تسطیر ہے کیا؟


 میں تسطیر کے دوسرے جنم سے واقف ہوں، اس کا پہلا دور میری غیر حاضری میں تھا۔ صرف یہ معلوم تھا کہ اردو کے معروف شاعر نصیر احمد ناصر تسطیر کے مدیر ہیں۔ وہ پہلا دور کیسا تھا؟ نصیر احمد ناصر کیسے اِسے سنبھال رہے تھے؟ کیا کچھ اس میں قلم بند ہو رہا تھا؟ اردو ادب کی تاریخ کے حوالوں سے تو بہت اہم سوال ہیں، لیکن سچ پوچھئے، میری اس طرف توجہ ہی نہ گئی۔ اس کی ایک خاص وجہ تو یہ رہی کہ ملک سے باہر تھا اور غمِ روزگار میں مبتلا۔

چند برس پہلے ہی پاکستان واپس لوٹا ہوں، اور ان چند برسوں میں دل کے عارضہ و دیگر نجی مصروفیات نے صرف اتنی ہی مہلت دی ‘کہ میں پہلے سے مرقم اپنے دو انگریزی ناولوں کی طباعت و اشاعت کے کام کو دیکھتا اور کچھ زندگی کی حقیقتوں کو اپنے افسانوں کی نذر کرتا، سو یوں اِسی دوران ٹیکنوبِز میں انگریزی آرٹیکل لکھنے کے ساتھ ساتھ چار پانچ برسوں میں دو اردو افسانوی مجموعے بھی منصہ شہود پر آئے۔

خیر آمدم بر سر مطلب‘ جب تسطیر کے دوبارہ اجرا کا سنا تو فوراً نصیر احمد ناصر سے رابطہ ہوا اور تب سے تسطیر لغوی معنوں میں اور محاورتاً دونوں صورتوں میں شامل زندگی ہے۔ میری زندگی ہمیشہ متحرک رہی اور ہر دور اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ مطالعہ زندگی کا محور تھا، جو آج عنقا ہے، لیکن نہ نہ کرتے ہوئے بھی درجن بھر ادبی و سماجی جریدے دل و جان کا سرمایہ ہیں، اور سچ پوچھیں تو تسطیر ان میں سے ایک ہے۔ کسی بھی ادبی جریدے کے معیار کا اگر اندازہ لگانا ہو تو اس کے مدیرِ حقیقی کا مطالعہ کر لیں ( یہ اس لئے کہا کہ اکثر ادبی جریدوں میں مدیروں کی درجہ بہ درجہ ایک طویل قطار ہوتی ہے)، اس کے روز و شب کا اندازہ کرلیں، اس کے ادبی وفور اور محرکات، شاعری ہو یا نثر‘ ضرور دیکھ لیں، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ رسالہ کس معیار کا ہے‘ اوراس کی آواز کس قدر منفرد اور توانا ہے؟

تسطیر میں یہ سب کچھ کرنے کی آپ کو ضرورت نہیں۔ نصیر احمد ناصر صرف شاعر نہیں، اپنی ذات میں انجمن ہیں، وہ سبھی کچھ کر دیکھتے ہیں۔ اس لئے تسطیر کے بارے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں ’ لا بروٹیلائٹ‘ یا ”وائلنس آف اٹرینس“ بدرجہ اتم موجود ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کیوں ہے؟ اس میں نوجوان نسل کی نمائندگی بِلا امتیاز ہے۔ ہم جیسے لوگ ” بِینگ ایٹ ایز“ ہیں ، جو یونیورسٹلٹی کو بھگتا چکے ہیں ، سو کسی حد تک’ میوٹ انڈر سٹینڈنگ‘ کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اپنی تخلیقات کو جنم دیتے ہیں۔

حسن عسکری نوجوان ادیبوں کی تخلیقیت میں الگ رنگ دیکھتے تھے۔ وہ منٹو کے لہجے کو راجندر سنگھ بیدی کے ساتھ جب تقابلی جائزے میں لاتے ہیں‘ تو راجندر سنگھ میں ہندوانہ مزاج کی ’ میوٹ انڈر سٹینڈنگ یعنی‘ خاموش تفہیم دیکھتے ہیں، جب کہ وہ منٹو میں ’وائلنس آف اٹرینس‘ یعنی ’ بیان کے تشدد‘ کو نمایاں پاتے ہیں۔ آج یہ اصطلاح کس حد تک لاگو ہوتی ہے یہ ایک مدیر ضرور سمجھ جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نصیر احمد ناصر تسطیر میں نوجوان نسل کے نمائندہ ادیب و شاعروں کو ممکنہ حد تک ادبی دائرہ کار میں سمیٹ لیتے ہیں۔ یہ مقناطیست اس کے نارتھ، ساؤتھ پول کا کھیل ہے۔

