احتساب عدالت میں شہباز شریف پر کیا گزری؟


ہفتے کی صبح 7 بجے احتساب عدالت کے اطراف میں پولیس کی نفری گاڑیوں سے اتر رہی تھی۔ سیکرٹیریٹ سے عدالت کی جانب جانے والے راستوں پر بالخصوص پیپلز ہاؤس کے سامنے اور سیکرٹیریٹ کے پاس پولیس اہلکار سازو سامان سے لیس ہو کر پوزیشنز سنبھال رہے تھے۔ اسلام پورہ کے محلے کے وہ راستے جو عدالت تک آتے ہیں انہیں رکاوٹیں لگا کر بند کیا گیا تھا۔ یہ سب انتظامات آج اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی پیشی کی وجہ سے تھے۔ احتساب عدالت کے فرسٹ فلور پر واقع سید نجم الحسن بخاری کی عدالت میں آج انہیں پیش کیا جانا تھا۔

عدالت لگنے کے وقت سے پہلے وہاں اکا دکا لیگی کارکن تھے مگر سادہ لباس میں ملبوس سیکورٹی اہلکار اتنے زیادہ تھے کہ یہ پہچاننا مشکل تھا کہ آپ کے پاس موجود آدمی شہباز شریف کی محبت میں یہاں آیا ہے کہ سیکورٹی اہلکار اپنی ڈیوٹی پر موجود ہے۔ کمرہ عدالت کے باہر بینچز پر دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں ایم پی ایز اور کارکنان بیٹھ چکے تھے۔ ان میں نمایاں سابق وزیر بلدیات منشا اللہ بٹ، ایم پی ایزعارف ہرناہ، عادل چٹھہ، شیخ علاؤالدین نمایاں تھے۔ 8 بجے کے بعد سب سے پہلے خاتون ایم پی اے صبا صادق وکلاء کے یونیفارم میں ملبوس کمرہ عدالت میں داخل ہوئیں ان کے پیچھے پیچھے چار پانچ وکیل بھی کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔

باہر سے رپورٹر سے اطلاع مل چکی تھی کہ میڈیا کے افراد کو عدالت سے باہر ہی روکنا شروع کردیا گیا ہے، میں نے اس موقع پر دوست سے کنفرمیشن بھی کی کہ کیا کمرہ عدالت میں صحافیوں کی موجودگی کے حوالے سے بھی کوئی مسئلہ ہے تو بتایا گیا کہ رجسٹرار صاحب کی طرف سے کہا گیا ہے میڈیا پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ کمرہ عدالت میں داخل ہونے پر منظر یہ تھا کہ کمرہ بھر چکا تھا۔ کمرے میں وکلاء اور مسلم لیگ ن کارکنان ہی نظر آرہے تھے۔ تھوڑی دیر میں جج صاحب عدالت میں آگئے کاز لسٹ میں آج تین کیس مزید لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک کیس کی سماعت کی اور دس منٹ بعد اپنے چیمبر میں چلے گئے۔

اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمرہ عدالت میں ہجوم بڑھتا جارہا تھا۔ ہر طرح کی سیکورٹی کے باوجود اب کمرہ عدالت کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ کمرے میں دو پنکھے اور ایک اے سی چل رہا تھا مگر حبس بڑھتا ہی جارہا تھا۔ ہم جائزہ لینے کے لیے کمرے سے باہر آئے تو باہر بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ واپس کمرہ عدالت میں جانے لگے تو سیکورٹی اہلکاروں تلاشی لیتے ہوئے کہہ رہے تھے کوئی موبائل اندر نہ لے کر جائے۔ لیکن یہ زبانی کلامی ایک بات تھی ایسا لگتا تھا یہ کہتے ہوئے انہیں بھی یقین تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ 9 بج کر 22 منٹ پر کمرہ عدالت میں شور مچا تو پتا چلا اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز آئے ہیں ان کے پیچھے ان کے بھائی سلمان شہباز تھے مگر انہیں روک لیا گیا۔

اس موقع پر کارکنان نے اونچی آواز میں کہنا شروع کردیا کہ یہ شہباز شریف کے بیٹے ہیں انہیں جانے دیں سیکورٹی نے انہیں کمرے میں جانے کی اجازت دے دی۔ حمزہ شہباز رہنماؤں سے ملے، روسٹرم کے سامنے پڑی کرسیوں پرسلمان شہباز اور حمزہ شہباز کو جگہ دی گئی ساتھ والی کرسیوں پر صبا صادق، خواجہ حسان اور وکلاء براجمان تھے۔ کمرہ عدالت میں رش وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا تھا مسلم لیگ ن لائرز ونگ کے ممبراور کارکنان حمزہ شہباز کے ساتھ سیلفیاں بنانے میں مشغول تھے۔ سلیم ضیاء، خرم دستگیر، سائرہ افضل تارڑ کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ پنجاب حکومت کے سابق ترجمان ملک احمد خان وکلاء کی یونیفارم میں ملبوس کمرہ عدالت میں کھڑے نظر آئے۔

