استاد ہیں یا ولی


میں محو خیال۔۔اس سوچ میں گم کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تم نے خبر پڑھنا کس سے سیکھا تو میں کیا بتاؤں گا۔کیونکہ میں تو زندگی میں آنے والے ہر شخص کو استاد مانتا سمجھتا اور جانتا ہوں۔
خیر صحافتی تعلیمی میدان میں میم سیماب فر بخاری سے لے کر نشریاتی میدان کے “عائشہ و سلمان حیدر وحسن”تک ایک سلسلہ ہے پورا اساتذہ کا۔۔سنا ہے آدمی اپنے سلسلہ نسب اور خانقاہی مکتب کے سلسلے سے جانا جاتا ہے۔۔نسب پہ یقین ہے اور خانقاہی سلسلہ ان چار لوگوں پر مشتمل ہے۔۔
خیر ان چار لوگوں میں سے کسی ایک شخص سے بھی میں نے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا۔۔لیکن میں ان تمام شخصیات کو اپنا استاد و آقا سمجھتا ہوں۔۔۔۔
میں سمجھتا ہوں کہ خبر کی نوک پلک کو دیکھنے اور اس کی طلب کو سمجھنے کا ہنر ماں جی سیماب فر بخاری نے سکھایا۔۔خبر کی حرمت کیا ہے۔۔اس کے قدموں میں بیٹھنا ہے یا خبر کے گھوڑے پر سوار ہو کر میدان نشریات میں قیامت بپا کرنی ہے۔۔۔اس سب کو بیان کرنے کے لیے کہا گیا تھا کہ بیٹا لفظ سمجھو۔۔اور انکو انکے احساس کے مطابق ادا کرو۔۔سلسلہ چلتا رہا اور ایک میلنگ۔۔صاحب دل۔۔صاحب حال۔۔جوہری و جوہرِ با کمال اجمل جامی صاحب کی نظروں سے داد تحسین پانے کے بعد۔۔انہی کے دیے گئے رستے پہ چلنے کے بعد میں سادات کے قدموں میں آن بیٹھا۔۔۔۔اور آگرہ و لکھنؤ کے ادب آداب رکھنے والے کے دست شفقت تلے۔
“دنیا”سے تعلق رکھنے والے سادات کی ذات اور اثرات سے واقف ہیں۔مراد سیدہ عائشہ ناز ہیں،سید سلمان حیدر اور سلمان حسن۔اور مزے کی بات یہ کہ تینوں “مرادیں” ہیں۔۔مَنتوں اور مِنتوں سے حاصل کی گئی مرادیں۔۔
میں ہمیشہ متاثر کردینے پر یقین رکھتا ہوں۔آپکی کمی بھی دوسرے کو متاثر کرے اور آپکی بڑائی اور کسی کام میں بہتر ہونا بھی اگلے پر ایک ایسا اثر چھوڑے کہ نا چاہتے ہوئے بھی وہ آپکو کن انکھیوں سے دیکھنے پر مجبور ضرور ہو۔
مجھ پر عطا رہی ہے ہر معاملے میں اور یہ اعتراف کے ساتھ ساتھ ادراک ہے۔۔مجھے وہ لوگ میسر آئے ہیں جنہوں نے سکھایا کم لیکن منتقل زیادہ کیا۔۔اس ضمن میں منتقل لفظ کی حرمت کو بیان کرنا ایک الگ سلسلہ ہے۔
مجھے اینکر بننے کے راستے پر جگہ سر اجمل جامی صاحب کی وجہ سے میسر آئی۔اور پیچھے وجہ بھی ایک “عائشہ” تھیں۔
اب بات اپنے ان بڑوں کی ہو جائے جو میرے ذہن و دل میں پیوست ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ جن کا ذکر کرنے سے میں بڑا ہوتا ہوں۔۔ولایت ایک لفظ نہیں کیفیت اور ذات کا نام ہے اور اسے میڈیا کے میدان میں موجود لوگوں میں ڈھونڈنا ایسا ہی ہے جیسے اندھے سے رنگوں کے شجرہ نسب کی باتیں کرنا۔۔لیکن محبت و کمال خاکساری کے ساتھ “جھڑکتے”ہوئے علم و اقدار کو منتقل کرتے ہوئے میں نے اگر کسی کو دیکھا تو سید سلمان حیدر کو دیکھا۔۔جو لوگ سلمان بھائی کو صحیح معنی میں جانتے ہیں وہ انکے جھڑکنے کے انداز سے خوب واقف ہونگے۔۔میں انکے انداز۔۔انکے خیال۔۔انکی قادرالکلامی کو چاہتے ہوئے بھی نہیں نکال پایا اپنے اندر سے کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کہیں سلمان حیدر کے بھائی تو نہیں ہیں۔۔اور میں مسکراتے ہوئے کہتا ہوں نہیں میں صرف بھائی نہیں ان کا معتقد و پیروکار بھی ہوں۔۔میں ان احسانات کو کیسے بھولوں کے جب اینکرنگ کے ایام طفولیت میں آپ سورہ واقعہ کی تلاوت کا بھی کہتے تھے اور اخبار کو با آواز بلند پڑھنے کا بھی۔۔یہ امتزاج آج تک کہیں نہیں دیکھا میں نے۔۔میں آپ کے لیے بس یہ کہوں گا بقول تہذیب حافی
اگر کبھی تیرے نام پر جنگ ہو گئی تو
ہم ایسے بزدل بھی پہلی صف میں کھڑے ملیں گے
