برٹ کالونی، نذیر جونیئر، ویوین رچرڑز اور عمران خان ۔۔۔


ریلوے انجن کی سیٹی نے خیالات کا سلسلہ منتشر کردیا اور پلک جھپکتے پلیٹ فارم نمبر ون (جہاں سے سمجھوتہ ایکسپریس بھارت جاتی ہے) کے عقب میں بیس برس قبل برٹ کالونی میں پھینک دیا جہاں یادوں کی ایک دلدل ہے، یاروں کی بہاریں ہیں، بڑے بڑے گھروں میں راتیں جاگتی تھیں، موسیقی بجتی تھی، جلترنگ بجتے تھے، رفاقتوں اور رقابتوں کا پہلو در پہلو سلسلہ تھا۔ رومانس تھا، خواب تھے، کیف و مستی تھی، شرارت و شگفتگی تھی۔

میں نے زندگی کا سب سے بڑا اور شاید سب سے خوبصورت حصہ ریلوے کی برٹ کالونی لاہور میں گذارا۔ یہ عرصہ قریب قریب سترہ برس پر محیط ہے۔ برٹ کالونی میں علامہ اقبال سے لیکر محمد یوسف کرکٹر تک بہت سی مشہور شخصیتیں رہی ہیں۔ لالہ امرناتھ سے لے کر ویوین رچرڈز تک بہت سے لوگ اپنے چاہنے والوں کو ملنے آتے رہے ہیں۔ نذیر جونیئر نے ویوین رچرڈز کو تین بار ٹیسٹ سیریز میں آؤٹ کیا تو ویوین رچرڑز نذیر جونیئر کا دیوانہ ہو گیا اور کیا سماں تھا۔ برٹ کالونی کی تو جیسے قسمت جاگ گئی تھی۔ لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا ویوین رچرڈز کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے۔ دنیا میں اس جیسا بیٹسمین تھا بھی نہیں۔ یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے کہ نذیر جونیئر نے ویوین کو تین بار آؤٹ کیسے کیا ۔ یہ کمال تھا جاوید میانداد کا جس نے نذیر سے جو کہ ایک آ ف سپنر تھا کہا ، ” سالے! ویوین کو آؤٹ کرنے جائے گا تو بہت مارے گا۔ اسے بور کر دے۔ ویوین بور ہو کر آؤٹ ہوتا ہے۔ گیند آ ف سٹمپ سے سپن کرنے کی بجائے مڈل سے سپن کر جو رچرڑز کی پسلیوں کی جانب آئے اور شارٹ لیگ پر فیلڈر لے تاکہ وہ جھنجھلا کر شارٹ کھیلے بھی تو گیند سیدھا فیلڈر کے پاس جائے ۔ رچرڑز اس چکر میں آ گیا اور واقعی بور ہوکر آؤٹ ہوتا رہا ( یہ واقعہ مجھے نذیر جونیئر صاحب نے خود سنایا تھا)۔

 برٹ کالونی میں کرکٹ ایک مذہب کی طرح رائج تھی۔ اگر آ پ کوئی ادبی پس منظر رکھتے ہیں یا علم حاصل کرنے کے شوقین ہیں یا کوئی ایسا کمال رکھتے ہیں جو کرکٹ سے ہٹ کر ہے تو آ پ دوسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے تھے بل کہ آپ کا کمال کرکٹ کے شوق میں رکاوٹ بنتا تھا کیونکہ وہاں یا تو کرکٹ کھیلی جاتی تھی اور یا پھر کرکٹ پر مباحث ہو رہے ہوتے تھے۔

ویسے تو برٹ کالونی دوسری سپورٹس کا بھی گڑھ تھی کہ بیڈمنٹن کا قومی چیمپئن علی یار بیگ، ٹیبل ٹینس کا چیمپیئن عرفان اللہ خان اور باڈی بلڈر ظہور وہیں رہتے تھے لیکن برٹ کالونی میں یہ سب لوگ بھی مشہور کرکٹ کھیل کر ہی ہونا چاہتے تھے۔ ادھر شام ہوئی اور ادھر کارسن کرکٹ گراؤنڈ میں کرکٹ کا میلہ سج گیا۔ رات ڈھلی تو ہم لوگوں نے گھروں میں فلڈ لائٹ میں کرکٹ شروع کر دی ۔ تھک کر چور ہوئے تو کرکٹ پر تبصرے شروع ہو گئے لیکن کرکٹ کھیلنے کی ایک مصیبت بھی تھی اور وہ یہ کہ آ پ کا کوئی نام ضرور پڑتا تھا۔ چاہے آپ کتنے ہی بڑے طرم خان ہیں لیکن کرکٹ کے میدان میں برٹ والوں کے رواج اپنانے پڑتے تھے۔ جسے کپتان کہہ دیا، اس کے ابرو کے اشارے پر جنگ لگا دینی ہے۔ جس کی طرف سے کھیل رہے ہیں اس کے ساتھ کمٹمنٹ سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ جہاں پیسے لگے ہیں وہاں پہلی کمٹمنٹ ہے۔ گراؤنڈ میں اترو گے تو سکندر یا لودھی بنو گے۔ بڑھک بازی اور شیخیاں بگھارنے کا مسیحا کوئی نہیں۔ باہر آپ نے کتنے ہی قلعے فتح کیے ہوں، منوانا برٹ میں پڑے گا۔ آپ کا خاندانی حسب نسب کچھ بھی ہے، برٹ میں آپ عام آدمی ہیں۔

