آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کیا ہے جس میں شہباز شریف گرفتار ہوئے ہیں؟


نیب کے الزامات کے مطابق کیس کی صورت حال مندرجہ ذیل ہے۔ یاد رہے کہ نیب کے ان الزامات کے سچ جھوٹ کا فیصلہ شواہد پرکھنے کے بعد عدالت کرے گی اور ابھی ان کی حیثیت محض غیر ثابت شدہ الزام کی ہے۔

اس ٹھیکہ کے لئے بسم اللہ انجینئیرنگ کمپنی کی معاونت کرنے والوں میں پی ایل ڈی سی کے افسروں میں چیف انجینئر ایل ڈی اے اسرار سعید اورسابق چیف ایگزیکٹو آفیسر پی ایل ڈی سی امتیاز حیدر، ایل ڈی اے کے اسٹریٹجک پالیسی یونٹ میں بطور اپلائیڈ اکنامک اسپیشلسٹ تعیناتی اور تکنیکی اور مالیاتی کمیٹی کے فعال رکن بلال قدوائی شامل ہیں۔ آشیانہ اقبال ہاؤسنگ کی ڈیزائن پلاننگ کرتے وقت بلال قدوائی نے اس طرح اسے تیار کیا کہ اس کا فائدہ کاسا ڈویلپرز اٹھائے۔ بلال قدوائی کے علاوہ اسرار سعید اور دوسرے ایل ڈی اے افسروں کی کاسا ڈویلپرز انتظامیہ سے ملی بھگت کے ٹھوس شواہد نیب کو موصول ہوئے جن سے کاسا ڈویلپرز کو غیر قانونی مالی فائدہ پہنچانے کی وجہ سے حکومتی خزانے کو لگ بھگ 1ارب روپے کے نقصان ہوا۔

جب زمین کی خریداری اور ڈیزائن کا یہ سارا پراسس مکمل ہوا تو بسم اللہ انجینئیرنگ والے مکمل مطمئن تھے کہ یہ ٹینڈر ان کے علاوہ کوئی اور حاصل نہیں کر سکے گا۔ ٹینڈر کا پی سی ون بننے کے بعد جب فائل اس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ کے پاس پہنچی تو انہیں بھی نوازنے کی تیاری مکمل تھی۔ یہ ٹھیکہ بسم اللہ انجینئیرنگ کمپنی کو ہی ایوارڈ کرنے کے وعدہ کے عوض پراجیکٹ سائیٹ میں ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ نے 32 کنال زمین اپنے اور اپنے رشتہ دارون کے نام پر لی اور اس کی مکمل ادائیگی پیراگون کے اکاؤنٹ سے ہوئی۔

اس 32 کنال زمین میں 8 کنال اراضی احد خان چیمہ کے نام، 8 کنال زمین اس کی بہن سعدیہ منظور کے نام، 8 کنال زمین اس کے بھائی سعد خان چیمہ کے بھائی کے نام اور 8 کنال اس کے کزن احمد حسن کے نام کی گئی۔ اس 32 کنال زمین کی مالیت 3 کروڑ 9 لاکھ روپے تک ہے جبکہ اس میں سے صرف 25 لاکھ کی ادائیگی احمد چیمہ کی جانب سے ہوئی، حالانکہ جو 8 کنال زمین احد چیمہ کے نام ہے صرف اس کی مالیت 77 لاکھ 80 ہزار روپے ہے۔ اس 32 کنال زمین کے علاوہ بھی احد چیمہ نے 19 کنال 7 مرلہ زمین مزید حاصل کی تھی جو اس کی بہن سعدیہ منظور اور کزن احمد حسن کے نام ہے۔ سعدیہ منظور اور احمد حسن کو نیب نے مفرور قرار دیا ہوا یے۔ اس کے علاوہ احد چیمہ کے سابق پی ایس او شہزاد کے نام پر کچھ زمین وغیرہ کے معاملات ہیں اور وہ بھی نیب کے زیر حراست ہے۔

احد چیمہ کو ملنے والے ان تحائف کے باوجود بھی پی ایل ڈی سی والے ٹھیکہ بسم اللہ انجینئیرنگ والوں کے دیے جانے کے مخالف تھے۔ ابھی ٹھیکہ کا ٹینڈر بھی نہیں ہوا تھا کہ اس میں سامنے نظر آنے والی بے ضابطگیوں کے بارے چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں اور غصہ میں بپھرے احد چیمہ نے چیف ایگزیکٹو طاہر خورشید سمیت درجنوں افسروں کی پے درپے تبدیلیاں شروع کر دیں اور خوف و ہراس پھیلا کر پی ایل ڈی سی میں ہر شخص کو مجبور کیا گیا کہ وہ زبان بند رکھے جبکہ اس دوران کمپنی کے 17 چیف ایگزیکٹیوز کو پے درپے تبدیل کیا گیا تھا۔ جس کا سلسلہ اس وقت ہی رکا جب ماتحت عملہ نے باس کی منشاء پر کام کرنے کا عندیہ دیا اور پھر ٹینڈر کی کارروائی شروع ہوئی۔

