی بحث ہوئی تھی اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ قانون یونیورسٹیوں اور طلبہ کے لئے بھی ہے، شکایت کرنے والے کا ملازم ہونا ضروری نہیں ہے، وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے لیکن زیادتی کرنے والے کا ملازم ہونا ضروری ہے چنانچہ اگر استاد طلبہ کو ہراساں کرتا ہے تو یہ قانون اس پر لاگو ہوتا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بھی اس ضمن میں پالیسی بنائی ہوئی ہے جو طلبہ کی طلبہ کے ساتھ زیادتی کا احاطہ کرتی ہے۔

چونکہ یونیورسٹیوں میں جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، اس لئے طلبہ اور اساتذہ کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کی داد رسی کے لئے اب ایک قانون موجود ہے، اور اپنی شکایت کے ازالے اور انصاف کے حصول کے لئے انہیں قانونی راستا ہی اختیار کرنا چاہئیے۔ طالبات کو خاص طور پر یہ بات معلوم ہونی چاہئیے کہ اگر ان کا کوئی استاد یا سپر وائزر بعض فوائد دینے کے عوض جنسی تعلق پیدا کرنے کا تقاضہ کرتا ہے، کوئی بھی نا خوش گوارجنسی پیش قدمی یا بیہودگی کرتا ہے، تو یونیورسٹی کی انکوائری کمیٹی ان کی تحریری شکایت کے نتیجے میں اس معاملے کی تحقیق کر سکتی ہے، اور شکایت صحیح ہونے کی صورت میں زیادتی کرنے والے کو قانون کے مطابق سزا ملے گی۔ اگر آپ انکوائری کمیٹی کے فیصلے یا تفتیش سے مطمئن نہیں تو آپ اپنی شکایت جنسی ہراسانی کے محتسب اعلیٰ کے پاس لے کر جا سکتے ہیں۔ یہ ساری تفصیلات آشا کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔

قانون اپنی جگہ بہت ٹھوس اور موثر ہے لیکن ہمارے سماجی روئیے اور مفاد پرستی انصاف کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں، ذرا سوچئے اس لڑکی کے بارے میں جو بڑی مشکل سے اپنے گھر والوں کو راضی کر کے تعلیم حاصل کرنے یونیورسٹی یا ملازمت کرنے کسی ادارے میں جاتی ہے اور وہاں اس کا استاد یا سپروائزر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے، یا اس کے لئے مخالفانہ ماحول پیدا کرتا ہے یا انتقامی کارروائی پر اتر آتا ہے تو اس کی شکایت کرنے سے پہلے وہ لڑکی ہزار مرتبہ سوچے گی، کہیں اس کے گھر والے اسے تعلیم یا ملازمت چھوڑنے پر مجبور تو نہیں کر دیں گے؟ اور پھر سب سے بڑا خوف جو بچپن سے ہمارے ذہنوں میں بٹھایا جاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اگر لڑکی آواز اٹھانے کی ہمت پیدا کر بھی لیتی ہے اور شکایت درج کرا بھی دیتی ہے تو طبقاتی اور پدرسری نظام کے مراعات یافتگان آستینیں چڑھا کر کھڑے ہو جاتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ کسی مظلوم کی شکایت ان کے ادارے کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے، زیادتی کرنے والے کے کرتوتوں پر پردہ ڈال کر اپنی دانست میں وہ اپنے ادارے کی ساکھ کو بچا رہے ہوتے ہیں اور انہیں ایک لمحے کو بھی خیال نہیں آتا کہ یوں وہ انصاف اور سچائی کا قتل کر رہے ہیں۔ سول سوسائٹی پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ مظلوم کا ساتھ دے اور قانونی راستا اختیار کرنے میں اس کی رہنمائی کرے اور اس کو اخلاقی مدد فراہم کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments