ٹیوشن اکیڈمی میں بچے نے نہیں خود میں نے پڑھنا تھا


یہ دسمبر 2011 کی بات ہے۔ میں گھر کے کاموں سے فارغ ہو کے ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ میرے شوہر گھر آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا۔ انہوں نے وہ میرے سامنے رکھا۔ اور کہا کہ یہ لو کتابیں اور اب تم جانو اور تمہارا کام۔ میں نے کتابیں تمہیں لا دی ہیں پڑھنا اور پیپر دینا تمہارے اوپر ہے۔ میں شاپنگ بیگ کھولا تو اس میں نویں اور دسویں جماعت کی کورس کی کتابیں تھیں۔

واضح رہے کہ کم عمری میں شادی ہونے کی وجہ سے اور کچھ میرے گھریلو حالات کی وجہ سے میری تعلیم مکمل نہ ہو سکی تھی۔ میری اپنے شوہر سے ایک ہی فرمائش تھی کہ مجھے پڑھنے دینا۔ مگر جوائنٹ فیملی سسٹم اور بچوں کی پیدائش کی وجہ سے میرے لئے یہ شادی کے کئی سال بعد تک بھی ممکن نہ ہوا۔

اب جب کہ میں الگ رہتی تھی تو میرے شوہر نے میرے دیے طعنوں کو دل پہ لیتے ہوئے اور میرے شوق کے مدنظر مجھے کتابیں لا دیں۔ کتابوں سے میری محبت میرے خاندان میں سب کو پتہ ہے۔ پھر چاہے وہ ادب ہو یا کورس کی کتاب۔ خیر اگلا مرحلہ یہ تھا کہ امتحان کی تیاری گھر بیٹھے ممکن نہ تھی۔ کیونکہ گیارہ سال کا گیپ تھا۔ اگلے دن سے میں نے اپنے علاقے میں اکیڈمیز کا پتہ کرنا شروع کیا۔ میرے علاقے میں سب سے مشہور اکیڈمی میں جب میں گئی تو انہوں نے ساری ڈیٹیل بتانے کے بعد کہا کہ کل سے بچے کو بھیج دیں۔

میں نے انہیں کہا کہ یہ سب معلومات میں اپنے لئے لے رہی ہوں۔ مجھے ایگزامز دینے ہیں۔ انہوں نے مجھے حیرت سے ایسے دیکھا جیسے میں خلائی مخلوق تھی۔ کہنے لگے آپ نے اب پڑھ کے کیا کرنا ہے۔ یہ سن کے دکھ سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے کہا آپ جیسے لوگ مثالیں یورپ کی دیتے ہیں۔ کیا جانتے ہیں کہ یورپ میں کتنے لوگ لاٹھی پکڑ کے بھی یونیورسٹی جا رہے ہوتے ہیں۔ آپ لوگوں کی وجہ سے یہ ملک کا حال ہے۔ جو پڑھنا چاہ رہا ہے اسے پوچھ رہے کہ کیوں پڑھنا!

خیر انہوں نے کہا کہ ہم آرٹس گروپ کو نہیں پڑھاتے۔ تین سے چار اکیڈمیز کے چکر اور متواتر یہی سوال کہ کیوں پڑھنا آپ نے مجھے ضد دلا دی۔ میں نے تہیہ کیا کہ میں مارچ میں ہونے والے ایگزامز ہی دونگی۔ چاہے فیل ہو جاوں۔ لاسٹ میں ہمارے گھر کے قریب ایک اکیڈمی تھی میں وہاں گئی۔ ان سے بھی ساری بات طے ہونے کے بعد سر نے کہا کہ کل سے بچے کو بھیج دیں۔ تو میں نے کہا سر وہ بچہ میں ہوں۔

سر نے بھی وہی سوال کیا کہ آپ اب کیوں پڑھنا چاہتی ہیں۔ میں نے کہا سر کیا آپ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں ایک پڑھے لکھے بندے کا اضافہ ہو جائے۔ سر کہنے لگے کیوں نہیں۔ آپ سیپرٹ پڑھیں گی یا ریگولر کلاسز لیں گی۔ میں نے کہا سر میں ریگولر آوں گی۔ میرے لئے پڑھنا باعث فخر ہے باعث شرم نہیں کہ میں چھپ کے پڑھوں۔ بس آپ نے مجھے تیاری اچھی کروانی ہے۔ وقت کم تھا تو یہ طے پایا کہ میں میٹرک کی بکس کی تیاری کروں گی۔ اور نویں کے سلیبس کو لاسٹ پہ دیکھیں گے۔

میں نے اکیڈمی جانا شروع کیا۔ پہلا دن اکیڈمی بھی کا یادگار تھا۔ بچے سمجھے میں ٹیچر ہوں۔ ٹیچرز بھی سمجھے میں ٹیچر ہوں۔ مگر جلد ہی سب میرے دوست بن گئے۔ ٹیسٹس کے دوران مقابلے بازی ہوتی کہ کس کے نمبر زیادہ آئیں گے۔ سوائے میتھ کے باقی سب میں میرے ساتھ بچوں کو بڑا سخت مقابلہ کرنا پڑتا۔ میتھ میں، میں کمزور ہوں اور مجھے یقین تھا کہ میتھ میں میری سپلی آوے ہی آوے۔
مگر اس معاملے میں میرے سر عامر نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ وہ کہتے آپ کو فیل نہیں ہونے دیں گے۔ آپ محنتی ہیں۔ پاس ہو جائیں گی۔

ایگزامز شروع ہوئے۔ دسویں کی تیاری کے ساتھ پیپر دیتی گئی۔ نویں کے پیپر ایسے دیے کہ رات کو پڑھتی رہتی۔ صبح پیپر دے آتی۔ پیپرز بہت اچھے ہوئے۔ مگر میں نے بہت محنت کی۔ پورا مہینہ پیپرز میں گزرا۔

آخر میں جب رزلٹ آیا تو خلاف توقع میں میتھ بھی کلئیر کر گئی تھی۔ 1050 میں سے 698 نمبر لئے۔ صرف سوا دو ماہ کی تیاری کر کے۔ سر اور پوری اکیڈمی اپنے سے زیادہ میرے لئے خوش ہوئے۔ یوں میرا تعلیمی سفر جاری رہا۔ میں اب بی ایس آنرز ماس کام 6th سیمیسٹر کی سٹوڈنٹ ہوں۔ اور میں پی ایچ ڈی تک جاؤں گی۔ اس سب کے ساتھ میں اپنا بیوٹی سیلون بھی چلاتی ہوں۔

مجھے اس وقت شدید حیرت ہوتی ہے۔ جب عورتیں یہ کہتی ہیں کہ ہمیں تو ٹائم نہیں ملتا۔ ان سب کے لئے میرا جواب یہ ہوتا کہ ٹائم تو ہوتا ہے مگر آپ اسے سٹار پلس اور کلرز کے ڈراموں میں اڑا دیتی ہیں۔ محنت کرنے والی خواتین کی میں دل سے قدر کرتی ہوں۔ مجھے دیکھ کے میرے علاقے کی کئی خواتین نے اپنی سٹڈی مکمل کی۔ سب سے زیادہ خوشی مجھے اس بات کی ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا تعلیم حاصل کرنے کے لئے آپ کی عمر یا آپ کا میریٹل سٹیٹس ضروری ہوتا ہے۔ یا آپ کا شوق اورجذبہ۔ بیوٹی سیلون چلانا میری ضرورت ہے۔ اور تعلیم حاصل کرنا میرا شوق۔ اور کہتے ہیں ناں کہ
شوق دا کوئی مل نئیں ہندا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).