حکومت آ نہیں رہی ،حکومت آ چکی ہے۔


اگر ہم پاکستان تحریک انصاف کی اب تک کی حکومت کا جائزا لیں اور اس پر صحیح یا غلط حکومت کا اسٹمپ لگا دیں تو یہ کسی بھی نئی حکومت کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ کیونکہ ابتداء میں ہر نئی آنے والی حکومت کو سنبھلنے کے لیئے وقت درکار ہوتا ہے۔تحریک انصاف کی حکو مت ابتداء سے ہی مشکلات اور تنازعات کاشکار ہو گئی تھی،اس کی وجہ وزیر اعظم عمران خان کی پہلی تقریر کی کچھ باتیں ہو سکتی ہیں ۔کیونکہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں بہت سے وعدے اور دعوے کیئے جن میں سے کچھ قبل ازوقت یا غیر ضروری تھے۔نہ وہ وزیر اعظم ہاؤس چھوڑنے کی بات کرتے ،نہ وہ وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات کی بات کرتے ،نہ وہ پروٹوکول کی بات کرتے تو شاید میڈیا بھی ان باتو ں کو نظراندازکرلیتا یا اتنی اہمیت نہیں دیتا ۔وزیر اعظم عمران خان نے خُدکہا کے ہمیں ہماری برُائیاں بتایا کرو اور ہماری غلطیوں کی نشاندہی کیا کرو۔بس تو پھر سوشل میدیا والوں کے اور مخالفین کے ہاتھ کُل کر چلے ، میڈیا نے بھی خوب تڑکا لگایا۔عمران خان کی حلف برداری کے فورًابعد سلیم صافی کا سابقہ وزیراعظم نواز شریف کے اخراجات کے بارے میں بات کرنے سے سوشل میڈیا پر جیسے اک ہنگامہ برپاہو گیا اور نیوز چینلز پر بھی اس موضوع پر بہت بحث ہوئی ۔اس کے بعد وزیراعلی پنجاب عثمان بُزدار کا ہیلی کاپٹر استعمال کرنے پر اک واویلا مچایا گیا ۔ یہاں تک کہ مختلف نیوز چینلز پر ہیلی کاپٹر کے پیٹرول کی قیمتوں کا تخمیہ لگانے میں مصروف رہے۔ یہ معاملہ گرم ہی تھا کہ لاہور کے وزیر ثقافت کے نرگس اور شبنم پر حج اور روزے کے بیان پر تحریک انصاف کی حکومت کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔اس سے پہلے عمران شاہ کا کراچی شہری پر تشدد کا معاملہ بھی میڈیا کی خبروں کا زینت بنا اور چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لینا پڑا۔ آگے کیا ہوا ؟ جب عامر لیاقت بھی دبنگ انٹری کے ساتھ میڈیا پر آئے اور وزیر اعظم عمران خان سے گلے شکووں کے انبار لگا دئے۔تو ان حالات میں بجائے اک نئے حکومت ملک کے بنیادی مسائل کے لیئے اپنی حکمت عملی تیار کرتی وہ ان مسائل اور تنازعات میں اُلج گئی۔بجائے ملک کے مسائل پر بات کرنے میڈیا اور تحریک انصاف ان معاملات پر بحث ومباحثوں میں اُلجھے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ابتداء میں ہی مشکلات کا شکار رہے۔جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے سینئیر صحافیوں کے ساتھ ایک میٹنگ میں کہا کے انہیں اور انکی ٹیم کو نووے(90)دن کا ٹائم دیں اب میڈیا ہر بات کو اچھالنے سے گریز کرتی ہے۔ اسی دوران وزیراعظم عمران خان نے ایران،جاپان، ترکی ، سعودی اور چائنہ کے ُوزراء سے بنی گالہ میں ملاقاتیں کیں اور ملک کے مختلف اداروں میں بریفنگزبھی لی۔وزیر اعظم عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان کے ڈیم فنڈ کی ہمایت کرتے ہوئے اسے مشترکہ فنڈ یعنی پرائم منسٹر اینڈ چیف جسٹس ڈیم فنڈ کے نام سے اسکی کیمپین کا آغاز کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے خاص طور پر اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل کی کے کم از کم وہ ایک ہزار ڈالر ڈیم فنڈ میں جمع کرائں۔ جہاں اس فیصلے کو عوام نے بہت سراہا وہیں کچھ سیاستدان اور تجزئیہ کاروں کایہ خیال ہے کے ڈیم کی رقم چندوں سے پوری نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح کی باتیں سامنے آہی رہی تھی کے چیف جسٹس کا بیان آیا کہ جو ڈیم بننے کی مخالفت کریگا اسکے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کاروائی ہوگی۔
