یا خدا تو عذاب ہی بھیج دے


ماضی بعید میں خدا جن قوموں سے ناراض ہوا کرتا تھا ان پر عذاب بھیجا کرتا تھا یہاں تک کہ وہ قوم توبہ کی جانب مائل ہوتی یا صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتی تھی، ہر دو صورت میں ان کی دنیاوی تکالیف کا خاتمہ ہوجاتا تھا، آخرت کا معاملہ خداکا ہے تو اسی کے حوالے، پھر شاید خدا نے اپنا طریقہ کار بدل لیا، اب قوموں پر عذاب مسلط نہیں ہوتا بلکہ احمق حکمراں مسلط کردیے جاتے ہیں۔ نجانے تقسیم کے لمحے میں پاکستان بنانے والوں سے ایسا کونسا گناہِ کبیرہ سرزد ہوا تھا کہ آج تک ہم پر احمق حکمران اور ان کی نکمی انتظامیہ ہی راج کرتی نظر آرہی ہے۔

مجال ہے جو اس ملک کی پارلیمنٹ، عدلیہ یا انتظامیہ نے کوئی فیصلہ وسیع النظری کے ساتھ لینا ہو، بس چرواہے کی بھیڑوں کی طرح جدھر ہانک دو ادھر ہی چل پڑتے ہیں اور اس کے بعد یہ لوگ امید کرتے ہیں کہ انہیں مدبر حکمرانوں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔

دوسال قبل پنجاب کے بیشتر علاقوں کو اسموگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جس سے یقیناً ہزاروں لوگ متاثر ہوئے تھے لیکن اب پنجاب کے محکمہ تحفظ ِ ماحولیات نے اسموگ کی روک تھام کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، ان سےہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ متاثر ہوں گے اور جرائم۔ ایسے بدترین جرائم ہوں گے کہ ایک الگ ہی انسانی المیہ جنم لے گا۔

اسموگ کے خاتمے کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ پنجاب بھر میں 70 دن یعنی دو ماہ 10 دن کے لیے اینٹوں کے بھٹوں کو بند رکھا جائے۔ اے فیصلہ سازو! تمہاری عقل پر ماتم اور تمہاری انسانیت کو سلام۔ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدور کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے ملازم نہیں کہ کام بند ہوگا تب بھی تنخواہ ملتی رہے گی، یہ روزینے (روزانہ اجرت) پر کام کرتے ہیں اور جس دن کام نہیں ہوتا، اس دن ان کے گھر کا چولہا نہیں جلتا۔

ان میں سے اکثر نے اپنی زندگیاں بھٹہ مالکان کے پاس گروی رکھی ہوئی ہیں اور قرض ایسا ہے کہ کئی نسلیں چکاتی آرہی ہیں اور یہ قرض اترنے کا نام نہیں لیتا۔ یہاں تک کہ پورے پورے خاندان بھٹے میں جھونک دیے جاتے ہیں، جل کر مرجاتے ہیں لیکن قرضہ اپنی جگہ رہتا ہے۔

اب کیوں کہ بھٹہ انڈسٹری میں روزانہ اجرت کا اصول رائج ہے تو دو مہینے مالک نے ایسے تو ایک ٹکا نہیں دینا۔ یا خدا! آگے جو لکھ رہا ہوں تو ہی ہمت دے کہ لکھ سکوں اور پڑھنے والوں کو تاب دے کہ وہ پڑھ سکیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ بھٹہ انڈسٹری میں دو جرائم انتہائی عام ہیں، ایک کم سن بچوں سے مشقت لینا، دوسرا بھٹوں پر کام کرنے والی عورتوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا۔ یہ ایسے جرائم ہیں کہ بھٹے پر کام کرنے والے مزدور کے سامنے بھی انجام دیے جائیں تو قرضے کے بوجھ میں دبا مزدور آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کرسکتا۔

اب کیونکہ شہر کے لوگوں کو اسموگ سے بچانا بہت ضروری ہے کہ ان کی خبر عالمی منظر نامے کی ہیڈ لائن بن جاتی ہے اور ملک بھر کی این جی اوز چلانا شروع کردیتی ہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ بھٹے بند کردو، مستقل اور پائیدار حل تو کسی نے ڈھونڈنا ہی نہیں ہے۔ اب کام نہیں تو مالک اجرت تو نہیں دے گا، ۔ ہاں قرض ضرور دے گا اور اس قرض کا سود، ان بھٹوں پر کام کرنے والے ایک لاکھ مزدروں کی بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں ادا کریں گی اور اس کے بعد بھی قرض ختم نہیں ہوگا یہاں تک کہ ایک مزدور اپنی اگلی نسل کو یہ قرض سونپ کر چلتا بنے گا۔ وہ اگلی نسل بھی اپنے کم سن بچوں کے ساتھ غلامی کے اس کولہو میں پستی رہے گی اور ان کی رگِ جاں سے نکلنے والا تیل بھٹے کے مالک کی آمدنی میں اضافہ کرتا رہے گا۔

دوسری جانب انہی بھٹوں پر چائلڈ لیبر اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پیش آتے رہیں گے اور میڈیا اور این جی اوز کو مواد ملتا رہے گا، سو سب خوش ہیں کہ ان کا کام چلے گا۔ یہ تو صرف اینٹوں کے بھٹوں کی صورتحال ہے۔ یہاں کام بند ہونے سے بھٹوں کو کوئلہ فراہم کرنے والی کانوں میں کام بند ہوگا۔ اینٹیں ڈھونے کی صنعت سے وابستہ ٹرانسپورٹر اور مزدور کا کام بھی بند ہوجائے گا اور طلب و رسد کا توازن بگڑنے سے اینٹوں کی قیمت جو آسمانوں پر جائے گی تو تعمیراتی سرگرمیاں بھی ماند پڑجائیں گی جس میں نقصان صرف اور صرف مزدور کا ہوگا جسے آئندہ دو مہینے یہ عذاب جھیلنا ہی ہے۔

لاکھوں غریب، لاچار اور بے کس انسان پریشان ہیں کہ ان کی نسلوں پر یہ کیسا آسیب ہے، کیسا عذاب ہے جو منڈلائے چلا جارہا ہے۔ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ احمق حاکم فیصلہ کرکے اپنے ٹھنڈے کمرے میں بند ہیں اور غریب ہے کہ نا کردہ گناہوں کا تاوان نسل در نسل بھرتا چلا آرہا ہے اور بھرتا رہے گا۔ اسے تو بہتر ہے خدا کہ تو ان گناہ گاروں پر عذاب ہی بھیج دے کہ ایک ہی بارصفحہ ہستی سے مٹ جائیں، کہ یو ں روز مر مرکے جینا بھی کوئی جینا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).