احتساب عدالت میں شہباز شریف پر کیا گزری؟


وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا جج صاحب یہ کیس بہت واضح ہے، میرے موکل کوصاف پانی کیس میں بلا کر آشیانہ کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے احد چیمہ اور فواد حسن کو بھی گرفتار کیا گیا۔ مگر آج تک کوئی ٹھوس ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ نیب کا جب دل چاہتا ہے جسے چاہتا ہے اٹھا کر جیل میں بند کردیتا ہے۔ شہباز شریف نے بطور وزیراعلی اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا۔ سارا ریکارڈ آپ کے سامنے ہے۔ بطور وزیراعلی بھی وہ کورٹ میں پیش ہوتے رہے ہیں اب بھی جب انہیں بلایا جائے گا وہ حاضر ہوں گے۔ وہ عدلیہ کی عزت اور احترام کرتے ہیں۔ وہ دستیاب ہیں اس لیے اس کیس میں جسمانی ریمانڈ بنتا ہی نہیں۔

امجد پرویز کو بات کرتے ہوئے درمیان میں نیب کے وکیل کی جانب سے کچھ کہا گیا تو جج نجم الحسن نے نیب کے وکلاء کو کہا پہلے انہیں بات مکمل کر لینے دیں۔ نیب پراسیکیوٹر کی بات کے دوران شہباز شریف کے وکیل کی جانب سے نیب کے وکلاء کو اپنی نوکری بچانے کا طعنہ دیا گیا۔ جس پر دونوں اطراف کے وکلاء نے بولنا شروع کردیا اس پر جج نے مداخلت کرکے انہیں خاموش کروایا۔

سماعت کے دوران شہباز شریف کے بالکل پیچھے رانا ثنا اللہ، سلمان شہباز جبکہ پچھلی قطار میں حمزہ شہباز موجود تھے۔ 11بج کر47 منٹ پر معزز جج نے کہا فیصلہ دس منٹ بعد سنایا جائے گا۔ جج اپنے چیمبر میں چلے گئے اور شہباز شریف کو واپس چیمبر میں بھیج دیا گیا۔ اس دوران لیگی کارکنان حمزہ شہباز سے ملتے رہے۔ روسٹرم کے پاس خاتون وکیل آبدیدہ نظر آئی وہ کہتی رہی یہاں انصاف نہیں ہوگا، یاد رہے اس سے پہلے کمرہ عدالت میں یہی خاتون نعرہ بھی لگا چکی تھی۔

مجھے ایک دوست نے پانی کی بوتل دی جو میں نے سینئر صحافی بابر ڈوگر کوپیش کر دی چیمبر سے ملازم باہر آیا کہ شہباز شریف پانی مانگ رہے ہیں جس پر بابر ڈوگر نے بوتل ملازم کو دے دی۔ میں نے کہا شہباز صاحب ہمیں تو صاف پانی فراہم نہیں کرسکے مگر ہم نے انہیں آج صاف پانی دے دیا ہے۔ اسی دوران عدالت میں دس روزہ ریمانڈ کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ معلوم کرنے پر پتا چلا دس روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا گیا ہے اب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو16 اکتوبر کو دوبارہ پیش کیا جائے گا۔

عدالت کے باہر ایک ہجوم تھا جو حمزہ شہباز آئی لو یو، میاں شہباز آئی لو یو کے نعرے لگا رہا تھا۔ میں حیرت لیے باہر آگیا کہ اتنی اہم پیشی پر شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف سمیت مرکزی قیادت اپنی پارٹی کے صدر کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے تک نہ پہنچ سکی۔ آخر کیوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2