اس کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے وزیراعظم ہاؤس کو تعلیمی ادارہ اور تمام گورنر ہاوئسز کو میوزیم اور پارکس میں تبدیل کرنے کا بیان آ تا ہے۔یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے ایسا کرنا آسان نہیں ہوگا اور اس میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔کیا ان عمارات کے نقشے بھی تبدیل ہونگے؟اگر ہونگے تو اس پر لاگت کتنی آئی گی؟کیا پانچ سال بعد اگر کسی اور پارٹی کی حکومت آتی ہے کیا وہ اسے تسلیم کریگی؟اگر اس حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ وزیراعظم ہاؤس کو تعلیمی ادارہ بنا سکتا ہے تو آنے والی حکومت اگر کسی اور کی ہو ، تو پھراُن کے پاس بھی یہ اختیارہوگا کہ وہ اسے اسٹیڈیئم بنائے،ہسپتال بنائے، عجائب گھر بنائے یا دوبارہ وزیراعظم ہاؤس بنائے۔
وزیراعظم عمران خان کا بطور وزیر اعظم سب سے پہلے سعودی عرب کادورہ کرنا اہمیت کے حامل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایک کامیاب دورہ ثابت ہوا تو غلت نہیں ہوگا ۔ اس دورے میں وزیراعظم عمران خان کا واہلانا استقبال ہوتا ہے اور عمرہ کی سعادت بھی حاصل کی۔ اس دورے میں وزیر اعظم نے سعودی عرب کو سی پیک کا تیسرا رکُن بننے کی پیشکش بھی کی اور سی پیک کے حوالے سے جو منفی خبریں گردش کر رہی تھیں
وزیر اعظم عمران خان نے سی پیک پراجکٹ کو جاری رکھنے کا عظم ظاہرکر کے یہ واضح کیاکہ تحریک انصاف کی حکومت سی پیک کے حق میں ہیں۔
عمران خان کی جانب سے ایک اور ایسا بیان جو کراچی کے دورے پر کیاگیا ، وہ کراچی میں موجود بنگالی اور افغانیوں کو شہریت دینے کا بیان تھا۔ اس بیان پر بھی تنقید سننے کو ملی۔بعد ازاں عمران خان نے دوبارہ اس موضوع پر بات نہیں کی۔کراچی کے دورے میں سندھ حکومت کے ساتھ مل کر کام کر نے کی بات کی گئی۔جہاں تک نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کی بات ہے تو اب تک وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان اور اسکے بعد اقوام متحدہ کے امریقہ کا دورہ بھی کیا ۔ بھارت کا پاکستان کی طرف سے بار ہاں مزاکرات کی پیش کش کو ٹکرانے پروزیر خارجہ
شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں جم کر بھارت پر وار کئے۔ اس دورے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی شاہ محمود قریشی سے ملاقات ہوئی اور دونوں ملکوں کی جانب سے ایک دوسرے کے سات تعاون کی بات کی گئی۔
تحریک انصاف کی حکومت کو بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے ۔ ملکی خزانہ خالی ہے ، پانی و بجلی کے مسائل سنگین ہیں، صحت ،تعلیم، معاشی حالات اور امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنا ہے۔ اب پیٹرورل اور گیس کی کیمتوں میں اضافے کی باتیں ہو رہی ہیں ، عوام اس فیصلے سے ناخوش ہیں ۔ جہاں تک تبدیلی کی بات ہے ،آئی کہ نہیں آئی اس کا اندازہ سو دن میں ہو ہی جائے گا لیکن یہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ موروسی سیاست کا خاتمہ ہوا۔ عوام نے اک نئی پارٹی کو موقع دیا ہے۔ عوام کی بہت سی اُمیدیں ہیں اس حکومت سے اور وزیراعظم عمران خان بھی عام عوام کی بات کرتے ہیں ۔اگر وہ ان دعوؤں اور وادوں کو عملی جامہ پہنا نہ سکے تو تبدیلی والی حکومت کو مزید تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).