مشرق و مغرب کے استاد اور تعلیم


 

بیلجئم کی لیون یونیورسٹی کے فلاسفی ڈیپارٹمنٹ میں ”فلاسفی آف سائنس“ کا اورل ایگزام تھا۔ دس سٹوڈنٹس کو پروفیسر صاحب نے بلایا ہوا تھا۔ راؤنڈ ٹیبل پر بیٹھے سب طلباء کو بیس ٹاپکس کی ایک لسٹ اور ایک رائیٹنگ شیٹ دیدی گئی۔ بعد میں پروفیسر صاحب نے ہر سٹوڈنٹ کو لسٹ میں سے ایک مختلف ٹاپک پر لکھنے کو کہا۔ دس منٹ بعد ایک ایک کر کے سٹوڈنٹس کو بلانے لگے۔ ہر ایک کی شیٹ پر نظر ڈالتے اور اسی ٹاپک سے متعلق چند سوالات کرتے اور پانچ دس منٹ میں ایک سٹوڈنٹ فارغ ہو جاتا۔

میرا نمبر آخر میں آیا۔ تب تک پروفیسر صاحب کچھ تھک چکے تھے اور انہیں کافی کی طلب بھی ہو رہی تھی۔ مجھے دو منٹ انتظار کرنے کا کہا اور خود کافی لینے ملحقہ کمرے میں چلے گئے۔ واپس آئے تو کافی کے دو گلاس ان کے ہاتھ میں تھے۔ ایک مجھے پکڑایا اور پینے کو کہا۔ اپنی نشست پر براجمان ہونے کے بعد انہوں نے کافی کی چسکی لی اور ایگزام میں دیر ہو جانے پر مجھ سے معذرت کی جس کی ظاہر ہے چنداں ضرورت نہیں تھی۔ چند چسکیوں کے بیچ میری شیٹ یعنی اعمال نامے پر نظر ڈالتے رہے۔ گرم گرم کافی کا مسحور کن آروما مجھے اشتہا دے رہا تھا۔ جیسے ہی چسکی لی ایک ایک عجیب سرور ایک عجب سرشاری ایک الگ احساس جاگزیں ہوا جو پاکستان میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ کافی کے مسحور کن آروما کی خاصیت تھی یا یہ احساس کہ پروفیسر صاحب نے اپنے ہاتھوں سے بنائی تھی۔

مجھے پاکستان کے وہ سخت گیر اساتزہ یاد آنے لگے جو طلباء کو ٹیوشن کے لئے گھر بلانا تو جیسے اپنا منصبی استحقاق سمجھتے تھے۔ جن کی بھر پور کوشش کے بعد شاگرد ٹیوشن پر نہ آتے تو جوابی وار میں بے موقع و بے محل اللہ بخش کے کٹاس ان کا مقدر بنتی تھی۔ اللہ بخش ان کا پسندیدہ بید کا ڈنڈا ہوتا تھا جس کو ادبی طور پر بھلے آپ مہمیز کہہ لیں یا تازیانہ۔ مگر جب اس کی چوٹ تشریف پر پڑے تو یوں لگے کہ تعلیم و ادب تو بس جائیں بھاڑ میں۔ منتقم مزاج استاد کی تسکینِ انتقام میں رہ گئی کسر پھر بورڈ کے لیے داخلہ بھجنے میں لیت و لعل اور آخر میں بورڈ ایگزام میں حتمی عدم شمولیت پر منتج ہوتی۔ مجبوراً طلباء پرائیویٹ طور پر داخلہ بھجوانے پر مجبور ہوتے۔

پھر سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ کافی نوشی کے دوران انتہائی خوشگوار ماحول میں سوالات و جوابات کا یہ دلکش امتحانی مرحلہ کتنا یادگار تھا۔ ایک تو استاد کے ہاتھ کی بنی کافی، اور پھر کافی کے دور کے بیچ ایگزام۔ کچھ ہی دیر میں یہ مرحلہ خوشگوار انداز میں اختتام پذیر ہوا۔ رخصت ہوا تو ایک عجب سی سرشاری ہمراہ تھی۔ کافی کا عجب ہی سرور۔ کافی کا آروما تھا یا شاید یہ احساس کہ آج پروفیسر صاحب کے ہاتھوں کی کافی پی ہے۔ باہر نکلا تو جمپ لگانے کا دل کرتا تھا۔ وجہ شاید یہ رہی کہ اورل ایگزام اچھا ہو گیا یا وہی احساس کہ پروفیسر صاحب نے کافی پلائی ہے۔

