اور عذاب کیا ہوتا ہے؟


میں نہیں جانتا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے یا ایک دو کوئی اور بھی ہیں جو اپنی پیدائش کے دن سے یا پھر جنم جنم سے نازک دوراہے پر کھڑے ہیں، سنگین حالات سے گزر رہے ہیں اور ہر حکومتِ وقت انھیں معاشی، اقتصادی و بین الاقوامی بے یقینی کے گرداب سے نکالنے کے لیے دن رات ایک کرتی چلی آ رہی ہے۔

سابقہ ادوار کا گند صاف کر کے ایک نئی طرح ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اور ماضی کی غلط پالیسیوں کو بدل کے حال کی غلط پالیسیوں پر عمل پیرا ہوتے ہوتے یہی حکومت جب خود ماضی کا حصہ بن جاتی ہے تو پھر اس کی جگہ لینے والی نئی حکومت اسی پرانے ریکارڈ کو اپنے دامن سے صاف کر کے حال کی سوئی کے نیچے رکھ کے نئی ترنگ کے ساتھ گھما دیتی ہے۔

ہم آئے تو خزانہ خالی تھا، ہم گئے تو خزانہ بھرا ہوا تھا، ہم آئے تو روپیہ ٹکے سیر تھا، ہم گئے تو زرِ مبادلہ کے ذخائر لبالب تھے، ہم آئے تو اندھیرے تھے، ہم جا رہے ہیں تو اندھیرے ساتھ لے جا رہے ہیں، ہم سے پہلے والوں نے ککھ نہیں کیا، ہم سے بعد والے بھی ککھ نہ اکھاڑ پائیں گے۔ بس جو ہو رہا ہے ہمارے دور میں ہی ہو رہا ہے، ہم نہ ہوں گے تو کوئی ہم سا بھی نہ ہوگا بلا بلا بلا بلا۔

بچپن میں بوٹے پنساری کی دکان پر کئی جڑی بوٹیاں، مربے اور آمیزے دیکھتا تھا۔ ایک بوتل پر لکھا تھا کمر کس۔ پھر میں نے اخبار پڑھنا سیکھا تو ہر تیسرے چوتھے دن کسی نہ کسی سرخی میں ہوتا ” قوم کمر کس لے‘‘۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بوٹے کی دکان پر رکھے کمر کس اور اخباری کمر کس میں کیا رشتہ ہے؟ بوٹا تو مرگیا اور اس کی کمر کس والی دکان بھی بٹ بٹا گئی۔ مگر اخباری سرخی کا کمر کس قبر تک نسل در نسل چلے گا۔

یا تو میرا خمیر ہی اداسی، تنقید اور منفعیت سے اٹھا ہے یا پھر مجھ میں یہ خوبی قومی یاسیت کے خزانے سے انعام ہوئی ہے کہ ہر حکومت ایک سی نظر آتی ہے۔ ایک جنگل جس میں درختوں کی داڑھیاں نکلی ہوئی ہیں، اردگرد جھاڑ جھنکار، بندروں کی بہتات، بہت سے شاخوں سے جھول رہے ہیں، جھاڑیوں میں اچھل پھاند کر رہے ہیں، کچھ تنے پر قطار میں بیٹھے ایک دوسرے کی جوئیں نکال رہے ہیں، بہت سے خوخیاتے ہوئے دانت نکو سے ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں مارتے ہوئے تعاقب کرتے ہوئے دھما چوکڑی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ کچھ بوڑھے بندر کسی بڑ کے نیچے یوں سر نیہوڑائے بیٹھے ہیں گویا بہرے ہوں۔ حالانکہ یہی سب سے چالاک غول ہے جسے سب خبر ہے بظاہر بے خبر ہے۔