 آج کا نوجوان کہیں برق رفتار ہے، وہ فاصلوں کو لائٹ ائیر سے نہیں ناپتا ، کہ اِس کے اندر لائٹ ائیر سمو کر’ ہائبرڈ‘ ہو چکے ہیں، تیز رفتاری، گونج، آسمانوں کی وسعتوں میں خیال کی پرواز اور پھر انسانوں میں اتر آنا، انھی کا خاصہ ہے۔ نصیر صاحب میری طرح نوجوانوں سے امیدِ بہار رکھتے ہیں، جو تسطیر کا خاصہ ہے۔

لیکن صاحب! یہ جو نصیر صاحب ہیں نا، اپنی ذات میں انجمن ہیں، میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ انھوں نے اِس ہنگامہِ تسطیر میں ایک شمع معاصر سینئر ادیبوں اور شاعروں کے سامنے بھی رکھ چھوڑی ہے، وہ وقت کی ساعتوں کو اسیر رکھنے کا فن جانتے ہیں۔ وہ سینئر ترین اساتذہ کی ادبی سخن وری اور طبع آزمائی سے خوب آشنا ہیں۔ اہم بات یہ کہ کسی بھی متوازن ادبی جریدے میں کلاسیک ادب کی چاشنی، معاصر ادیبوں اور شاعروں کے فن پاروں کو مناسب نمائندگی دینا اور مختلف الخیال مکتبہ فکر کو اظہار خیال کا سپیس دینا اور سنجیدہ ادب کے قارئین کو یک جا رکھنا کار دارد ہے۔ میرا خیال ہے تسطیر دنیائے اردو ادب میں واحد ایسا جریدہ ہے جو کلاسیک، پرانے، معاصر اور نئے لکھنے والوں کو یک جا لئے قاری کے سامنے پیش ہوتا ہے۔ اس میں نصیر احمد ناصر کتنے کامیاب ہیں اس کا فیصلہ تو بہرحال قارئین ہی کریں گے۔

تسطیر کی ایک خاصیت اور بھی ہے کہ اس میں اب تک ماضی کے رسالوں جیسی تاخیر، مالی مسائل کا رونا، اور گاہے بگاہے زر تعاون کی آگہی شامل نہیں۔ یوں تو سبھی پبلشر مالی وسائل سے نبرد آزما رہتے ہیں، وہ الگ بات کہ ادیب کی ان تک رسائی ہوتے ہی وہ ایسی ادبی ’ میوٹ انڈرسٹینڈنگ‘ پیدا کر لیتے ہیں کہ ادیب اپنے خون سے لکھے جوہر پاروں کو تھما کر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا کہ کہیں پتھر کا نہ ہوجائے۔ وقت پر طباعت کے کام سے لیکر جریدے کی ممکنہ قاری تک کی ترسیل میں شفاف انتظام و انصرام تسطیر کو آج کی ادبی دنیا میں منفرد مقام پر لا کھڑا دیتا ہے۔ اور یہ کریڈٹ مدیر اور پبلشر دونوں کے لئے لائقِ ستائش ہے۔

یہ سب لکھنے کے بعد میں نے سوچا کہ اب تسطیر کے ان مقامات کو بھی قلم کی نوک سے چھیڑا جائے جو کمزور یا نازک ہیں، لیکن اے کاش، میں ڈھونڈ پاتا۔۔۔ میرے سامنے اس وقت تسطیر کے تین چار شمارے پڑے ہیں۔ بار بار انھیں الٹ پلٹ کر دیکھتا ہوں ، ورق گردانی کرتا ہوں ، فہرست دیکھتا ہوں، مضامین ، شاعری ، نثر اور متفرق۔۔۔ سب کچھ تو ہے۔ کیا نہیں ہے؟

 تسطیر چمنستانِ اردو ادب میں برگ گل کی مانند، ہر پھول، ہر کلی اپنی مہک سمیت قاری کے ساتھ ہمسفر ہے۔

 اس لئے کہ تاریخ تو یہی سچ لکھے گی کہ تسطیر میں ہم سب ایک سفر میں ہیں۔

تبسم کاشمیری کی ایک نظم کی طرح

” خواب میں ایک سفر “

۔۔۔

کتابیں ، بیاضیں

خواب کی کشتیاں، نادیدہ جزیرے

سجے ہوئے گل دان

خوابیدہ دن، بے خواب راتیں

کھڑکی سے جھانکتے طلسمی ہونٹ

اور آنکھوں میں اڑتے

کسی یاد کے حروف

صبح دم میز پر ناشتے کی خوشبو

اور سرِ شام

یخ بستہ مشروبات کا انبساط

میں اور میرا قلم

حرفوں کے خیمے،لفظوں کے گھاٹ

میں اور میری نظموں کے مسکن

سیڑھیوں سے اترتا ہوا

گزشتہ برس کا ایک خواب

اور خواب میں ایک لمبا سفر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).