حمزہ شہبازکبھی پر اعتماد تو کبھی پریشانی میں جبکہ سلمان شہبازکسی چیز کا ورد کرتے ہوئے گہری سوچ میں نظر آئے۔ جج صاحب کے سٹاف کی جانب سے فریقین کے وکلاء کو پیغام دیا گیا کہ رش کی وجہ سے سماعت کمرہ عدالت میں ممکن نہیں۔ 10بج 26 پر بتایا گیا کہ کمرہ عدالت میں رش ہونے کی وجہ سے سماعت معزز جج کے چیمبر میں ہوگی۔ نیب اور شہباز شریف کے وکلاء کو چیمبر تک پہنچایا گیا۔ مگر ٹھیک دس منٹ بعد کمرہ عدالت میں شہباز شریف کے سٹاف آفیسر کی جانب سے بتایا گیا کہ ہم چیمبر میں سماعت نہیں چاہتے ہم کمرہ عدالت میں ہی سماعت چاہتے ہیں۔ اس لیے صرف شریف فیملی اور متعلقہ وکلاء کمرہ عدالت میں رہیں باقی افراد باہر چلے جائیں۔ اس سے پہلے چیمبر میں سماعت کا سن کر کارکنان مایوس ہو کر باہر آگئے تھے باقی افراد کو کمرہ عدالت سے سیکورٹی نے نکال دیا۔

شہباز شریف معزز جج کے چیمبر میں ہی موجود تھے اسی دوران خاتون وکیل نے شہباز شریف زندہ باد کا نعرہ لگایا تو اسے لیگی رہنماؤں نے خاموش کروادیا۔ سماعت کا آغاز ہونے جارہا تھا اس دوران ایک وکیل نے بلند آواز میں کہنا شروع کردیا یہاں خفیہ ایجنسیوں کے افراد موجود ہیں جو نہیں چاہتے کہ عدالت میں سماعت ہو اس لیے کبھی کمرہ عدالت کا پنکھا بند کیا جارہا ہے کبھی لائٹ بند کی جارہی ہے۔ اس لیے آپ سب سے گزارش ہے تحمل رکھیں تاکہ سماعت کمرہ عدالت میں ہی ہو۔

10بج کر 44 منٹ پر شہباز شریف کو رینجرز کی سیکورٹی میں عدالت میں لایا گیا۔ دو منٹ بعد سماعت کا آغاز ہوا تو نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ شہباز شریف نے بطور وزیر اعلی اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ شہباز شریف کے اقدام سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا۔ نیب پراسیکیوٹرکا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے بورڈ آف ڈائریکٹر کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے منظور نظر افراد کو نوازا ہے ہمیں تفتیش کے لئے وقت چاہیے اسی لئے شہباز شریف کو پندرہ روز جسمانی ریمانڈ پر حوالے کیا جائے۔ شہباز شریف کے وکیل نے نیب کی درخواست کی مخالفت کر دی ہے۔

عدالت میں شہباز شریف نے موقف ختیار کیا کہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ میں نے ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہیں کی۔ میں نے صوبے کے دن رات کام کیا۔ صوبے کی عوام کے لیے اپنی نیند اور صحت خراب کی۔ اورنج ٹرین منصوبے میں قوم کے اربوں روپے بچائے۔ میں نے ایک ایک منصوبے کی خود نگرانی کی۔ شہباز شریف اپنے مخصوص انداز میں انگلی ہلا کر بات کرتے رہے ایک موقع پر انہوں نے جذباتی ہو کر کہا عوام کی ایک پائی بھی مجھ پر حرام ہےْ۔

شہباز شریف کی گفتگو کے دوران مسلسل ن لیگی کارکنان کی جانب سے کمرے کے دروازے پر دستک دی جاتی رہی۔ ایک موقع پر حمزہ شہباز نے کارکنوں کو تحمل سے رہنے کا کہا۔ ایک مرتبہ دستک پر معزز جج نے کمرہ عدالت کے پردے ہٹانے کا حکم دیا۔ دوسری مرتبہ پھر کمرہ عدالت کے باہر شور جاری رہا تو جج صاحب کی جانب سے حمزہ شہباز کو کہا گیا کہ آپ اپنے لوگوں کو چپ کروائیں۔

جب مسلسل تیسری مرتبہ حمزہ شہباز سماعت کے دوران کمرہ عدالت کی کھڑکی کے پاس باہر کھڑے کارکنوں کو چپ کروانے گئے تو باہر کھڑے کارکن نے کہا آپ لوگوں کی وجہ سے آج پارٹی تباہ ہوچکی ہے۔ شہباز شریف کی وکلاء ٹیم نے اپنے دلائل انگلش میں دیے اور درمیان میں اردو میں بات کی جبکہ نیب کی وکلاء ٹیم نے اردو میں دلائل دیے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2