مہاراجا پٹیالہ کے محل میں برف کی سلوں پر تیرتی حسینائیں


” لِیلا بَھوَن“ کو پٹیالہ کے مہاراجا بھو پندر سنگھ نے اپنی نو جوانی میں پٹیالہ شہر میں بھو پندر نگر کو جانے والی سڑک پر بارہ دری باغات کے نزدیک تعمیر کروایا تھا۔ اس ایک ہی داخلی راستہ تھا، جس پر بہت بڑا آہنی پھاٹک نصب تھا۔ باغ کو جانے والا یہ راستہ بل دار تھا، اس لیے راہگیر محل کے اندر چند گز سے زیادہ آگے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اس محل کی فصیل تیس فٹ اونچی تھی اور اسے بھی بل دار بنایا گیا تھا۔

فصیل کے ساتھ ساتھ اگائے گئے یوکلیپٹس اور دوسرے گھنے اور نچے درختوں کی وجہ سے بھی باہر سے دکھائی دینا مشکل ہو گیا تھا۔ اس انتظام کا سبب یہ تھا کہ اگر باغ کو جانے والا راستہ سیدھا ہوتا تو راہگیر اور درباری، محل میں جو کچھ ہو رہا ہوتا، اس کی جھلک دیکھ لیتے۔ چند گز راستہ طے کرنے کے بعد انسان اس عظیم الشان باغ میں داخل ہوتا، جو ہندوستان میں اپنی نوعیت کا منفر د باغ تھا۔ محل میں خوبصورت فرنیچر رکھا گیا تھا۔ اس کئی خواب گا ہیں اور برآمد تھے، جن میں یورپی طرز کا فرنیچر رکھا گیا تھا۔

محل میں ایک خاص کمرہ تھا، جسے ” پریم استھان“ کہا جاتا تھا۔ یہ کمرہ مہاراجا کے لیے مخصوص تھا۔ اس کمرے کی دیواروں پر ایسی نایاب اور بیش قیمت تصویریں آویزاں تھیں، جن میں سینکڑوں قسم کے جنسی آ سن دکھائے گئے تھے۔ اس کمرے کو خالصتاً ہندوستانی انداز میں سجایا گیا تھا۔ فرش پر قالین بچھے تھے، جن قیمتی ہیرے موتی جڑے ہوئے تھے۔ کمرے میں نیلے مخمل کے تکیے بھی رکھے گئے تھے، جن پر بے شمار قیمتی پتھر ٹنکے ہوئے تھے۔ مہاراجا پر تعیش جھولے میں دائیں بائیں جھولتے ہوئے لطف اٹھایا کرتا تھا۔ یہ جھولا بھی اس ” پریم استھان“ نامی کمرے میں تھا۔

محل کے باہر ایک سوئمنگ پول تھا۔ یہ اتنا بڑا تھا کہ اس میں 150 مردوزن بیک وقت نہا سکتے تھے۔ مہاراجا بھو پندر سنگھ عظیم الشان تقریبات منعقد کرتا تھا، جو شہوت ناک ہونے کی وجہ سے بہت مشہور تھیں۔ مہاراجا ان تقریبات میں اپنی پسند یدہ عورتوں کو مد عو کیا کرتا تھا، جو اس کے ساتھ سوئمنگ پول میں تیرا کرتی تھیں۔ ان کے علاوہ وہ اپنے دو یا تین با اعتماد افسروں اور اپنے خاندان کے چند ایک پسندیدہ افراد کو بھی مدعو کیا کرتا تھا۔

گرمیوں کے موسم میں سوئمنگ پول کو نزدیکی نہر اور سرکاری آبی ذخائر کے پانی سے بھرا جاتا تھا۔ چونکہ پانی گرم ہوتا تھا اس لیے اس میں برف کی سلیں ڈالی جاتیں تا کہ وہ سکون بخش حد تک ٹھنڈا ہو جائے۔ مہاراجا کے ملازم مرد اور عورتیں برف کی ان سلوں پر لیٹ جاتے یا وسکی کے گلاس تھامے ان کے گرد تیرتے رہتے۔ چونکہ عورتوں نے بہت زیادہ خوشبو لگائی ہوتی تھی اس لیے تالاب کا پانی بھی مہکنے لگتا تھا۔

انتہائی باریک سوئمنگ کا سٹیوم پہنے پچاس ساٹھ عورتیں برف کی سلوک پر تیر رہی ہوتیں اور شراب اور کھانے کی تلی ہوئی اشیاء پیش کر رہی ہوتیں۔ یہ منظر بڑا دلکش ہوتا تھا۔ بعض اوقات ایسی تقریبات ساری ساری رات جاری رہتیں۔ کچھ مرد اور عورتیں تالاب میں نہاتے رہتے اور کچھ گیت گاتے اور رقص کرتے رہتے۔ کچھ عورتیں تالاب سے دکھائی دینے والے درختوں پر بیٹھی گنگنا رہی ہوتی تھیں۔ عموماً ایسی عیاشانہ تقریبات یا تو سخت گرمی کے مہینوں میں منعقد کی جاتی تھیں یا برسات کے موسم میں۔

کھانا سورج غروب ہونے سے لے کر سورج طلوع ہونے تک بلاتعطل پیش کیا جاتا تھا۔ یہ کوئی باقاعدہ رات یا دوپہر کے کھانے نہیں بلکہ نہایت لذیذ اور اشتہا انگز پکوان اور مشروبات ہوتے تھے، جنہیں عورتیں مہمانوں کی خدمت میں پیش کیا کرتی تھیں۔ مرد ملازموں اور افسروں اور ڈیوٹی پر حاضر فوجی محافظوں کو محل سے دور ایک خاص مکان میں ٹھہرایا جاتا تھا۔ ان سے رابطے کا واحد ذریعہ ٹیلی فون یا ایک خفیہ راستہ تھا، جس کے ذریعے پیغام بھیجے جایا کرتے تھے۔ اس راستے پر 80 سال سے زیادہ عمر کے کستری داڑھیوں والے بے ضرر بوڑھے محافظ متعین ہوتے تھے جو مہاراجا کے پیغامات ڈیوٹی پر مامور افسروں تک پہنچایا کرتے تھے۔

مہارانیوں اور محل کی دوسری عورتوں کو موٹر کاروں میں بٹھا کر عیش و عشرت کی محفلوں تک لایا جاتا تھا جبکہ افسروں اور شاہی گھرانے کے فراد کو اپنی کاریں محل کے باہر ہی چھوڑنا پڑتی تھیں۔ جب گرمی کے موسم میں سائے میں بھی درجہَ حرارت 140 درجے فارن ہائیٹ ہوتا، تالاب گلیشیئر جیسا لگتا تھا کہ اس کے پانی کا درجہَ حرارت 40 سے 50 درجے فارن ہائیٹ ہوتا تھا۔

ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا تھا کہ کسی غیر ملکی کو ان تقریبات میں مدعو کیا جاتا۔ صرف اس موقعے پر موتی باغ میں مہاراجا کا جی بہلانے والی کسی یورپی یا امریکی عورت کو ہی برفیلے پانی والے تالاب میں نہانے کی اجازت دی جاتی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).