پھر سیدہ عائشہ ناز کہ جن پر خبر پڑھنے کا انداز اترتا ہے۔۔جن کو الہام ہوتا ہے شاید کہ اس خبر کے ساتھ کچھ ایسے سابقے اور لاحقے لگانے ہیں کہ بات دو آتشہ ہو جائے۔۔”چشم ناز”کی آواز میں وہ سحر ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہٹے نہیں تو پتھر ہوئے نہیں۔۔حالانکہ وہ پتھر ہو چکے ہوتے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا۔۔اور یہی تو جادو کی کامیابی ہے کہ اثر کر جائے اور متاثر ہنستے ہوئے کہے “کیا۔۔میں۔۔نہیں تو میں تو سب دیکھ سن اور بول رہا ہوں”۔۔
میں ان کی “ادبی ڈائری”کے مقام پر فائز رہا۔۔مجھے یاد ہے کہ میری ڈیوٹی میں شامل تھا اچھے شعر سنانا اور پھر ان کی رائے لینا۔۔کبھی اگر کسی شعر کا کوئی ایک مصرعہ وہ بھلا دیتیں اور مجھے پوچھتیں اور پھر میرے شعر مکمل کردینے پر انکی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی شادابی ایک الگ جہان حیرت وا کرتی۔۔خبر پڑھتے ہوئے جو حیرانی وہ خود پہ طاری کرتی تھیں وہی حیرانی انکے سامع اپنے پر محسوس کرتے تھے۔۔میں اس وقت انکی تعریف میں زمیں و آسمان ایک کرنے کی کوشش میں ہوں لیکن لفظ مایوس کر رہے ہیں۔۔کوئی شایان شان لفظ نہیں مل رہا لیکن انکی ہنسی آنکھوں اور کانوں میں گونج رہی ہے جس کو دنیا نیوز کے کیفے میں بیٹھے ہوئے سنا اور دیکھا تھا۔۔شاید یہی وجہ ہے کہ مزید لکھنے سے قاصر ہوں۔۔وہ کیا تھا کہ
تیرا ہنسنا بھی کیا قیامت ہے
میں کوئی بات کرنے آیا تھا
اور پھر سلمان حسن کہ جن سے الفاظ کی حرمت اور بیان پر بات ہوتی تھی۔۔جن کو چھوٹی بحر کے بڑے شعر پسند تھے اور جن کی کھلکھلاہٹ ان کے زندہ دل ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھی اور ہے۔۔زمانے کے سردو گرم سے واقف درپن کا زمانہ گزارنے والا وہ شخص مجھ جیسے ذہنی نا بالغ کا حوصلہ اس غیر محسوس انداز میں بڑھاتا تھا کہ مجھ کو معلوم بھی نہیں پڑتا تھا اور میرے اندر وہ بات منتقل ہو چکی ہوتی تھی جو وہ سمجھاتے بتاتے یا عطا کرتے تھے۔۔
چھوٹے بچے کی شریر ہنسی کو کسی پکی عمر کے چہرے پر دیکھنا ہو تو سلمان حسن کو ڈھونڈیے اور زیارت کے بعد چڑھاوے چڑھائیے ۔۔سجدہ شکر ادا کیجیے کہ ایسے لوگوں کی زیارت بھی کسی عبادت اور سعادت سے کم نہیں۔۔میں نے ہاتھ میں والٹ اور موبائل پکڑنا۔۔کلائی میں پہنی ہوئی گھڑی کو مخصوص انداز میں جھٹک کے وقت دیکھنا یا گھڑی ٹھیک کرنا۔۔اور کوٹ کو بائیں ہاتھ پر ایک مخصوص انداز میں رکھنا سلمان حسن بھائی کی شخصیت سے مرعوب ہو کر اپنے اندر غیر محسوس انداز میں اترتے دیکھا ہے۔۔جسکی نشاندہی میرے ہمزاد نے کی کہ یہ عادت آپ کی سلمان حسن سے ملتی ہے۔۔انکار کی گنجائش نہیں تھی کیونکہ چلو عادت کے بہانے ہی سہی۔۔نسبت تو قائم ہوئی۔۔ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں ہزار لمحوں کا علم و آگہی منتقل کر کے وہ جاتے تھے اور میں محو حیرت رہ جاتا۔۔کہ
کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے
وہ بھی سارے کا سارا کیسے ہو سکتا ہے
اے کاش میں صحیح معنوں میں لکھنا جانتا یا اتنی صلاحیت رکھتا کہ فرط جذبات سے آنکھوں میں آنے والی نمی کو اس انداز میں لفظوں کی صورت منتقل کر پاتا کہ آپ لوگ میری محبت کے معترف ہوتے یا نہیں لیکن تسلیم ضرور کرلیتے۔۔وقت کی ستم ظریفی کہییے یا اصول دنیا کہ غم روزگار میں مبتلا ہو جانے سے تعلقات کی ویسی آبیاری نہیں ہو پاتی جیسے انسان چاہتا ہے۔۔
کاش مجھے آپ تمام لوگ میسر آ جائیں اور میں صرف آپ لوگوں کی قدم بوسی کروں۔۔اور میرا اوڑھنا بچھونا آپکی خدمت اور بس خدمت ہو۔۔میرا فخر بس اتنا ہو کہ مجھے آپ لوگوں کے در میسر ہیں۔۔اور خوش بختی یہ کہ آپ لوگ مجھے اپنا معتقد تسلیم کرلیں۔۔کہ بعض دفعہ خواہش بس تسلیم کیے جانے کی ہوتی ہے۔۔۔
میری دعاؤں میں آپ تمام لوگوں کا ہونا میری دعاؤں کی قبولیت اور میری بات میں آپ لوگوں کا ذکر میری بات کی حرمت ہے۔۔اللہ آپ لوگوں کو تا قیامت قائم رکھے۔۔

صفدر علی، لاہور
Latest posts by صفدر علی، لاہور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).