Viv Richards

 بڑے سے بڑے تیس مار خاں کو بھی برٹ میں وہی مقام حاصل ہوتا جو شاعری میں ,” کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا ” کو ہے یا جو پھلوں میں امرود کو ہے، جس کے بارے ہمارے دوست میاں توصیف کہا کرتے تھے، ” چو ہدری! امرود جناں مرضی مہنگا ہو جائے، پھل کہن نوں دل نہیں کردا”. برٹ میں مشہور ہوئے کچھ نام ملاحظہ کیجئے اور ان کی بہت معقول وجہ جان کر آپ حیران رہ جایئں گے مثلاً ایک صاحب تھے ضیاء کلہاڑا۔ وہ رن لیتے ہوئے ہوئے بہت تیز کال کرتے تھے، ” چل چل چل چل چل چل چل چل۔۔۔” اور ساتھ کھیلنے والا بے چارہ ان کی زبان کی رفتار سے دوڑتا تھا۔ پھر ایک صاحب تھے رشید ممکن۔ ان کے پاس میچ کھیلنے کی ایک ہی وجہ ہوتی تھی کہ ممکن ہے وہ چل جائیں ورنہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو تھا ہی۔ میچ پر کیوں کہ پیسے لگے ہوتے تھے لہذا پیسے لگانے والا اسی کو اٹھاتا تھا جو پانسہ پلٹ سکتا ہو۔ میں نے برٹ سے زیادہ مقابلہ اور مسابقت کا کھیل کہیں نہیں دیکھا۔ اب تو محمد یوسف بہت بدل گئے ہیں ورنہ یہ تو میچ سے باہر کھڑے جواریوں سے طے کر کے اندر جایا کرتے تھے کہ ٹوپی ہلاؤں تو سمجھیے ایک رن بناؤں گا اور پیڈ ہلاؤں تو سمجھیے چوکا لگاؤں گا۔ طارق، یوسف کا بھائی، گراؤنڈ سے باہر کھڑا ہوتا تھا اور لوگ اسے رقم پکڑاتے رہتے کہ ، سنگل پر پانچ سو، ڈبل پر ہزار” وغیرہ وغیرہ۔ عموماً لوگ وہاں سے ہزار دو ہزار کما کر نکلتے اور شام کو کارسن میں میچ ہر پیسے لگاتے۔ سپاٹ فکسنگ والا جواء دھرم پورہ میں بارہ دری والی گراؤنڈ میں ہوتا تھا۔

nazir junior

 ہر گیند پر پیسے لگ رہے ہوتے تھے اور رقم گھٹتی بڑھتی رہتی تھی لیکن محمد یوسف دھوکا بھی دے دیا کرتے تھے یعنی اگر منصوبہ ایک رن لینے کا ہے اور گیند چوکے والا مل گیا تو وہ چوکا ہی لگاتے تھے۔ بایر سے بہت گالیاں پڑتیں لیکن وہ مشاق ایسے تھے کہ نقصان پورا کر دیا کرتے تھے۔ بات ہو رہی تھی نام کی جو برٹ میں پڑے۔ کاکا ایک نک نیم ہوتا ہے لیکن وہاں کاکوں کی بھی قطار تھی مثلاً کاکا مونڈھا جسے ہر بری پرفارمنس پر اپنے کندھے کی تکلیف یاد آ جاتی، کاکا گھسنا ( مکہ) جسے میچ ہروانے پر مار پڑی کیونکہ ٹیم کے اندر کچھ لوگوں کو شک تھا کہ وہ بہت اچھا کھیلتے کھیلتے جان بوجھ کر آؤٹ ہوا تھا اور یہ صریحاً غداری تھی۔ پھر کاکا سادہ جس کی شاطرانہ چالیں ہارے ہوئے میچ میں لڑائی کرواتیں اور یوں جو پیسہ لگا ہوتا تھا وہ برابر ہو جاتا، کاکا کمینہ، جو اتنا ایماندار تھا کہ ہر ایک کی اس سے جان جاتی تھی کیوں کہ وہ اپنی ایمانداری کا بھرم رکھنے کے لیے عموماً اوٹ پٹانگ فیصلے سنا دیا کرتا تھا۔ کاکا میلا دل میں بغض رکھتا تھا اور کسی بہت اہم موقعہ پر بدلہ لینے کے لیے دوسرے کو رن آؤٹ کروا دیا کرتا تھا۔ محمد یوسف اسی کیٹیگری میں آتا تھا۔ ایک بار بھولے شری کانت کے ہاتھوں کاکا میلا کی بہت ٹھکائی بھی ہوئی تھی لیکن اس ٹھکائی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ بھولا جی کی معشوقہ نے ان کے کان بھرے تھے کہ کاکے میلے نے اسے میلی آ نکھ سے دیکھا یے۔ طاقت ور کے ساتھ کھڑی معشوقہ سے زیادہ خطرناک کوئی نہیں ہو سکتا ۔ وہ تخت و تاج بکوا سکتی ہے تو کاکا میلا کیا چیز تھا۔