مبینہ طور پر جب ٹھیکہ کے ٹینڈر آئے تو بسم اللہ انجینئیرنگ سب سے کم بولی دینے والی کمپنی ثابت نہ ہو سکی اور میسرز لطیف اینڈ کو نے سب سے کم بولی دے کر ٹینڈر جیت لیا۔ یہ بالکل غیر متوقع تھا۔ پیراگون، بسم اللہ، اسپارکو، کاسا وغیرہ کے کروڑوں کی انویسٹمنٹ ڈوب رہی تھی۔ کچھ مہینوں بعد یہ سب اکٹھے ہو کر خواجہ سعد رفیق اور احد چیمہ کے پاس پہنچے۔ وہاں پلاننگ کی گئی اور طے یہ پایا کہ اس معاملہ کو بیوروکریسی کے ”گرو“ فواد حسن فواد کے ذریعہ حل کروایا جائے۔ اس وقت فواد حسن فواد سیکرٹری ٹو وزیر اعلی تھے اور انہوں نے مخصوص فوائد لینے کے بعد اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے اس ہاؤسنگ منصوبے کی تعمیر کے لئے سب سے کم بولی دینے والی کمپنی لطیف اینڈ کو تعمیراتی کمپنی کو مجبور کیا کہ وہ اس کنٹریکٹ سے پیچھے ہٹ جائے۔

مبینہ طور پر میسرز لطیف اینڈ کو کے چیف ایگزیکٹو معظم علی کو فواد حسن فواد نے اپنے دفتر بلایا جہاں احد چیمہ بھی موجود تھے اور اس کی موجودگی میں معظم کو ہراساں کیا گیا اور انھیں اس منصوبے سے دور رہنے اور اپنی کم سے کم بولی واپس لینے کی ہدایت کی گئی۔ اس وقت تک لطیف اینڈ سنز نے منصوبے کا میرٹ پر ٹھیکہ حاصل کر کے 7 کروڑ روپے ایڈوانس بطور ٹینڈر سیکورٹی ادا کیے تھے، کام جاری تھا کہ 8 ماہ بعد کنٹریکٹ معطل کر دیا گیا جس سے حکومت کو 59 لاکھ روپے بطور جرمانہ ادا کرنے پڑے اور منصوبہ التواکا شکار ہو گیا اور لاگت اربوں روپے بڑھ گئی۔ لطیف اینڈ سنز کا ٹھیکہ منسوخ کرانے کے بعد احد چیمہ سے مل کر کاسا ڈویلپرز کو ٹھیکہ دلایا گیا جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔ فواد حسن فواد نے سیکرٹری خزانہ طارق باجوہ کی زیر نگرانی انکوائری کمیٹی کی اس رپورٹ کو بھی حکام سے مخفی رکھا جس کے مطابق لطیف اینڈ سنز کو دیا گیا کنٹریکٹ قانونی اور پیپرا رولز کے مطابق تھا

میسرز لطیف اینڈ کو کے پیچھے ہٹ جانے کے بعد یہ ٹھیکہ بسم اللہ انجینئیرنگ کو مل ہی گیا مگر کوئی کام مکمل ہونے کی بجائے ابھی تک ساری کی ساری زمین خالی پڑی ہوئی ہے حالانکہ وہ کافی رقم پی ایل ڈی سی، عوام سے فیسوں کی مد میں وصول بھی کر چکے ہیں جبکہ معاہدے کے مطابق تینوں کمپنیوں کے اس جوائنٹ وینچر نے اس اسکیم پر 20 فیصد کام کرنا تھا، جس کے بعد حکومت نے اس کی ادائیگی کرنی تھی۔ ایڈوانس پیسے وصول کر کے بھی کام نہ کرنا اس گروپ کی بدیانتی پر مبنی ہے کیونکہ یہ کمپنیاں حکومت کو زمین فروخت کر کے اور عوام سے فیسوں کی مد میں پیسہ وصول کرنا چاہتی تھیں۔

مبینہ طور پر پی ایل ڈی سی کے بعض افسروں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف کی سربراہی میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں ن لیگی راہنما خواجہ سعد رفیق اور سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی امجد علی بھی موجود تھے انہوں نے اس وقت یہ حکم دیا تھا کہ کس طرح ٹھیکوں کے معاملات کو چلانا ہے۔

نیب کی طرف سے مسلم لیگ ن کے صدر سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کو جس کمپنی کو دیے گئے ٹھیکے کی منسوخی کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے۔ شہباز شریف نے اس کمپنی لطیف اینڈ کو اور اس کی شراکت دار کمپنی مقبول کولسن کو اورنج ٹرین لائن منصوبے میں بے ضابطگیوں پر بلیک لسٹ کر دیا تھا جبکہ پشاور میں میٹرو منصوبہ تحریک انصاف کی حکومت نے مذکورہ دونوں کمپنیوں کو دیا ہے جو جوائنٹ وینچر کے ذریعے میٹرو پشاور پر کام کر رہی ہیں۔ دوسری طرف نیب لطیف برادرز کو آشیانہ اقبال ہاؤسنگ سکیم کے کیس میں سابق وزیر اعلی شہباز شریف کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری سمیت گورنمنٹ آفیسرز ریزیڈنس (جی او آر) میں پنجاب کے اکثر اضلاع کے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹینٹ کمشنرز نے کہا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں، سیاستدانوں اور عدالتوں کے ہاتھوں ان کے سینئرز کی توہین کی جا رہی ہے اور احد چیمہ، فواد حسن فواد سمیت دوسرے افسران پر جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2