مجھے معاف کر دیجیے گا مگر کم ازکم بارہ حکومتیں دیکھنے کے بعد جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے تو سوائے اس کے کوئی بدلاؤ محسوس نہیں ہوتا کہ لو جی ایک اور پرانا غول نئے کپڑے پہن کر نئی چیخیں مارتے ہوئے جنگل میں آ گیا ہے، پرانا غول یا تو بوڑھا ہو گیا ہے یا اسے نئے غول نے اپنے بل پر یا کسی اور غول سے گٹھ جوڑ کر کے مار بھگایا ہے۔ اب یہ نیا غول بھی اس درخت سے اس درخت تک اتر چڑھ اتر چڑھ کرے گا۔ اگر پہلے والا سر کے بل درخت پر چڑھتا تھا تو نیا والا دم کے بل نیچے اترنے کا کرتب دکھا کے ہمیشہ کی طرح حیران بن مانس رعایا کو مزید حیران کرنے کی ناکام کوشش کرے گا۔ اور رعایا کی فریب خوردہ تلخ مسکراہٹ کو خود پر اعتماد جانے گا۔

آج سے نہیں ہوش سنبھالنے سے لے کر کچھ سوالات ہیں کہ جواب کے انتظار میں میرے ساتھ ساتھ بوڑھے ہوتے جاتے ہیں۔ جیسے یہی کہ رحم دل بادشاہ صرف کہانیوں میں ہی کیوں ہوتا ہے؟ انصاف پرانے زمانے میں ہی اندھا کیوں ہوتا تھا؟ سبز چوغہ پہنے کوئی بزرگ کسی گلی کے نکڑ پر اب اچانک کیوں نمودار نہیں ہوتا؟ لکڑ ہارے کے بچے کو اب وہ پری کیوں دکھائی نہیں دیتی جو اس کی کلہاڑی سونے کی کر دے۔ پرانے زمانے کے لوگ کسی کی بد دعا سے اتنا کیوں ڈرتے تھے؟ جب کہیں کوئی قتل ہوتا تھا تو آسمان کہانیوں میں کیوں لال ہو جاتا تھا؟ وہ کیا نظام تھا جس کے سبب ایک بے بس عورت کی دیبل کے ساحل سے ابھرنے والی چیخ کوفہ میں بیٹھے حجاج بن یوسف کے کانوں تک پہنچ گئی، تب تو انٹرنیٹ یا الیکٹرونک میڈیا چھوڑ لاؤڈ اسپیکر تک نہ تھا۔ آج کسی کی چیخ ساتھ والے گھر تک بھی کیوں نہیں پہنچتی؟

اچھا تو یہ سنہری زمانہ ماضی میں ہی کیوں بستا ہے؟ اسے حال میں کھینچ کے کیوں نہیں لایا جا سکتا۔ تمام مشہور مسلمان سائنسدان، طبیب، فلسفی، مصور، عالم، مدبر ہزار برس پہلے وسطی ایشیا، ایران اور شام و عراق و شمالی افریقہ میں ہی کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ جب کہ ہزار برس پہلے تلاشِ علم کے لیے گھر سے نکلنے والے بچے کی ماں کو یہ تک نہ معلوم تھا کہ اس کا لال کب لوٹے گا۔ آج تو علم کی رسائی ہاتھ بھر کے فاصلے پر ہے پھر بھی فروغِ جہل اتنا کیوں ہے؟ تو کیا ترقی صرف ماضی یا مستقبل میں ہی ممکن تھی یا ہو گی؟

اگر میرے اجداد کا زمانہ واقعی سنہرا ہے اور میرا مستقبل نہایت روشن ہے تو پھر میرا حال کیوں خراب ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ تین زمانی کڑیوں میں سے دائیں اور بائیں کی تصوراتی کڑی تو آنکھیں خیرہ کررہی ہو اور درمیانی حقیقی کڑی زنگ آلود ہو چکی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو علمِ منطق غلط یا پھر ہماری سوچنے اور دیکھنے کی تربیت و عادت ایب نارمل۔ یا پھر ہم اتنے گہرے انفرادی و اجتماعی دھوکے میں ہیں کہ سراب کو ہی پانی سمجھتے رہنا چاہتے ہیں۔ ہمیں خوف ہے کہ اگر سراب کا مفروضہ بھی ٹوٹ گیا تو پھر کس خیالی تکیے پر سر رکھ کے جئیں گے؟ جانے ہم کیوں کسی ٹھوس عذاب کے انتظار میں ہیں؟ یہ سب جو آس پاس، اندر باہر، اوپر نیچے، دائیں بائیں ہو رہا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ عذاب اور کیا ہوتا ہے؟
بشکریہ ایکسپریس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).