لالہ امرناتھ

بہرحال کرکٹ بہت سی رقابتوں اور حساب کتاب چکانے کا بھی ایک ذریعہ ہوتا تھا۔ ناموں کی بات ہو رہی تھی بعض نام دو تین الفاظ پر مشتمل ہوتے اور اپنے دامن میں ایک واضح کہانی، سماجی رتبہ اور واقعاتی حقیقت لیے ہوتے تھے مثلاً شعبان مولوی دا منڈا ، عاطف دو کل لے ، میدا مرغی چور، رشید باندریاں والا ، ٹیڑھی گردن ملک جی ، سلیم لفڑا لے لو علیم ! اللہ جھوٹ نہ بلوائے وغیرہ وغیرہ۔ سلیم سانوں کی، ایک صاحب تھے جو سارے جہاں کا درد دل میں لیے پھرتے تھے اور ہر وقت کڑھتے رہتے لیکن سارے رونے دھونے کے بعد لفڑا لے لو کہہ کر مطمعن ہو جاتے۔ عاطف دو کل لے ذرا توتلے تھے اور دو کل لے دراصل “دو کر لے” ہے ۔ وکٹوں کے درمیان بھاگتے اور کہتے چلے جاتے، ” دو کل لے ، دو کل لے ، دو کل لے” چاہے رنز تین بنا چکے ہوں کہتے یہی تھے کہ ، دو کل لے۔ میرے بھی عجیب و غریب نام تھے مثلاً گدھ دیاں اکھاں والا ، بڈھی روح، نیل میلنڈر، رچی رچرڈسن ۔ کوئی اور برا نام ہو تو مجھ علم نہیں لیکن یہ نام تو مختلف لوگوں نے دیے ہوئے تھے اور نیل میلنڈر تو اب بھی دوستوں میں مقبول ہے۔ ایک بہت ہی معتبر نام تھا شیم شیم بھائی۔ نام تو دراصل شمیم بھائی تھا لیکن اپنی ٹیم کی کھلی جانبداری کرنے کی وجہ سے شیم شیم بھائی کہا جاتا تھا۔ عمران خان جب جم خانہ ( لارنس باغ) میں کھیلنے آ تے تو عموماً شمیم بھائی امپائر ہوتے تھے۔ ایک بار اشارہ دیا کہ خان صاحب کا پاؤں کریز کے اوپر پڑ سکتا ہے کیونکہ خان صاحب جمپ لے کر عین کریز سے چند سینٹی میٹر پہلے لینڈ کر رہے تھے لیکن خان صاحب کی پرفیکشن دیکھیں کہ بولے فکر نہ کرو یہیں تک رہے گا پاؤں۔

معاف کیجیے گا میں بتانا بھول گیا کہ لالہ امرناتھ جو مہندر امرناتھ کے والد تھے وہ برٹ کیا کرنے آ ئے تھے۔ دراصل برٹ میں ایک کرکٹ گراؤنڈ ہے کارسن کرکٹ گراؤنڈ (جس کا اوپر تذکرہ کیا ہے میں نے) جو برٹش دور سے چلا آ رہا ہے اور لالہ امرناتھ تقسیم سے قبل وہاں کرکٹ کھیلتے تھے اور ایک لڑکا نورالدین (بعد میں بابا نوری کے نام سے مشہور ہوئے) ان کے لیے وکٹ بناتا تھا ۔ برسوں بعد جب لالہ امرناتھ کمنٹری کرنے لاہور آ ئےتو بابا نوری کی کٹیا میں مٹھائی لے کر آ ئے۔ بابا نوری ہمارے دور تک وکٹ بناتا رہا تھا 1992-93 تک) گو کہ ہم بہت بعد تک کھیلتے رہے لیکن بابا نوری کی وکٹ پر کھیلنے کا اعزاز بہر حال حاصل تھا۔ علامہ اقبال کا گھر، جاوید منزل، اسی کالونی میں واقع ہے اور علامہ صاحب عموماً ٹہلنے کے لیے بوگی روڑ پر جو اس زمانہ میں ظاہر ہے بہت پرسکون ہو گی ، آ تے تھے۔ یہ سڑک جاوید منزل کے پیچھے ہے۔ برٹ میں سیاست ، ثقافت، رومانس ، مہم جوئی، نشہ، فلمیں سب کچھ تھا لیکن برٹ میں رہتے ہوئے یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ آ پ ساری دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ برٹ سے نکلنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ دنیا بہت بڑی بھی ہے اور ظالم بھی ۔ آپ برٹ کے اصول باہر کی دنیا پر آ زمائیں گے تو منہ کی کھانا پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).