کیمیکل انجینیئرنگ کے طالب علم سیف اللہ نے خودکشی کیوں کی؟


این ایف سی یونیورسٹی جڑانوالہ روڈ فیصل آباد پر قائم ہے- اس تعلیمی ادارے میں انجینیئرنگ کی تعلیم اور فرٹیلائزر پر ریسرچ کی جاتی ہے- اس تعلیمی ادارے کا الحاق یو ای ٹی لاہور سے ہے- یہ تعلیمی ادارہ اچھے تعلیمی معیار کے حوالے سے جانا جاتا ہے- اور انجینئرنگ کے طالب علموں کی خواہش ہوتی ہے، کہ اس تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل کی جائے-

گزشتہ شب صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم سیف اللہ نے یونیورسٹی کی مشکل و سخت پڑھائی سے تنگ آ کر از خود اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا- خبر کے مطابق یونیورسٹی نے طالب علم کو خراب تعلیمی کارکردگی کی بنیاد پر یونیورسٹی سے بے دخل کرنے کا نوٹس دیا تھا- تفصیلات کے مطابق طالب علم سیف اللہ کیمیکل انجینیئرنگ کا طالب علم تھا-

خودکشی سے قبل سیف اللہ نے ایک خط بھی لکھا، جس میں اس نے اپنے والدین اور اساتذہ سے اپنی خودکشی کے عمل اور پڑھائی میں ناکامی پر معافی بھی مانگی ہے- خط میں یہ بھی لکھا ہے، کہ خود کشی کی وجہ نہ ڈھونڈی جائے اور نہ ہی مجھے بچایا جائے، بلکہ میری لاش کو ہاتھ بھی نہ لگایا جائے- اسی وجہ سے سیف اللہ کے غم زدہ والد نے پولیس سے گزارش کی ہے، کہ کوئی بھی محکمانہ کارروائی نہ کی جائے-

گو کہ سیف اللہ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اس کے خودکشی کرنے کی کوئی وجہ نہ ڈھونڈی جائے- لیکن اگر اس جملے پر غور کیا جائے، تو اس جملے کی پشت پر ہی سیف اللہ کی خود کشی کی وجہ نظر آتی ہے- اور ہر اس وجہ کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، جس کی وجہ سے طالب علم خود کشی جیسے منفی اقدام پر مجبور ہوجاتے ہیں-

سیف اللہ کی خود کشی کی بنیادی اور پہلی وجہہ ہمارا طبقاتی اور دوہرا نظام و نصاب تعلیم کا ہونا ہے- دوسری وجہ پیشہ ورانہ اعلی تعلیمی اداروں کا نظام داخلہ ہے-جب کہ تیسری وجہ کسی ایسے نظام کا نہ ہونا ہے، جس کے ذریعے طالب علم کی اعلی تعلیم کے حصول کے رہنمائی کی جاتی ہو-

طبقاتی اور دوہرے نظام و نصاب تعلیم کی وجہ سے طالب علموں کی علمی و تعلیمی استعداد میں واضح فرق ہونے کے ساتھ، ان کی سوچ و فکر میں بھی واضح فرق محسوس کیا جا سکتا ہے- اس وجہ سے ایک ہی جماعت میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کے تعلیمی نتائج یکسر مختلف ہوتے ہیں اور تعلیمی نتائج کے مختلف ہونے کی وجہ سے تعلیمی میدان میں کمزور طالب علم احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں-

پیشہ ورانہ اعلی تعلیمی اداروں میں جہاں میرٹ پر داخلے دیے جاتے ہیں، وہیں کچھ نشستیں وطن عزیز کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لیے بھی مختص ہوتی ہیں- دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا بھی کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کے اہل ہوتے ہیں- پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا اور دیہی کوٹے پر داخلے کے لیے منتخب ہونے والے طلبا، تعلیمی میدان میں اکثر میرٹ پر داخلہ لینے طلبا سے مقابلتاً پیچھے ہوتے ہیں- اس وجہہ سے بھی تعلیمی میدان میں کمزور رہنے والے کچھ طلبا احساس کمتری میں مبتلا ہونے کے ساتھ پریشان بھی رہتے ہیں-

ابتدائی تعلیمی دور میں اساتذہ اور والدین طلبا کے تعلیمی میلان اور رجحان کا اندازہ ایسے کسی نظام کے نہ ہونے کی وجہہ سے لگا ہی نہیں پاتے، کہ طالب علم کے لیے کون سا شعبہ تعلیم اس کے تعلیمی میلان و رجحان کے مطابق ہے- ماں چاہتی ہے، بچہ ڈاکٹر بنے اور باپ چاہتا ہے کہ بچہ انجینیئر بنے- یوں بچہ ڈاکٹر اور انجینیئر تو بن جاتا ہے- لیکن اکثر اچھا ڈاکٹر اور انجینیئر نہیں بن پاتا- اور پیشہ ورانہ زندگی میں بھی دیگر ڈاکٹرز اور انجینیئرز کے برابر نہ ہونے کا دکھ اسے ستاتا رہتا ہے-

یکساں نظام و نصاب تعلیم کے نفاذ اور طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کی بات موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح روز اول سے کر رہی ہے- لیکن اب تک کوئی ایسی ٹھوس منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی، جس سے یکساں نظام و نصاب تعلیم کے نفاذ اور طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ممکن ہو-

حکومت وقت کم از کم یہ تو کر سکتی ہے، کہ پیشہ ورانہ اعلی تعلیمی اداروں میں داخلہ ان طلبا کو دینے کا نظام بنائے، جو میرٹ پر داخلہ لینے کے اہل ہوں- اسی طرح والدین بھی بچوں پر نا جائز تعلیمی دبائو ڈالنے سے باز رہیں اور بچوں میں ان کی ذہنی و تعلیمی استعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے، تعلیمی مشورے دیں- نہ کہ اپنی ذاتی خواہش پوری کرنے کے لیے بچے پر ڈاکٹر یا انجینیئر بننے کا دبائو ڈالیں-

اگر پیشہ ورانہ اعلی تعلیمی اداروں میں داخلے میرٹ پر ہوں- اور وہی طلبا ان اداروں میں داخلہ لیں، جو ڈاکٹر و انجینیئر بننا چاہتے ہیں، تو ہی ایسے الم ناک واقعات سے بچا جا سکتا ہے، جیسا این ایف سی یونیورسٹی فیصل آباد میں گزشتہ شب پیش آیا-


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).