کیا پاکستان کے پروفیسر بھی اپنے ہاتھ کی بنی کافی پلاتے ہیں؟ کچھ سوچنے کے بعد میرا جواب ہے کہ کیوں نہیں۔ یہاں تو ہوٹلوں پر کھانا بھی کھلاتے ہیں مگر اسکے لیے ضروری ہے کہ آپ داڑھی مونچھ والے گھبرو جوان نہیں بلکہ نازک اندام دوشیزہ ہوں۔ یاد رہے کہ شکایات ہیں کہ ایم فل کی طالبات کو ان کے پروفیسر حضرات ریسرچ پیپر پر ڈسکس کے بہانے ہوٹلوں میں آنے پر مجبور کرتے ہیں اور یوں بات بڑھتے بڑھتے ان کے جنسی استحصال تک جا پہنچتی ہے۔ مدارس کے غریب و لاچار مولوی سے غلطی ہو جائے تو آسمان سر پر اٹھانے والی ”موم بتی مارکہ“ سول سوسائٹی سے دست بستہ درخواست ہے کہ اس غریب کے علاوہ بھی اس معاشرے میں کچھ اور ناسور ہیں۔ مگر ان انٹیلیکچوئلز جنسی بلوں کو ایکسپوز کرنے کے لیے شاید ڈالرز و یوروز فنڈ قائم ہی نہیں ہوا جیسا مولوی اور مدارس کو بدنام کرنے کے لیے غیر ملکی وافر ذرائع دستیاب رہتے ہیں۔

جو لوگ اچھے پی ایچ ڈیز بنا رہے ہیں۔ وہاں کے نظام تعلیم میں استاد کے پاس کسی قسم کا خدائی اختیار تو ہے نہیں مگر جہاں تعلیم کا سرے سے کوئی پرسان حال نہیں وہاں معالمین مانگیں خدائی اختیارات۔ جن کو کوئی ادارہ لیتا نہیں وہ لاچار تعلیم کے شعبہ میں آ جاتے ہیں۔ اور پھر کہتے ہیں کہ استاد کی قدر و منزلت نہیں۔ میرا خیال ہے قدر و منزلت کے شایان شان اساتذہ ہی خال خال رہ گئے ہیں، ہر شعبے کی طرح یہاں بھی قحط الرجال کی سی کیفیت ہے۔ ہر شعبہ زندگی کی طرح تعلیم بھی نا اہل اور چوروں کے ہاتھ میں آ گئی ہے۔

آج بچوں کی تعلیم کے لیے والدین کو طرح طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ پرائیویٹ سکول تو مکمل مافیا بن چکے ہیں۔ اڈوانس، سیکیورٹی اور نجانے کیا کیا چونچلے۔ سمجھ نہیں آتا کہ بچہ بھی ہم ان کے حوالے کر رہے ہیں اور سیکیورٹی بھی ہم دیں۔ لالچی مافیا نے بہانے بہانے سے والدین کی جیبوں کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ کاپی پر کماتے ہیں، کتابوں یونیفارم میں کھاتے ہیں اور فیسوں کے سٹرکچر کا تو مت ہی پوچھئے۔ شروع میں کہتے ہیں کہ ہمارے پڑھانے کا انداز یوں ہے کہ اضافی ٹیوشن کی ضرورت ہی نہیں ہوتی مگر بعد میں کہا جاتا ہے کہ ہوم ٹیوٹر کو فلاں مضمون میں اضافی توجہ کا کہیں یا اسے کہیں کہ خوشخطی پر توجہ دے۔

بات ہوم ٹیوشن کی ہوئی تو بتانا مناسب رہیگا کہ ایک بار ٹیوٹر نے عجیب مطالبہ کر دیا کہ اسے بچے پر تھوڑی سختی اور مارنے پیٹنے کی اجازت دی جائے۔ اگر میں روایتی باپ ہوتا اور یورپ کے تعلیمی نظام کو نہ سمجھتا ہوتا تو بخوشی مطلوبہ اجازت دے دیتا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ خود بھی مقامی تعلیمی نظام کا ڈسا ہوا تھا، ٹیوشن نہ لینے کی پاداش میں بورڈ میں میرا داخلہ بھی پرائیویٹ ہوا اور یوں میٹرک کی سند پر میرے محبوب سکول کا ٹائٹل موجود نہیں اور سکول کے فیئر ویل میں شرکت کر سکا نہ ہی ہمجماعت دوستوں کے ساتھ گروپ فوٹو میں آ سکا جس سب کے لیے میں اس کے محرک استاد کو کبھی معاف نہیں کر سکتا۔

سو نوجوان ٹیوٹر کو میرا جواب تھا کہ اس بات کی اجازت قطعاً نہیں دی جا سکتی۔ پڑھائی پیار اور شفقت کی متقاضی ہے اور جس میں یہ اوصاف مفقود ہوں انہیں تعلیم تو کجا بچوں سے بھی دور رہنا چاہیے۔ نوجوان ٹیوٹر بحث کرنے لگا کہ ہمارے والدین تو ہمارے اساتذہ کو کہا کرتے تھے کہ بچوں کو خوب ماریں پیٹیں بلکہ ان کی چمڑی اساتذہ کی ہی تو ہے، صرف ہڈیاں ہم والدین کی ہیں۔ مجھے اس کے الفاظ نے ورطہ حیرت می ڈال دیا۔ مگر جلد ہی مناظر ذہن میں گھومنے لگے جن سے عیاں ہوا کہ نوجوان ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا۔

قاری صاحب نے سبق یاد نہ کرنے پر ایک طالب کی بازو توڑ دی تھی۔ آئے روز خبریں اخبارات کی زینت بنتی تھیں کہ استاد نے ڈنڈے مار مار کر نوخیز طالبعلم کو جان سے ہی مار ڈالا۔ میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ آج تعلیم میں ترقی وہاں ہو رہی ہے جہاں یہ فرسودہ خیالات نہیں ریے۔ اور جہاں یہ فرسودگی موجود ہے وہاں ترقی ہو نہیں سکتی۔ لہذا چوہدری پرویز الہی کا سکولوں کے باہر ”تعلیم مار نہیں پیار سے“ پر مبنی بورڈ آویزاں کرنا انتہائی قابل ستائش ہے۔ اور اس پر عملدرآمد کروانا سکول و شہر کی انتظامیہ پر فرض ہونا چاہیے۔

یورپ کے سکولوں میں ایک تو تعلیم بالکل فری ہوتی ہے اوپر سے بچے کے ساتھ انتہائی پیار و شفقت والا معاملہ روا رکھا جاتا ہے۔ ٹیچر کا رویہ انتہائی حد تک دوستانہ ہوتا ہے۔ آپ آپ اور آداب جیسے قرینوں کو بالکل روا نہیں رکھا جاتا۔ بچے جیسے دیگر دوستوں کے ساتھ تو تکار یعنی تو تو کر کے بات کرتے ہیں ویسے ہی ٹیچر کے ساتھ بغیر آپ آپ کے مخاطب ہوتے ہیں۔ یہی دوستانہ ماحول بچوں میں اعتماد پیدا کرتا ہے اور اسی ماحول میں پلے بڑھے بچے تعلیم کے میدان میں پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں، پروفیشنل ڈاکٹر انجینئر اور سکالر بن رہے ہیں۔

بے جا عزت و آداب اور مار پیٹ کے اختیارات یہاں اساتذہ کو جلاد تو بنا ہی رہے ہیں، بچوں میں عدم تحفظ و اعتماد کے علاوہ ان کے جنسی استحصال کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ بچوں کو والدین پر اعتماد ہونا چاہیے اور سکول یا مدارس میں کچھ بھی ایسا ویسا پیش آئے، والدین کو بتانے کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ تاکہ وہ کسی بھی قسم کی سفاکیت سے محفوظ رہ سکیں۔ یہی بچے قوم کے مستقبل کے معمار ہیں اور ان کا تحفظ سب کچھ پر مقدم ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).